Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر آپ کبھی اعراض کریں ان سے اپنے رب کی رحمت کو تلاش کرتے ہوئے جس کو آپ امید رکھتے ہیں ، تو ان کے لیے نرمی سے بات کہہ دیں ۔
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ پندرہ اصول بیان فرمائے ہیں جن پر اسلامی معاشرہ احسن طریقے سے چل سکتا ہے یہ گویا اسلامی ریاست یا خلافت کا منشور ہے ، اللہ نے پہلا اصول یہ بیان فرمایا کہ اس کی وحدانیت کو مانو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، دوسرا اصول یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور ان کے ساتھ نرمی ، عاجزی اور تواضع سے پیش آؤ ، اور بڑھاپے کی حالت میں ان کے ساتھ خاص طور پر احسان کرو ، اگرچہ ان کے مزاج میں درشتگی بھی آجائے تو انہیں اف تک نہ کہو ، پھر فرمایا کہ ماں باپ کے لیے نہایت عاجزی سے دعا بھی کریں کہ اے اللہ ! ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے تیسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ قرابتداروں مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرو ، ان میں فرضی واجبی اور نفلی تمام حقوق شامل ہیں ، پھر چوتھا اصول یہ بیان فرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو ، معاصی کے امور میں ہرگز خرچ نہ کرو ، رسومات باطلہ اور بدعات کے راستے میں فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے پروردگار کا سخت ناشکر گزار ہے خدا نے اسے طاقت اور موقع دیا مگر اس نے اللہ کو ناراض کیا اور ہمیشہ کے لیے ملعون ومردود ٹھہرا ۔ (5) (رد جمیل ) اسلامی معاشرے کے تیسرے اصول میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے مالی حقوق ادا کرنے کا حکم دیا تھا ، اب اس حکم کا دوسرا پہلو بھی بیان کیا ہے کہ اگر کسی وقت آپ اتنے صاحب استطاعت نہ ہوں کہ قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرسکیں ، تو پھر ان مستحقین سے کیسا سلوک کرنا چاہئے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واما تعرضن عنھم “ اور اگر آپ کسی وقت ان حقداروں سے اعراض کریں ، آپ کے پاس ادا کرنے کے لیے مال موجود نہیں ہے (آیت) ” فقل لھم قولا میسورا “۔ لو آپ ان کے لیے نرمی سے بات کریں اور معذرت کرلیں کہ وہ مالی اعانت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جب ہوں گے تو پھر ان کی خدمت بجا لائیں گے ، مطلب یہ ہے کہ سائلین سے سختی سے پیش نہ آئیں ، مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے اس طریقہ تکلم کو رد جمیل سے تعبیر کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں پانچویں اصول کے طور پر متعارف کرایا ہے ، درمیان میں اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ ان مستحقین سے اعراض کریں ، اس حالت میں (آیت) ” ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا “۔ کہ آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تلاش میں ہیں یعنی مال کے حصول کی کوشش کی میں ہیں اور اس کی امید بھی رکھتے ہیں تو ان لوگوں سے نہایت نرمی سے گفتگو کریں کہ اگر اللہ نے مال دیا تو ضرور ان کا حق ادا کریں گے ۔ محتاجوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی قطعا اجازت نہیں دی گئی ، سورة بقرہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کا قانون بیان فرمایا ہے وہاں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی “۔ (البقرہ ۔ 263) اچھی اور مغفرت کی بات کہہ کر خوش اسلوبی سے ٹال دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد سائل کو قولی یا فعلی طور پر ایذا پہنچائی جائے اور یہی رد جمیل ہے ۔ (حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ) ایک موقع پر حضور ﷺ کے پاس ایک محتاج آیا ، اس نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت تو میرے پاس کوئی چیز موجود نہیں ہے لہذا تم میرے حوالے سے فلاں شخص سے جا کرلے لو میں بعد میں اس کو ادا کر دونگا حضرت عمر ؓ پاس بیٹھے تھے ، عرض کیا ، حضور ! جو چیز آپ کے پاس موجود نہیں ہے اس کی ادائیگی کے لیے تو آپ مکلف نہیں ہیں پھر اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں ، اس بات پر حضور ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا وہیں ایک انصاری نوجوان بھی بیٹھا تھا ، اس نے عرض کیا ” انفق ولا تخف من ذی العرش اقلا لا “۔ حضور ﷺ ! آپ خرچ کریں اور رب العرش سے کسی کمی کا خطرہ محسوس نہ کریں ، وہ اپنی رحمت سے بھیجتا رہے گا اور آپ خرچ کرتے رہیں گے یہ بات سن کر حضور ﷺ کی ناراضگی دور ہوگئی اور آپ خوش ہوگئے ۔ حضور ﷺ کے خلق عظیم کا تقاضا تھا کہ آپ کبھی بھی کسی سائل کو رد نہیں کرتے تھے یا تو خود دے دیتے تھے اور یا کسی دوسرے کے حوالے کردیتے تھے ، بعض اوقات آپ یہ بھی فرماتے کہ بھائی ! فلاں وقت آنا ، غرضیکہ آپ کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیتے تھے عام لوگوں کے لیے بھی یہی قانون ہے کہ اگر کسی وقت پاس کچھ نہیں ہے تو رد جمیل سے کام لیتے ہوئے اچھے طریقے سے جواب دیں ۔ (6) (خرچ میں میانہ روی) اب چھٹا اصول یہ بیان کیا جارہا ہے (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک “۔ خرچ کرنے کے معاملہ میں اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ نہ جکڑ لیں یعنی بخل نہ کریں جو شخص مال کی موجودگی میں خرچ نہیں کرتا اس کا ہاتھ گویا اس کی گردن کے ساتھ بندھا ہوا ہے بخل پرلے درجے کی بداخلاقی اور تباہ کن معاشرتی بیماری ہے قرآن میں اس کو فحش بھی کہا گیا ہے غرضیکہ پہلی بات یہ ہے کہ بخل سے کام نہ لیں اور دوسری بات یہ کہ (آیت) ” ولا تبسطھا کل البسط “۔ اور اپنے ہاتھ کو پوری طرح پھیلا کر بھی نہ رکھیں کہ جو کچھ پاس ہے سب دے دیا اور پھر نادار ہو کر بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ کو یہ بھی پسند نہیں ، بلکہ میانہ روی پسند ہے کہ خرچ بھی کرو اور اپنی ضروریات کے لیے پاس بھی رکھو ، یہ عام لوگوں کے لیے قانون ہے ۔ (حضور کے لیے استثنائ) امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ اس قانون سے مستثنی ہے آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی ” کان لایدخر لغد “ کہ آپ کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے بلکہ سوہ کچھ آتا سب خرچ کردیتے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا بھی ہو تو میں ایک یا تین دینار واجب الادا سارا تقسیم کر دوں ، تمام مال مستحقین کو ادا کر دوں ، آپ کی اتباع میں بعض خواص بھی آپ کی سنت پر عمل کرتے تھے اور آپ قبول فرما لیتے تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنا سارا ثاثہ بھی پیش کرکے مطمئن رہتے تھے اور حضور اسے قبول کرتے تھے البتہ عام لوگوں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ایک دفعہ ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور انڈے کے برابر سونے کی ڈلی پیش کی کہ یہ صدقہ ہے اور کہا کہ بخدا میں اس کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہیں ، آپ نے وہی ڈلی زور سے اس شخص کی طرف واپس پھینکی کہ اگر اس کو لگ جاتی تو زخمی ہوجاتا فرمایا ت میں سے کوئی شخص اپنا سارا اثاثہ لے کر آجاتا ہے اور پھر پریشان ہو کر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے ، یہ بات درست نہیں ہے پہلے اپنی ضروریات پوری کرو اور پھر صدقہ کرو ۔ ایک دفعہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں والا خستہ حال آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے لوگوں کو ترغیب دلائی تو اس کے لیے کپڑے جمع ہوگئے ، حضور ﷺ نے اس کی حالت کے پیش نظر اس شخص کو دو کپڑے عطا فرمائے ، آپ نے لوگوں کو پھر صدقہ کی ترغیب دلائی اس پر وہی شخص اٹھا اور دو میں سے ایک کپڑا صدقہ میں پیش کردیا حضور ﷺ اس پر بھی ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس شخص کی خاطر میں نے لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلائی ، لوگوں نے اس کے لیے کپڑے دیے اور اس نے ان میں سے ایک پھر واپس کردیا ہے ، یہ کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ اس کی اعانت کے لیے تو یہ ساری کاروائی ہوئی اور اس نے پھر احتیاج کی طرف قدم بڑھایا۔ بہرحال عام لوگوں کے لیے یہی قانون ہے کہ نہ تو بخل سے کام لیں اور نہ سب کچھ خرچ کر کے خود محتاج ہوجائیں ، اس کی بجائے درمیانہ راستہ اختیار کریں جسے اقتصاد کہا جاتا ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے ” الاقتصاد نصف المشعیۃ “ یعنی میانہ روی آدھی معیشت ہوتی ہے آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے ” ما عال من اقتصد “ جس نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی محتاج نہیں ہوگا ، ساری خرابی افراط وتفریط کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس سے اجتناب کرکے میانہ روی اختیار کرنی چاہئے ۔ (منفق اور ممسک) حدیث شریف میں آتا ہے کہ منفق (خرچ کرنے والے) اور ممسک (بخیل) کی مثال ایسی ہے جیسے دو آدمیوں کے گلے سے لے کر ہنسلی کی ہڈی تک دو جبے ہوں ، خرچ کرنے والے آدمی کا جبہ پھیلتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے پاؤں بھی اس میں ڈھک جاتے ہیں اس کے برخلاف بخیل آدمی کا جبہ کوشش کے باوجود پھیلتا نہیں بلکہ اسکی کڑیاں مزید مضبوط ہو کر جبہ سکڑ جاتا ہے ۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ (حضرت زبیر ؓ کی بیوی) نے عرض کی حضور ﷺ ہمارے پاس مال جمع تو ہوتا نہیں ، خاوند جو کچھ کمال کر لاتا ہے اس سے بمشکل گزر بسر ہوتی ہے بعض اوقات دروازے پر محتاج بھی آجاتے ہیں تو کیا میں اس معمولی مال میں کچھ خرچ کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ، ہاں تم عرف کے مطابق بغیر اجازت خاوند خرچ کرسکتی ہو لیکن شرط ی ہے کہ (آیت) ” غیرمفسدۃ “۔ اپنے خاوند کے مال کو بگاڑنے والی نہ ہو ، معقول طریقے سے محتاجوں کی خدمت کرو ، کسی کو کھانا کھلا دیا ، کسی پڑوسی کو ہدیہ بھیج دیا وغیرہ وغیرہ فرمایا اگر تم ہاتھ روک لو گی تو اللہ تعالیٰ بھی ہاتھ روک لے گا ، اور اگر سمیٹ سمیٹ کر رکھو گی تو اللہ تنگی ڈال دے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رات گزار کر ہر صبح جب بندے صحت وسلامتی کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ایک فرشتے دعا کرتا ہے ” اللہم ات منفقا خلفا “۔ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کے خرچ کا بدلہ عطا کر یعنی اس جگہ مزید عطا فرما اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے اللہم ات ممسکا تلفا اے اللہ ! بخیل کے مال کو تلف کردے ، امام ابن عربیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسکا مطلب بھی یہ ہے کہ اس شخص کو خرچ کر نیکی توفیق عطا فرما ، قرابت داروں ، محتاجوں ، یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرنا بڑا نیکی کا کام ہے تو حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” مایخرج رجل شیئا من الصدقۃ حتی یفک لحی سبعین شیطنا “۔ (مستدرک حاکم ومسند احمد) کوئی شخص صدقہ نہیں نکالتا جب تک کہ ستر شیطانوں کے جبڑے نہ ٹوٹ جائیں ، شیطان چاہتا ہے کہ کوئی شخص فی سبیل اللہ خرچ نہ کرے پھر جب خرچ کرنے والا خرچ کرتا ہے تو گویا وہ شیطانوں کے جیڑے توڑ کر ایسا کرتا ہے ، بہرحال قانون یہ بیان فرمایا کہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ جکڑ کر نہ رکھو یعنی بخل نہ کرو ، اور نہ ہی ہاتھ کو اتنا کشادہ کر دو کہ سب کچھ خرچ کردینے کے بعد خود محتاج ہو کر بیٹھ جاؤ ، فرمایا (آیت) ” فتقعد ملوما محسورا “۔ پھر بیٹھ جاؤ گے ملامت کیے ہوئے اور تھکے ہارے ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ” ملوما “ کا تعقل پہلے حصے یعنی بخل کے ساتھ ہے کہ اگر بخل کرلو گے تم تم پر ملامت آئے گی کہ کتنا بخیل آدمی ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک (1) (مسنداحمد ص 308 ج 3 وکنز العمال س 357 ج 1 (فیاض) بھی ہے ” ای داء ادوء من البخل “ بخل سے بڑھ کر کون سی روحانی بیماری ہوسکتی ہے زہیر بن ابی سلمہ شاعر بھی کہتا ہے ۔ ومن یک ذا فضل فیبخل بفضلہ علی قومہ یستغن عنہ ویذمم : جو آدمی صاحب مال ہونے باوجود اپنی قوم کے مستحقین پر خرچ نہیں کرتا اس سے استغناء برتا جائیگا اور وہ لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہو کر رہ جائے گا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ” محسورا “ کا تعلق ” ولا تبسطھا “ سے ہے یعنی اگر ہاتھ کو زیادہ کشادہ کر دو گے اور سب کچھ دے بیٹھو گے تو پھر تمہاری حالت تھکے ہوئے آدمی جیسی ہوجائے گی جو بےبس ہو کر رہ جاتا ہے لہذا خرچ بھی کرو اور اپنی جائز ضرورت کا بھی خیال رکھو ، شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں کہ کسی محتاج کو دیکھ کر بےتاب نہ ہوجاؤ کیونکہ اس کی حاجت روائی تیرے ذمہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے مگر یہ باتیں اللہ نے اپنے پیغمبر کو فرمائی ہیں ، جو بیحد سخی واقع ہوئے تھے البتہ جس شخص سے مال نہ نکل سکے اس کو دینے کا پابند کیا ہے ، بخیل کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح کوئی طبیب مریض کی حالت کے مطابق گرم طبیعت والے کو سرد اور سرد طبیعت والے کو گرم دوائی دیتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ بخیل کو خرچ کرنے اور کشادہ ہاتھ کو سنبھل کر چلنے کی نصیحت کرتا ہے ،۔ (مصلحت خداوند) فرمایا (آیت) ” ان ربک یبط الرزق لمن یشآء ویقدر “۔ بیشک تیرا پروردگار کشادہ کرتا ہے روزی جس کی چاہے اور تنگ کرتا ہے جس کی چاہے ، اس کی مصلحت کو وہ خود ہی جانتا ہے کوئی دوسرا اس سے واقف نہیں ہوتا ، حدیث شریف میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ میرے بعض بندے ہیں کہ ان کے ساتھ مالداری ہی زیادہ مناسب ہوتی ہے اگر میں ان کو مال نہ عطا کروں تو ان کا دین ہی بگڑ جائے ، فرمایا بعض آدمیوں کے ساتھ ناداری ہی زیادہ مناسب ہوتی ہے اگر میں ان کو مال دے دوں تو ان کا دین ہی بگڑ جائے لہذا میں اپنی حکمت کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہوں اور کسی کو کم (آیت) ” انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا “ بیشک وہ اپنے بندوں کی خوب خبر رکھنے والا اور ہر ایک کی کیفیت نیت عمل اور ارادے پر نگاہ رکھنے والا ہے وہ ہر ایک کے حال کو بہتر سمجھتا ہے تنگی اور کشادگی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی حکمت کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، تمہارا فرض یہ ہے کہ اس کے قوانین کی پابندی کرو کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے ، اللہ نے مال دیا ہے تو بخل نہ کرو اور نہ اتنا خرچ کرو کہ خود نادار ہوجاؤ میانہ روی ہی تمہاری لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہے ۔
Top