Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 76
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
اور ہم نے ان جیسوں کو عذاب میں پکڑا لیکن نہ وہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ وہ تضرح ہی کرتے تھے
تنبیہی عذاب ولقد اخذ نھم یعنی ولقد اخذنا اشیامھم ہم نے ان کے ہم مشربوں کو اس سے پہلے اپنے تنبیہی عذابوں میں پکڑا لیکن نہ تو ان کے دلوں میں خستگی اور فروتنی پیدا ہوئی اور نہ وہ اپنے رب کے آگے گریہ وزاری کرتے تھے۔ یہ پچھلی تاریخ کی روشنی میں اسی بات کی دلیل بیان ہوئی ہے جو اوپر والی آیت میں مذکور ہوئی ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ اس قماش کے لوگ تنبیہات سے کوئی سبق نہیں لیتے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو بھی کوئی تنبیہ کی گئی تو پیغمبر کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ یہ اس سے کوئی سبق لیں گے۔ ھم سے مراد یہاں قریش نہیں بلکہ ان کے وہ ہم مشرب ہیں جو پچھلی امتوں میں گزر چکے تھے۔ عربی میں غایت مجانست و مشابہت کے اظہار کے مواقع میں اس طرح ضمیریں آتی ہیں۔ اس کی مثالیں قرآن اور کلام عرب میں موجود ہیں۔ اس میں یہ بلاغت ہے کہ ان کو پکڑا تو گویا انہی کو پکاڑ اس لئے کہ مرتکب دونوں ایک ہی جرم کے ہیں۔ استکانۃ اور تضرع میں ظاہر و باطن کا فرق ہے۔ استکانۃ دل کی شکستگی و خستگی کی تعبیر ہے اور تضوع سے مراد وہ گریہ وزاری اور دعا فریاد ہے جو استکانۃ کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک یہاں مضارع سے پہلے فعل ناقص محذوف ہے۔
Top