Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
اے دونوں جماعتو ! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
31۔ 36۔ اللہ تعالیٰ کی شان تو اس سے بہت عالی اور برتر ہے کہ اس کو کسی کام سے فرصت اور فراغت حاصل کرنے کی ضرورت ہو کیونکہ یہ تو مخلوق کی شان ہے کہ ایک کام سے فارغ ہوں تو دوسرا کام کریں لیکن جس طرح اردو کے محاورہ میں بولا جاتا ہے کہ سو کام چھوڑ کر یہ کام کیا جائے گا حالانکہ ایسے موقع پر نہ سو کام ہوتے ہیں نہ ان کا چھوڑنا حقیقت میں مقصود ہوتا ہے بلکہ جس کام کے کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے یہ محاورہ کی بات کہی جاتی ہے اصل میں اس با سے اس کام کا ضروری ہونا جتلایا جاتا ہے اسی طرح قیامت اور اس کے حساب و کتاب اور سزا و جزا کے جو لوگ منکر ہیں ان کی تنبیہ کے لئے عربی کے محاورہ کے طور پر یہ فرمایا ہے کہ جس حساب اور سزا و جزا کے یہ لوگ منکر ہیں ہمارے نزدیک وہ ایسا ایک اہم کام ہے کہ وقت مقررہ پر خاص توجہ سے ہم اس کو کریں گے۔ اب آگے جنات اور انسان کے منکر حشر گروہ کو فرمایا کہ اس حساب و کتاب اور جزا و سزا سے بھاگ کر آسمان و زمین کے کسی کونے میں یہ لوگ جاسکتے ہوں تو چلے جائیں اور حساب و کتاب اور سزا کے مخمصے سے چھوٹ جائیں۔ پھر فرمایا کہ بھلا اللہ کی حکومت اور بادشاہت سے نکل کر کوئی کہاں جاسکتا ہے۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ قبروں سے اٹھتے ہی ایک آگ اس طرح کے لوگوں کو چاروں سے سے گھیر کر محشر کے میدان کی طرف لے جائیے گی آگے اسی آگ کے شعلوں اور دھوئیں کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ اس آگ سے بچنے کے لئے ان کی مدد کرکے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور نہ یہ خود کہیں بھاگ سکتے ہیں۔ قیامت کے دن کی باتوں سے لوگوں کو دنیا میں خبردار کردینا یہ اللہ کا احسان ہے اس لئے ان باتوں کے ذکر کو نعمت فرمایا اور گزر چکا ہے کہ ابوہریرہ ؓ کی اسی حدیث کو بعض علماء نے قبروں کے اٹھنے کے وقت کا حال قرار دیا ہے اور بعض علمانے اس کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے۔ 2 ؎ (1 ؎ صحیح بخاری۔ باب کیف الحشر ص 965 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم فصل فی امارات الساعۃ ص 393 ج 2۔ )
Top