Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر کبھی تجھے اپنے رب کی اس روزی کے تلاش کرنے کی وجہ سے تجھ کو توقع ہو ان مستحقین سے پہلو بچانا پڑے تو ان سے نرم بات کہہ دیا کر۔
-28 اور اگر کسی وقت مذکورہ اہل حاجت کے دینے کے لئیت یرے پاس کچھ نہ ہو اور تو اپنے رب کی اس روزی کی اور مال کی تلاش میں ہو جس کی توقع اور امید ہے اور اس مفلسی کی وجہ سے تجھ کو ان اہل حاجت سے پہلو بچانا اور اعراض کرنا پڑے تو ان سے نرم بات کہہ دیا کرو اور ان کی دل جوئی کا خیال رکھ۔ یعنی اگر کوئی ایسا موقعہ ہو کہ تمہارے پاس کچھ دینے کو نہ ہو اور تم خود اپنے رب کے اس مال کی یا روزی کی تلاش میں ہو جس کی تم کو اپنے پروردگار سے مل جانے کی امید ہو اور اس منتظرہ رزق یا مال کے آنے تک تو ان اہل حاجت سے پہلو بچانا چاہے تو اتنا ضرور کیا کر کہ اہل حاجت سے نرم بات کہہ دیا کر کہ اس وقت کچھ نہیں ایک جگہ سے آنے والا ہے اور مجھ کو امید ہے لہٰذا جب آجائے تو تیری خدمت کر دوں گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو کوئی سخاوت کرتا ہے اور ایک وقت اس کے پاس نہیں تو اللہ کے ہاں امید والے کا محروم جانا خوش نہیں آتا اس محتاج کی قسمت سے اللہ سخیوں کو بھیج دیتا ہے۔ اس واسطے اگر ایک وقت تو نہ دے سکے تو میٹھا جواب کہہ کر اگلی جزائیں برباد نہ ہوں۔ 12 چونکہ اللہ تعالیٰ نے امید والے کا محروم جانا پسند نہیں کرتے اور وہ خود بھی امید والے کو خالی نہیں لوٹاتے۔ اسی لئے فرمایا ہے۔ “ ” ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا۔ “
Top