Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 76
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
اور ہم نے پکڑا تھا ان کو آفت میں پھر نہ عاجزی کی اپنے رب کے آگے اور نہ گڑ گڑائے
وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَـضَرَّعُوْنَ ، اس سے پہلی آیت میں مشرکین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ جو عذاب میں مبتلا ہونے کے وقت اللہ سے یا رسول سے فریاد کرتے ہیں اگر ہم ان کی فریاد پر رحم کھا کر عذاب ہٹا دیں تو ان کی جبلی شرارت و سرکشی کا عالم یہ ہے کہ عذاب سے نجات پانے کے بعد پھر اپنی سرکشی اور نافرمانی میں مشغول ہوجائیں گے اس آیت میں ان کے ایک اسی طرح کے واقعہ کا بیان ہے کہ ان کو ایک عذاب میں پکڑا گیا مگر عذاب سے بدعا نبی کریم ﷺ نجات پانے کے بعد بھی یہ اللہ کے سامنے نہیں جھکے اور برابر اپنے کفر و شرک پر جمے رہے۔
اہل مکہ پر قحط کا عذاب اور روسل اللہ ﷺ کی دعا سے اس کا دفع ہونا
پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ پر قحط کا عذاب مسلط ہونے کی دعا کی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے اور مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ دیکھ کر ابو سفیان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور صلہ رحمی کی، کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں اہل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، آپ نے فرمایا بیشک کہا ہے اور واقعہ بھی یوں ہی ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ آپ نے اپنی قوم کے بڑوں کو تو بدر کے معرکہ میں تلوار سے قتل کردیا اور جو اب رہ گئے ہیں ان کو بھوک سے قتل کر رہے ہیں اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے ہٹ جائے رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی یہ عذاب اسی وقت ختم ہوگیا اسی پر یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ۔
اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ عذاب میں مبتلا ہونے پھر اس سے نجات پانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے چناچہ واقعہ یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے قحط رفع بھی ہوگیا مگر مشرکین مکہ اپنے شرک و کفر پر اسی طرح جمے رہے۔ (مظھری وغیرہ)
Top