Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 76
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
اور ہم نے ان کو عذاب میں بھی پکڑا تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی اور وہ عاجزی کرتے نہیں ہیں
76۔ 77:۔ معتبر سند سے نسائی ‘ مستدرک حاکم اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت 1 ؎ سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش مکہ نے جب آنحضرت ﷺ سے سرکشی کی تو آپ کی بددعا سے مکہ میں بڑا سخت قحط پڑا ‘ اس قحط کے زمانہ میں ابوسفیان ؓ نے آنحضرت ﷺ سے آن کر کہا کہ آپ ﷺ تو رحمتہ للعالمین اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ قریش تو آپ ﷺ کے قرابت دار ہیں ‘ اب قریش کا یہ حال ہے کہ جو نہ کھانے کی چیز تھیں وہ سب کھاچکے ‘ ذرا ہماری غم خواری فرمائیے اور اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ بلا دفع ہو آپ ﷺ نے قریش کے اس حال پر ترس کھا کے دعا کی اور آپ کی دعا کی برکت سے وہ قحط جاتا رہا ‘ قحط کے جاتے ہی قریش نے پھر وہی سرکشی شروع کردی ‘ اس قحط کے ذکر میں عبد اللہ بن مسعود کی روایت صحیح بخاری کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے ‘ اس قحط کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ‘ حاصل معنی آیتوں کے یہ ہیں کہ ان لوگوں کے دل ایسے سخت ہوگئے ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی مصیبت اور سختی آتی ہے تو جب بھی ان کو عبرت نہیں ہوتی اس لیے اب ان کو اللہ کے کسی بڑے سخت عذاب کا منتظر رہنا چاہیے اس بڑے عذاب کے بعد ان کی سب سرکشی نا امیدی سے بدل جاوے گی یہ بڑا عذاب آخر کو اللہ کہ وعدہ کے موافق بدر کی لڑائی کے روز آیا کہ بڑے بڑے سرکش ستر آدمی قریش کے حالت کفر میں بڑی ذلت اور خواری سے دنیا سے اٹھ کر ہمیشہ کہ عذاب آخرت میں مبتلا ہوئے جس کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 13 ج 5۔ )
Top