Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
ہم عنقریب ہی تمہارے لئے فارغ ہوا چاہتے ہیں اے دو بوجھو !
[ 24] یوم جزاء و سزا کی تذکیر و یاددہانی : سو جنوں اور انسانوں کے دونوں گروہوں کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ عنقریب ہی ہم تمہارے لیے فارغ ہوا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابھی ہم مشغول ہیں، فرصت نہیں، بعد میں جب فرصت ہوگی تو تمہارے لئے فارغ ہوجائیں گے، کہ وہ ذات پاک اس طرح کے مشاغل اور ایسے تمام تصورات سے پاک اور وراء الورا ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تو ہم تمہیں دنیاوی نعمتوں سے نواز رہے ہیں، تمہیں مہلت اور ڈھیل دے رکھی ہے، لیکن تمہارے حساب کتاب کیلئے ہم بعد میں متوجہ ہوں گے جبکہ تمہاری یہ مہلت اور فرصت حیات ختم ہوجائے گی اور تمہارے حساب کتاب کا وقت آپہنچے گا، اور وہ قیامت کا دن ہے جسے تم لوگ اگر دور سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو، مگر ہمارے نزدیک وہ عنقریب ہی آنے والا ہے، انھم یرونہٗ بعیداً ونراہٗ قریبًا نیز فرمایا گیا ازفت الازفۃ سو یہ کلام تہدید اور یخویف پر مبنی ہے [ روح، قرطبی، مراغی، صفوۃ وغیرہ ] اور تہدید و تکویف کا اسلوب ہر زبان میں پایا جاتا ہے، جیسا کہ ہمارے یہاں بھی کہا جاتا ہے کہ میں وقت آنے پر تمہیں دیکھ لوں گا، وغیرہ، سو اس ارشاد ربانی میں غافل لوگوں کیلئے بڑی سخت تنبیہ اور تہدید ہے کہ دنیا کے پجاریو ! یاد رکھو کہ زمانہ کل دو دن کا ہے، ایک آج جو یہ دنیا ہے جس میں موت وحیات اور امر و نہی کا یہ سلسلہ جاری ہے، اور ایک کل کا وہ دن جو کہ آخرت ہے، جس میں حساب و کتاب اور سزا وجزای کا قیام ہوگا، [ کما قال، بہ ابن عینیۃ تفسیر المراغی وغیرہ ] بہرکیف فارغ ہونے کے اس ارشاد سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ ابھی تو اس دنیا کا کارخانہ چل رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرلے اور جب اس کی یہ مدت پوری ہوجائے گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ اس دنیا کے نظم و نسق سے بالکل فارغ ہو کر اپنے بندوں کے حساب کتاب کی طرف متوجہ ہوگا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو یہ بھی حضرت حق جل مجدہ کی رحمت و عنایت بیکر ان کا ایک عظیم الشان نمونہ اور نمایاں مظہر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس یوم حساب سے اس قدر پیشگی اور اس صراحت و وضاحت کے ساتھ خبر دار فرما دیا تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل ان وحین، ذی القوۃ المتین، وارحم الراحمین، واکرم الاکرمین [ 25] فرمان جن و انس اللہ کی دھرتی پر بوجھ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا اور جنوں اور انسانوں دونوں کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا اے دو بوجھو۔ مراد ہیں جن و انس کے دونوں گروہ، اور ان کو ثقل اور بوجھ اس لئے فرمایا گیا کہ دھرتی کی قدر و منزلت اصل میں انہی دو گروہوں سے ہے، کہ یہی دو گروہ دراصل اس کے مخدوم ومطاع اور تکالیف اور احکام شرعیہ کے مکلف ہیں، نیز اس میں یہ درس ہے کہ اگر یہ دونوں اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو نبھائیں گے نہیں تو یہ اللہ کی زمین کے لئے نرے بوجھ ہیں، پھر نہ ان کا کوئی وزن اور فائدہ ہے، اور نہ کوئی قدروقیمت، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ پس انسان کی اصل قدروقیمت اپنے رب کی معرفت اور اس کے حق بندگی کی ادائیگی ہی سے نبتی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق۔ یہاں پر لغت کا یہ باریک فرق بھی واضح رہے کہ " ثقل " کے معنی تو مطلق بوجھ کے آتے ہیں لیکن " ثقل " اس بوجھ کا کہا جاتا ہے جو سواری پر لدا ہوا ہوتا ہے۔ سو یہاں پر ثقلان کے لفظ کے استعمال سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ دونوں " ثقل " یعنی زمین پر لدے ہوئے بوجھ ہیں۔ لیکن یہاں پر اس سے مراد نافرمان اور منحرف جن اور انسان ہیں۔ کیونکہ اوپر سے ایسے ہی منحرف اور سرکش جنوں اور انسانوں سے خطاب چلا آرہا ہے، اور آگے آیت نمبر 45 تک بھی وہی اس کے مخاطب ہیں۔ سو نافرمان جن و انس اللہ کی دھرتی پر ناروا بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے اور ہمیشہ ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ،
Top