Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑو اور تو سب سے بہتر وارث ہے
89۔ 90:۔ زکریا (علیہ السلام) کا قصہ سورة آل عمران اور سورة مریم میں گزر چکا ہے 1 ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ مریم (علیہا السلام) کی ماں اور زکریا (علیہ السلام) کی بی بی دونوں بانجھ تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کی ماں کو صاحب اولاد کیا تو زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بھی یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کے بڑھاپے اور ان کی بی بی کے بانجھ اپنے کی حالت میں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صاحب اولاد کر دیوے ‘ اسی امید پر انہوں نے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعا قبول فرمائی ‘ ان کی بی بی کا بانجھ پن کھو دیا اور ان کے گھر میں یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے ‘ آگے فرمایا زکریا (علیہ السلام) ‘ ان کی بی بی ‘ ان کے بیٹے یحییٰ یہ سب نیک کاموں میں چست اور اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کرنے والے تھے اور اللہ کی عظمت کے آگے اپنے آپ کو اس کا حقیر اور ادنیٰ بندہ سمجھتے تھے 2 ؎‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ زکریا (علیہ السلام) بڑھئی کا کام کر کے اپنے ہاتھ کی مزدوری کی آمدنی پر اپنی گزر کرتے تھے۔ (1 ؎ ص 235 جلد اول تفسیر ہذا۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 509 باب بدء الخلق وذکر الانبیآء۔ )
Top