Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو
28۔ 30:۔ اوپر جن لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا ذکر تھا اسی کو پورا کرنے کے لیے فرمایا کہ کسی موقع پر تنگدستی کے سبب سے اگر ان لوگوں کو دینے کے قابل کچھ نہ ہو تو اللہ کے فضل کی توقع پر ان سے آئندہ سلوک کرنے کا وعدہ نرم لفظوں میں کیا جائے اب آگے بخیلی اور فراخ دستی کی ایک مثال بیان فرمائی کہ اس حسن سلوک میں نہ انسان بخیل بن جائے جیسے کسی نے اس کا ہاتھ گردن میں رسی سے اس طرح باندھ دیا ہے کہ وہ دینے کے نام سے ہاتھ نہیں بڑھا سکتا نہ ایسا سخی بن جائے کہ دینے کے بعد پچھتانا پڑے۔ معتبر سند سے طبرانی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا جو شخص اپنے غریب رشتہ داروں کو چھوڑ کر غیروں کو صدقہ خیرات دیوے گا تو ایسے شخص کا دینا بارگاہ الٰہی میں اجر کے قابل نہ ٹھہرے گا 1 ؎۔ آیتوں میں بےجا بخیلی اور بےجا سخاوت کا مثال کے طور پر جو ذکر ہے اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ باوجود قدرت کے قریب کے رشتہ داروں کو کچھ نہ دینا بےجا بخیلی میں داخل ہے اور غریب رشتہ داروں کو چھوڑ کر غیروں کو کچھ دینا بیجا سخاوت میں داخل ہے کیونکہ اس حدیث کے موافق قیامت کے دن جب اس سخاوت کا اجر زائل ہوجائے گا تو ایسی بیجا سخاوت پر ضرور انسان کو پچھتانا پڑے گا۔ اوپر ذکر تھا کہ تنگدستی کے وقت غریب رشتہ داروں سے آئندہ سلوک کرنے کا وعدہ کیا جائے اب آگے تنگ دست لوگوں کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کو خوشحال اور کسی کو تنگدست جو بنایا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کے خزانے میں کچھ کمی ہے بلکہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو وہی خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔ اس واسطے اس نے ہر ایک کو مصلحت کی موافق خوشحال اور تنگدست بنایا ہے سورة زخرف میں آوے گا کہ بعضوں کو خوشحال اور بعضوں کو تنگدست بنانے میں اتنی بڑی مصلحت ہے جس پر دنیا کا انتظام چل رہا ہے حاصل یہ ہے کہ سورة زخرف کی جس آیت میں دنیا کے اس انتظام کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے مثلا صحیح سند سے ترمذی صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں کعب ؓ بن عیاض سے روایت ہے اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے دنیا کے مال ومتاع کو امت محمدیہ کے حق میں بڑی فتنہ و فساد کی چیز فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بعضے نیک لوگوں کو فتنہ و فساد سے بچانے کی مصلحت کے لیے تنگدست رکھا گیا ہے 2 ؎۔ صحیح سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا دنیا کی راحت اور خوشحالی کی قدر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو دنیا میں نافرمان لوگوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ ملتا 3 ؎۔ اس حدیث کو آخر آیت کے ساتھ ملانے سے آخری آیت کا مطلب اچھی سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں کے خوشحال لوگ غریب مسلمانوں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ جس پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے دنیا میں وہی شخص خوش حالی سے رہتا ہے ان لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا کی خوشحالی اور تنگ دستی تو اور مصلحتوں کے سبب ہے جن مصلحتوں کا سمجھنا ان لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ 1 ؎ الترغیب الترہیب ص 164 ج ا الترہیب من ان یسئال الانسان الخ۔ 2 ؎ الترغیب ص 233 ج 2 باب الترغیب فی الزہدفی الد نیا الخ بروایت کعب بن عیاض 12 منہ۔ 3 ؎ تفسیر ہذاص 250 ج 2۔
Top