Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
اے جن و انس ہم فارغ ہو کر تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
اے جن وانس ہم فارغ ہو کر عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوں گے 13۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو اپنے وعدوں کی پابند ہے نہ وہ اپنے وعدہ کا خلاف کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے اس لیے جو ڈھیل اور مہلت اس نے دی ہے اس کو بہرحال تم پورا کرو گے اور اس مہلت کو پورا کرنے کے لیے جو وقت درکار ہے یعنی جو مہلت مقرر ہے اس کے پورا ہونے کو (سنفرغ لکم) سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وقت اللہ میاں بہت مصروف ہے یا فارغ نہیں ہے اور جوں ہی فارغ ہوگا تو تمہاری خبر لے گا ، نہیں ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ مصروف ہونے سے پاک ہے اور اس کو کوئی مشکل اور کٹھن درپیش نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی بڑی مہم میں مصروف ہے کہ تم سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ مطلب وہی ہے جو ہم نے اوپر عرض کردیا ہے کہ جب اس نے خود مہلت دی ہے تو آخر وہ اس مہلت کو گزرنے کیوں نہیں دے گا ؟ کیا تمہارے بھاگ جانے کا کوئی امکان ہے ؟ نہ ہی ایسا کوئی امکان ہے اور نہ ہی کوئی اس سے بھاگ سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو بھاگنے دیتا ہے بلکہ اس تے تم کو سوچنے سمجھنے کے لیے خود وقت دیا ہے تاکہ تم اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ اپنی اصلاح کرنی چاہو تو کرسکو لیکن اگر تم اپنی اصلاح کی بجائے افساد ہی کرنا چاہتے ہو تو بھی وہ تم کو اس سے بزور نہیں روکتا بلکہ تم نافرمانیوں پر نافرمانیاں کرتے رہو تو وہ تم سے درگزر کرتا ہے اور جو نہی اس کی دی ہوئی مہلت پوری ہوجائے گی تو وہ تم کو فوراً پکڑ لے گا اور جہاں بھی اور جس حالت میں بھی ہو پکڑ لیے جائو گے اور پھر جب وہ پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ سے کوئی بھی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ قبل ازیں ہم بہت دفعہ یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے لیکن وہ انسانوں ہی کی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ انسان اپنی زبان میں جو کچھ ایک دوسرے سے بولتا ہے اسی زبان میں یہ کلام کیا گیا ہے ہم اپنی زبان میں بولتے ہیں کہ ہم فارغ ہوتے ہیں ، ہمیں فرصت ملتی ہے تو تمہاری خبر لیتے ہیں ، تمہیں چھٹی کا دودھ یاد دلاتے ہیں اور مراد اس سے فقط آگاہ اور متنبہ کرنا ہی ہوتا ہے اور اس طرح زبان میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے۔ (ثقلن) دو بھاری چزیں۔ دوبوجھل چیزیں۔ دوبوجھل خلقتیں مراد ہیں۔ جنس انسانی کی دونوں قسمیں ہیں جن کو جن وانس کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے اور ان کا نام (ثقلن) اسی لیے ہے کہ یہ دونوں ساری مخلوق خداوندی سے قدرومنزلت میں زیادہ ہیں کیونکہ ان کو عقل وفکر اور سمجھ سوچ عطا کی گئی ہے جس نے ان کو قدر ومنزلت میں بھاری کردیا ہے اور اسی لیے ان کو مکف قرار دیا گیا ہے۔ اور (ثقلن) عرب میں ہر ایک نفیس اور قیمتی چیز پر بھی بولتے ہیں کہ یہ بہت ثقل ہے اسی طرح سردار قوم کو بھی ثقل کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے یہ دونوں قسمیں بہت قیمتی اور بھاری ہیں۔ حدیث شریف میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : (انی تارک فمک الثقلین کتاب اللہ وعترتی) ” میں تم میں چھوڑ رہا ہوں اور دو بھاری چیزیں ایک کتاب اللہ اور دوسری اپنی عزت “ اور ظاہر ہے کہ ان کو ثقلین ان کی قدرو منزلت ہی کی وجہ سے کہا گیا ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ان دونوں (ثقلن) ان کے گناہوں کے باعث کہا گیا ہے اور مختلف اقوام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مضمون میں وسعت بہت ہے۔
Top