Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
اے زمین کے بوجھو، ہم عنقریب تمہارے لیے فارغ ہورہے ہیں
سَنَفْرُغُ لَـکُمْ اَیُّـہَ الثَّقَلٰنِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الرحمن : 31، 32) (اے زمین کے بوجھو، ہم عنقریب تمہارے لیے فارغ ہورہے ہیں۔ تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلائو گے۔ ) ثقلان اور فراغت کا مفہوم ثََقَلٰنِ ، ثَقَلْکا تثنیہ ہے۔ اس کا مادہ ثقل ہے۔ ثِقلبوجھ کو کہتے ہیں۔ اور ثقلاس بوجھ کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو۔ اس لحاظ سے ثَقَلٰنکا مفہوم یہ ہوگا کہ تم جن اور انس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی زمین پر دو بوجھوں کی طرح لدے ہوئے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی سے انحراف اور اس کے دیئے ہوئے تصورات سے انکار کی وجہ سے تم زمین کے خلیفہ اور زمین کے سنگھار نہیں رہے بلکہ اس دھرتی کا بوجھ بن گئے ہو۔ دھرتی پر تمہیں برداشت کیا جارہا ہے ورنہ حقیقت میں تم اپنا استحقاق کھو بیٹھے ہو۔ ہم عنقریب تمہاری بازپرس کے لیے اور تمہاری شتر بےمہار زندگی کے حوالے سے جواب طلبی کے لیے فارغ ہورہے ہیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک ثَقَلٰنسے مراد جن و انس کی دونوں جماعتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک چونکہ اپنے آپ کو بڑی حیثیت کی مالک سمجھتی ہیں اور اپنی قوت اور اپنی تعداد پر بڑا ناز رکھتی ہیں، ان سے یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ تم اپنے آپ کو کتنا بھی طاقتور سمجھو لیکن وہ وقت دور نہیں جب تم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاؤ گے اور وہ تنہا تم دونوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں مفہوم میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کہنا ان سے صرف یہ ہے کہ تم نے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے دین سے بےنیاز ہو کر اپنی مرضی کا مختار سمجھ لیا ہے اور کسی کے سامنے جواب دہی کا تمہیں کوئی اندیشہ نہیں، ہم تمہیں تنبیہ کیے دیتے ہیں کہ ہم نے کائنات کے نظم و نسق کا ایک اوقات نامہ بنا رکھا ہے اس اوقات نامہ کے تحت انسانوں اور جنوں کے لیے ایک مہلت عمل ہے جس میں انھیں اپنے اپنے طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اور یہ موقع اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ پھر ایک دن اچانک تمام جن و انسان اور دیگر مخلوقات پر ہلاکت غالب آجائے گی اور ہر چیز تباہ و برباد ہوجائے گی۔ پھر ایک مدت کے بعد نوع انسانی اور نوع جن دونوں سے بازپرس کے لیے ان کے اولین و آخرین کو ازسرنو زندہ کرکے میدانِ حشر میں جمع کردیا جائے گا۔ اور وہاں ہم ان سے ان کے ایک ایک عمل کا حساب لیں گے۔ ابھی دنیا پہلے مرحلے میں ہے، فنا ہوجانے کے بعد پھر وہ مرحلہ آئے گا جب انھیں زندہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کا حساب لے گا۔ آیت کریمہ میں جس فراغت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہی آخری مرحلہ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پروردگار کو ایک ایک کام کے لیے الگ الگ وقت نکالنا پڑتا ہے اور وہ بیک وقت سب کاموں کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جس میں ہم کو نوع جن اور نوع انسانی کے اعمال کا حساب لینا ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو پھر ہم اس کے لیے فارغ ہوں گے۔ اس وقت تم سے پوچھیں گے کہ تم جو دنیا میں ہماری ناشکریاں کرتے رہے ہو آج بتائو کہ تم ہماری نعمتوں کا کس طرح انکار کرتے رہے ہو۔ اور آج بھی سوچو کہ تمہیں مہلت عمل دے کر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں آخر تم اسے کس طرح جھٹلا سکتے ہو۔
Top