Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
سنفرغ لکم ایۃ الثقلان اے جن و انس ہم عنقریب ہی تمہاے (حساب کتاب کے) لیے خالی ہوجاتے ہیں اللہ کو کسی کام میں ایسی مشغولیت نہیں جو دوسرے کام کی طرف متوجہ ہونے سے مانع ہو ‘ ورنہ اللہ کا بےعلم اور عاجز ہونا لازم آئے گا۔ اس لیے آیت میں فراغت سے مراد مشغولیت مانعہ سے فراغت نہیں ہے بلکہ مجازی معنی مراد ہے اور اس کی توجیہات مختلف طور پر کی گئی ہیں جن کی تفسیر اور تفصیل مفسر (رح) نے حسب ذیل کی ہے): 1) عنقریب ہم تم کو سزا و جزا دینے کے لیے خالی ہوجائیں گے ‘ یعنی قیامت کا دن قریب ہے جس میں اللہ سوائے اعمال کے بدلہ دینے کے اور کوئی (تخلیقی) فعل نہیں کرے گا۔ 2) دھمکی دینی مراد ہے ‘ کسی کو سزا دینے کی دھمکی دینی مقصود ہو تو عرب کہتے ہیں : سافرغ لک میں عنقریب تجھے سزا دینے کیلئے نمٹا جاتا ہوں۔ سب کاموں سے فارغ ہو کر جو شخص کسی چیز کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ پورے طور پر اسکو سر انجام دینے پر قادر ہوتا ہے۔ یہاں فراغت سے مراد دوسرے مشاغل سے فراغت حاصل کرنا نہیں ہے (صرف تہدید مراد ہے) ۔ (کذا قال ابن عباس و ضحاک) 3) عنقریب ہم تم کو ڈھیل اور مہلت دینا چھوڑ دیں گے اور تمہارے معاملہ کا فیصلہ (شروع) کردیں گے۔ 4) پہلے اللہ نے نیکوں سے جزا کا وعدہ کیا اور بدکاروں کو عذاب کی دھمکی دی۔ پھر فرمایا : عنقریب ہم اس وعدہ اور وعید سے فارغ ہوجائیں گے یعنی تم سے حساب فہمی کریں گے اور اعمال کا بدلہ دیں گے اور اس طرح ہمارا وعدہ پورا ہوجائے گا اور ہم تمہارے کام سے فارغ ہوجائیں گے۔ (کذا قال الحسن والمقاتل) الثَّقَلٰنِ : یعنی جن و انس ‘ جن و انس کو ثقل (بار) کہنے کی یہ وجہ ہے کہ جن و انس زندہ ہوں یا مردہ بہرصورت ان کا بار زمین پر ہی رہتا ہے۔ امام جعفر صادق نے فرمایا : یہ دونوں گناہوں کے بار سے لدے ہوئے ہیں۔ بعض نے کہا : انہی دونوں پر احکام تکلیفیہ کا بار ہے۔ ثقلین کے ان تمام معانی کے مناسب ہیں وہ ساری توجیہات جو نفرغ کی بیان کی گئی ہیں۔ یعنی تہدید یا وعدہ و وعید کی تکمیل وغیرہ۔ اہل معانی کہتے ہیں کہ جس چیز کی اہمیت اور بوقت تقابل وزن اور رفعت مرتبہ ہو اس کو ثقل کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی۔ میں تمہارے اندر دو ثقل (اہم چیزیں) چھوڑنے والا ہوں ‘ اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد۔ حضور ﷺ نے اہمیت قدر اور عظمت شان کی وجہ سے کتاب اللہ اور اپنی عترت کو ثقلین فرمایا۔ ثقلین کی وجہ تسمیہ اگر اہمیت و وزن کو قرار دیا جائے تو اس صورت میں سنفرغ کا مطلب یہ ہوگا کہ عنقریب براہ راست تمہارے ساتھ ہمارا معاملہ ہوگا ‘ درمیان میں کسی اور کو دخل نہ ہوگا۔ ابوذر ؓ نے عقیلی کی روایت سے بیان کیا۔ راوی کا بیان ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا قیامت کے دن ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو بغیر کسی رکاوٹ کے (یعنی بلا حجاب) دیکھے گا ؟ فرمایا : کیوں نہیں ! میں نے عرض کیا : مخلوق میں کیا اس کی کوئی نشانی (مثال) ہے ؟ فرمایا : کیا چودہویں رات کے چاند کو تم میں سے ہر ایک بلا رکاوٹ نہیں دیکھتا ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ! فرمایا : یہ تو اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اور اللہ کی جلالت قدر و عظمت شان تو سب سے زیادہ ہے۔ (رواہ ابوداؤد) ایک فارسی شاعر کا کیسا بہترین شعر ہے۔ ؂ جہانے مختصر خواہم کہ دروے ہمیں جائے من و جائے تو باشد ” میں ایسا مختصر جہان چاہتا ہوں جس میں صرف میری اور تیری جگہ ہو۔ “
Top