Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 76
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
چناچہ اس حقیقت کا ایک شاہد یہ ہے کہ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا پھر بھی یہ نہ تو اپنے رب کے سامنے جھکے1 اور نہ ہی انہوں نے اس کے حضور عاجزی کی
95 تنبیہی عذاب کا تقاضا اپنے رب کے حضور جھکنا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے ایسوں کو طرح طرح کے تنبیہی عذابوں میں پکڑا " مگر ان کا حال یہ تھا کہ مصیبت آنے پر ایسے لوگ نہ اپنے رب کے حضور جھکے نہ عاجزی کی۔ بلکہ یہ کفر و سرکشی کی اپنی سابقہ روش پر برابر اڑے رہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہاں تک کہ یہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ تکلیفوں پر انسان کے اندر فروتنی اور عاجزی کا نہ پیدا ہونا اور اپنے رب کے حضور نہ جھکنا بڑے ہی خسارے کا سودا ہے۔ کہ اس سے انسان بالآخر اپنے اس ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتا ہے جس سے پھر بچنے اور واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں رہتی ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اوپر والی آیت کریمہ میں معاندین و منکرین کی عناد و سرکشی والی جس روش کا ذکر فرمایا گیا اس ارشاد کے ذریعے گزشتہ قوموں کی تاریخ کے حوالے سے اس کی دلیل اور اس کا ثبوت پیش فرمایا گیا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی ٹیڑھی کھوپڑی والے اور اس قماش کے لوگ تنبیہات سے کوئی سبق نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہاں پر " استکانہ " اور " تضرع " کے دو لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ سو ان دونوں میں ظاہر اور باطن کا فرق ہے۔ " استکانہ " دراصل اس شکستگی اور فروتنی کا نام ہے جو انسان کے قلب و باطن پر طاری ہوتی ہے اور اس کا اثر و نتیجہ ظاہری گریہ وزاری، آہ وبکا اور دعا و فریاد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سو ان بدبختوں پر ایسے تنبیہی عذابوں سے نہ ظاہر کے اعتبار سے کوئی اثر ظاہر ہوا نہ باطن کے اعتبار سے۔ اس لیے یہ محروم کے محروم ہی رہے اور ایسے بدبخت لوگوں کا آج تک یہی حال ہے۔ آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح کے عذاب آتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن ایسے لوگ ان سے کوئی سبق نہیں لیتے نہ ان کی الٹی کھوپڑیاں سیدھی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کی اکڑی ہوئی گردنوں میں خم آتا ہے۔ اور یہی سب سے بڑا خسارہ، بلکہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top