Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو
(28) اور اپنے رب کی طرح طرف سے جس رزق کے آنے کی تجھے امید ہو اور اس پوشیدہ مال کے انتظار میں تجھے ان قرابت داروں اور محتاجوں سے بطور شفقت اور حیا کے پہلو تہی کرنا پڑے تو پھر ایسی صورت میں دلجوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دے دیا جائے گا۔ شان نزول : (آیت) ”۔ واما تعرضن عنہم“۔ (الخ) سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ مزنیہ کے کچھ لوگ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں سواری حاصل کرنے کے لیے آئے آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں تمہیں سوار کر دوں تو وہ روتے ہوئے غم و افسوس کے ساتھ واپس ہوئے اور رسول اکرم ﷺ کے انکار سے یہ سمجھے کہ آپ ان سے ناراض ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور اگر اپنے رب کی طرف جس رزق کے آنے کی امید ہے آپ کو اس کے انتظار میں ان سے پہلو تہی کرنا پڑے تو ان سے نرمی کی بات کہہ دینا، اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ان مساکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ رسول اکرم ﷺ سے مانگا کرتے تھے۔
Top