Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر کبھی تغافل کرے تو ان کی طرف سے انتظار میں اپنے رب کی مہربانی کے جس کی تجھ کو توقع ہے تو کہہ دے ان کو بات نرمی کی۔
خلاصہ تفسیر
اس آیت میں حقوق العباد سے متعلق پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقت حاجت مندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینے کا انتظام نہ ہو سکے تو اس وقت بھی ان کو روکھا جواب نہ دیا جائے بلکہ ہمدردی کے ساتھ آئندہ سہولت کی امید دلائی جائے آیت کی تفسیر یہ ہے۔
اور اگر (کسی وقت تمہارے پاس ان لوگوں کو دینے کے لئے مال نہ ہو اور اس لئے) تم کو اس رزق کے انتظار میں جس کی اپنے پروردگار سے توقع ہو (اس کے نہ آنے تک) ان سے پہلوتہی کرنا پڑے تو (اتنا خیال رکھنا ان سے نرمی کی بات کہہ دینا (یعنی دل جوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دیں گے دل آزار جواب مت دینا)
معارف و مسائل
اس آیت میں رسول کریم ﷺ اور ان کے واسطے سے پوری امت کی عجیب اخلاقی تربیت ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے اعراض کرنے پر مجبور ہو تو بھی آپ کا یہ اعراض مستغنیانہ یا مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونا چاہئے بلکہ یہ پہلوتہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے
اس آیت کے شان نزول میں ابن زید کی روایت یہ ہے کہ کچھ لوگ رسول کریم ﷺ سے مال کا سوال کیا کرتے تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ ان کو دیا جائے گا تو یہ فساد میں خرچ کریں گے اس لئے آپ ان کو دینے سے انکار کردیتے تھے کہ یہ انکار ان کو فساد سے روکنے کا ذریعہ ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی)
مسند سعید بن منصور میں بروایت سباء بن حکم مذکور ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس کچھ کپڑا آیا تھا آپ نے اس کو مستحقین میں تقسیم فرما دیا اس کے بعد کچھ اور لوگ آئے جبکہ آپ فارغ ہوچکے تھے اور کپڑا ختم ہوچکا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
Top