Al-Qurtubi - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو
آیت نمبر 28 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اپنے اس قول کے ساتھ خاص کیا ہے : واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃٍ من ربک ترجوھا اور یہ انتہائی عجیب اور خوبصورت تاویب ہے اور انتہائی عمدہ اور لطیف قول ہے، یعنی آپ ان سے غنی اور قدرت کے ہوتے ہوئے حقیر سمجھنے والوں کے اعراض کی طرح اعراض نہ کریں کہ آپ انہیں محروم کردیں۔ بلاشبہ کسی عارض آنے والے عجز اور پیش آنے والی رکاٹ (تنگدستی) کے وقت آپ کا ان سے اعراض کرنا (منہ پھیرنا) جائز ہے، اور آپ اس وقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خوشحالی کا دروازہ کھولنے کی توقع اور مید رکھیں تاکہ آپ اس کے سبب سائل کی دلجوئی اور غمخواری کرسکیں، پس اگر آپ پر ایسی حالت طاری ہو تو اس دوران سے بڑمی نرمی کے ساتھ بات کرو۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس کے سبب نزول کے بارے میں ابن زید نے کہا ہے : یہ آیت ایک قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مانگتے تھے اور آپ انہیں دینے سے انکار فرما دیتے تھے، کیونکہ آپ ان کے بارے یہ جانتے تھے کہ وہ مال فساد وغیرہ پھیلانے میں خرچ کرتے ہیں، پس ان سے رغبت کے تحت منہ پھیر لیتے تھے کہ ان کو فساد سے روکنے میں اجر ہے تاکہ ان کے فساد میں ان کے معاون اور مددگار ثابت نہ ہوں۔ اور عطا خراسانی نے قول باری تعالیٰ : واما تعرض ضمق عنھم ابتغآء رحمۃٍ من ربک ترجوھا کے بارے میں کہا ہے : یہ والدین کے ذکر میں نہیں ہے، (بلکہ) مزینہ قبیلے سے کچھ لوگ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے وہ آپ سے سواریوں کا مطالبہ کرنے لگے، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” میں کوئی شے نہیں پاتا جس پر میں تمہیں اٹھاؤں “ (سوار کروں) پس وہ واپس پھرے اس حال میں کہ ان کی آنکھیں غم کے آنسو بہارہی تھیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃٍ من ربک ترجوھا اس میں رحمۃ سے مراد الفیء (مال فئ) ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : فقل لھم قولاً میسورًا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے لئے دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، یعنی ان کے لئے اپنی دعا کے ساتھ ان کا فقرو افلاس ان پر آسان کردو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ان کے لئے ایسی دعا کرو جوان کے لئے فتح اور اصلاح کو متضمق ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : واما تعرضمن کا معنی ہے : یعنی اے محمد ! ﷺ اگر آپ اپنے ہاتھ کے تنگ ہونے کی وجہ سے انہیں دینے سے منہ پھیریں تو اس اثنا میں ان سے بات کرو بڑی نرمی سے کرو، یعنی انتہائی حسین اور خوبصورت انداز میں بات کریں اور اپنا عذر بیان فرمادیں، اور ان کے لئے وسعت رزق کی دعا فرمادیں، اور یہ کہیں : جب میں نے وسعت پائی تو میں ضرور دوں گا اور عزت و تکریم بھی کروں گا، کیونکہ مواسات اور غمخواری کا عمل اپنے نفس کی خوشی اور خوشحالی کی حالت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور آپ ﷺ سے جب کسی چیز کے بارے سوال کیا جاتا اور آپ کے پاس دینے کے لئے وہ چیز نہ ہوتی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رزق آنے کا خاموشی سے انتظار کرتے (کیونکہ آپ) سائل کو رد کرنا ناپسند کرتے تھے، پس یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر آپ ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی اور آپ ﷺ کے پاس دینے کے لئے وہ چیز نہ ہوتی تو آپ فرماتے :” اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے فضل سے عطا فرمائے گا۔ “ پس اس تاویل کی بنا پر رحمۃ سے مراد وہ رزق ہے جس کا انتظار کیا جائے۔ اور یہ حضرت ابن عباس، مجاہد اور عکرمہ ؓ کا قول ہے۔ اور عنھم کی ضمیر ان کی طرف لوٹ رہی ہے جن کا ذکر آباء، قرابتداروں، مساکین اور مسافروں میں سے پہلے گزر چکا ہے۔ اور قولاً میسورًا یعنی ایسی بات جو انتہائی نرم، لطیف اور اچھی ہو، یہ مفعول بمعنی فاعل ہے، اور لفظ یسر سے ماخوذ ہے جیسا کہ میمون ہے، یعنی حسین و جمیل وعدہ، جیسا کہ ہم نے اسے بیان کردیا ہے۔ اور کسی نے کیا خوب کہا ہے : الا تکن ورق یوما أجود بھا للسائلین فانی لین العود لایعدم السائلون الخیر من خلقی إمانوالی واما حسن مردودی تو کہتا ہے : یسرت لک کذاجب تو اسے تیار کردے (تو تو کہے گا میں نے تیرے لئے اس طرح آسانی کردی) ۔
Top