Dure-Mansoor - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
اے دونوں جماعتو ! ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہوں گے
اللہ تعالیٰ کا حساب کی طرف متوجہ ہونا : 1:۔ عبدبن حمید (رح) وعبد الرزاق (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ''' سنفرغ لکم ایھا الثقلن '' (اے جن وانس ہم عنقریب تمہارے (حساب کتاب) کے لئے خالی ہوجاتے ہیں) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی مخلوق سے (حساب کتاب کے لئے) توجہ اور قصد قریب ہے۔ 2:۔ عبد بن حمید (رح) وبن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ''' سنفرغ لکم ایھا الثقلن '' سے مراد وعید ہے۔ 3:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ''' سنفرغ لکم ایھا الثقلن '' کے بارے میں روایت کیا کہ یہ وعید ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مشغولیت نہیں ہے اور فرمایا (آیت ) '' لاتنفذون الا بسلطن '' یعنی تم میری سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ 4:۔ البزار والبیہقی (رح) نے طلحہ بن منصور (رح) اور یحی بن مثاب رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ ان دونوں نے اس کو (آیت ) '' سنفرغ لکم '' پڑھا۔ 5:۔ عبدبن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' لاتنفذون الا بسلطن '' (مگر تم بغیر زور کے نہیں نکل سکتے) یعنی تم نہیں نکل سکتے بغیر قوت اور غلبہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ 6:۔ ابن الدنیا نے ہواتف الجان میں واثلہ بن اسقع (رح) سے روایت کیا کہ حجاج بن علاطہ (رح) سے اسلام لانے کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے جب ان پر رات چھاگئی تو وہ ڈرنے لگا اور ٹھہر گیا اس کے ساتھی اس کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے اور وہ کہنے لگا میں اس وادی کے تمام جنات سے پناہ مانگتا ہوں اپنی ذات اور اپنے ساتھیوں کے لئے، یہاں تک کہ میں لوٹ جاؤں صحیح سلامت اور میری جماعت بھی پھر اس نے ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا (آیت ) '' یمعشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت والارض فانفذوا، لاتنفذون الا بسلطن '' پس وہ مکہ میں پہنچا اس نے اس کے بارے میں قریش سے گفتگو کی تو انہیں نے اس کو بتایا کہ یہ اس کلام میں سے ہے جو محمد ﷺ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ ان پر نازل ہوا۔ 7:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' یرسل علیکما شواظ من نار '' سے مراد ہے آگ کا شعلہ (آیت) '' ونحاس '' سے مراد ہے آگ کا دھواں۔ 8:۔ ابن الانباری فی کتاب الوقف والابتداء والطستی والطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے اس قول (آیت ) '' یرسل علیکما شواظ من نار '' کے بارے میں پوچھا تو اس نے فرمایا '' شواظ '' سے مراد ہے آگ کا شعلہ جس کا دھواں ہو پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے امیہ بن ابی الصلت الشعبی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : یظل یشب کیرا بعد کیر وینفخ دائما لھب الشواظ : ترجمہ : وہ مسلسل بھٹی میں آگ روشن کرتا رہتا ہے اور ہمیشہ آگ کے شعلوں کو پھونکیں مارتا رہتا ہے۔ پھر پوچھا مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول '' ونحاس '' کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا وہ دھواں ہے کہ جس میں شعلہ نہ ہو پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : یضیی کضوء سراج السلیط لم یجعل اللہ عنہ نحاسا : ترجمہ : وہ روشنی کرتا ہے زیتوں کے تیل کے چراغ کی روشنی کی طرح اللہ تعالیٰ نے اس میں دھویں کو نہیں رکھا
Top