Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر کبھی تو ان سے بےتوجہی کر ہی لے، اپنے رب کی کسی رحمت کی تلاش کی وجہ سے، جس کی تو امید رکھتا ہو تو ان سے وہ بات کہہ جس میں آسانی ہو۔
وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ۔۔ :”اِمَّا“ ”إِنْ“ اور ”مَا“ سے مرکب ہے، جس میں ”مَا“ ”إِنْ“ کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”اگر کبھی“ کیا گیا ہے، یعنی ذی القربیٰ ، مسکین اور ابن السبیل سے اعراض (بےرخی) بخل کرتے ہوئے ہرگز جائز نہیں، صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لیے اس وقت کچھ نہ ہو، ہاں تمہیں اللہ کی رحمت (حلال اور وافر رزق) کے حصول کی امید ہو (جس سے ناامید ہونا کبھی جائز نہیں) تو ان سے ایسے الفاظ میں معذرت کرلو جن میں نرمی اور آسانی ہو۔ ”مَیْسُوْراً“ لفظ عموماً مجہول ہی آتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ”یُسِرَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَیْسُوْرٌ، عُسِرَ فُلَانٌ فَھُوَ مَعْسُوْرٌ، نُحِسَ فُلَانٌ فَھُوَ مَنْحُوْسٌ، سُعِدَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَسْعُوْدٌ“ اس آیت کی مزید وضاحت سورة بقرہ (261) میں دیکھیں اور ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ کیا فرماتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورة توبہ کی آیت (92)۔ مہائمی ؓ نے اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے کہ اگر تم مذکورہ لوگوں سے اعراض اس وجہ سے کرو کہ ان سے اعراض کرنے میں تمہیں رب تعالیٰ کی رحمت کے حصول کی امید ہو، مثلاً تمہیں معلوم ہو کہ اگر اسے مال دیا تو یہ اسے نشے پر، زنا پر یا کسی گناہ پر صرف کرے گا تو تب بھی نرمی اور خوش اسلوبی سے اس سے معذرت کرو۔ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کی بھی گنجائش ہے۔
Top