Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑو اور تو سب سے بہتر وارث ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وزکریا اذ نادیٰ ربہ یعنی زکریا کو یاد کرو۔ ان کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ رب لا تذرنی فرداً یعنی اکیلا اور بغیر بیٹے کے نہ چھوڑ۔ وانت خیر الوارثین۔ یعنی تو ہر مرنے والے کے بعد جو باقی رہنے والے ہیں ان سے ببہتر ہے۔ فرمایا : وانت خیر الوارثین۔ کیونکہ پہلے یرثنی گزر چکا ہے، یعنی میں جانتا ہوں تو اپنے دین کو ضائع نہیں کرے گا، لیکن یہ امر دین کی حفاظت کی فضیلت میری نسل سے منقطع نہ کر، جیسا کہ پہلے سورة مریم میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاستجبنالہ یعنی ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ ووھبنالہ یحییٰ ان کا ذکر تفصیلاً گزر چکا ہے۔ واصلحنا لہ زوجہ قتادہ، سعید بن جبیر اور اکثر مفسرین نے کہا : ان کی بیوی بانج تھی تو اسے بچے جنم دینے والی بنا دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطا نے کہا : وہ تند خو تھی اور زبان دراز تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح فرمائی اور اسے اچھے اخلاق والا بنا دیا۔ میں کہتا ہوں : دونوں مفہوم جمع بھی ہو سکتے ہیں اسے حسن اخلاق بھی دے دیا ہو اور بچے جننے والی بھی بنا دیا ہو۔ انھم، ھم ضمیر سے مراد وہ انبیاء کرام ہیں جن کا اس سورت میں نام لیا گیا ہے۔ کانوا یسرعون فی الخیرت بعض علماء نے فرمایا : ضمیر کا مرجع حضرت زکریا، ان کی زوجہ اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ویدعوننا رغباً ورھباً اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: ویدعوننا رغبا ورھبا وہ ہماری بارگاہ میں پناہ لیتے ہیں اور سختی اور خوشحالی میں ہمیں پکارتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ عبادت کے وقت ہمیں پکارتے ہیں جبکہ وہ امید اور خوف کی حالت میں ہوتے ہیں کیونکہ رغبت اور رہبت ایک دوسرے کو متلازم ہں۔ بعض نے فرمایا : الرغب کا مطلب ہے آسمان کی طرف ہتھیلیوں کے باطن کو بلند کرنا اور الرھب کا مطلب ہے ان کی پیٹھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنا ؛ یہ خصیف کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : اس کی تلخیص یہ ہے کہ ہر دعا مانگنے والا انسان اپنے ہاتھوں سے مدد طلب کرتا ہے۔ پس رغببت اس حیثیت سے کہ وہ طلب ہے۔ تو ہتھیلی کے باطن کو مطلوب منہ کی طرف متوجہ کرنا بہتر ہے کیونکہ وہ عطا کرنے کی جگہ ہے یا اس کے ذریعے انسان مالک ہوتا ہے اور الرھب اس حیثیت سے کہ تکلیف کو دور کرنا ہے تو اس کے ساتھ اس کو پھینکنا اچھا ہوتا ہے اور جانے کی طرف اشارہ کرنا ہے ہاتھ جھاڑ کر اسے بچانا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ ترمذی نے حضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے تو انہیں نیچے نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے (1) ۔ ہاتھوں بلند کرنے کے متعلق اختلاف سورة ۃ الاعراف میں گزر چکا ہے۔ یہ حدیث اور دوسری احادیث وہاں ہم نے ذکر کی ہیں ہاتھوں کو بلند کرنے کے متعلق کو بلند کرنے کے قول پر پھر اس کی صفت اور کہاں تک اٹھانے ہیں اس میں اختلاف ہے۔ بعض پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کو اپنے سینے کے برابر اٹھاتے ہوئے پھیلائیں اور ان کا باطن اس کے چہرے کی طرف ہو۔ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : حضرت علی ؓ اپنی ہتھیلیوں کے باطن کے ساتھ دعا مانگتے تھے اور حضرت انس سے اس کی مثل مروی ہے۔ یہ جامع ترمذی کی حدیث کا ظاہر ہے اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اپنی ہتھیلیوں کے باطن کے ساتھ اس سے سوال کرو اور ہتھیلیوں کے پیٹھوں کے ساتھ سوال نہ کرو اور انہیں اپنے چہروں پر پھیرو۔ “ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر سے چہرے تک بلند کرنا مروی ہے انہوں نے حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ فرمایا : نبی پاک ﷺ عرفہ میں ٹھہرے تو آپ نے دعا مانگنی شروع کی آپ نے اپنی ہتھیلیوں کی پشت کو اس سمت کیا جو چہرے کی طرف تھی اور انہیں اپنے سینہ سے بلند کیا اور کندھوں سے نیچے کیا (1) ۔ بعض نے فرمایا : حتیٰ کہ چہرے کے برابر کیا اور ان کی پشتیں چہرہ کی سمت تھیں۔ ابو جعفر طبری نے کہا : یہ کہنا صحیح ہے کہ تمام آثار جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہیں متفق اور متحد ہیں اور یہ تمام صورتیں نبی کریم ﷺ سے مروی ہوں دعا کے احوال اختلاف کی وجہ سے جیسا کہ حضرت ابن عبب اس ؓ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک انگلی کے ساتھ اشارہ کرے تو وہ اخلاص ہے اور جب اپنے ہاتھوں کو سینہ کے برابر کرے تو وہ دعا ہے۔ جب انہیں اتنا بلند کرے کہ سر سے اوپر لے جائے اور ان کا ظاہر چہرے کی طرف ہو تو یہ اببتہال (گڑ گڑانا) ہے۔ طبری نے کہا : قتادہ نے حضرت انس سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی ہتھیلیوں کے ظاہر و باطن کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے دیکھا (2) رغباً ورھبامصدر کی بنا پر منصوب ہیں۔ یعنی یرغبون رغباً ویرھبون رھباً مصدر کی بنا پر منصوب ہیں یعنی یرغبون رغباً ویرھببون رھباً یا مفعول لاجلہ کی بنا پر منصوب ہیں یعنی للرغب والرھب یا حال کی بنا پر منصوب ہیں۔ طلحہ بن مصرف نے یدعونا ایک نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اعمش نے راء کے ضمہ اور غین کے سکون اور ھا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے : جیسے : السقم اور البخل اور العدم اور الضر یہ دونوں لغتیں ہیں۔ ابن وثاب اور اعمش نے رغباً ورھباً را پر فتحہ اور غین اور ھا میں تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں جیسے نھر اور نھر، صحر اور صخر یہ قرأت ابو عمرو سے مروی ہے۔ وکانوا لنا خشعین تواضع کرنے والے اور عاجزی کرنے والے۔
Top