Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔
وَزَكَرِيَّآ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ۔۔ : یہ اس سورت میں مذکور نواں قصہ ہے، اس کی تفصیل سورة آل عمران (39 تا 41) اور سورة مریم (1 تا 15) میں ملاحظہ فرمائیں۔ وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ : وارث وہ ہے جو کسی مالک کے فوت ہونے کے بعد اس کی ملکیت کا مالک بنے۔ اصل وارث سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا) [ مریم : 40 ] ”بیشک ہم، ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور ان کے بھی جو اس پر ہیں۔“ زکریا ؑ نے اپنے علم و نبوت کا وارث عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت ”خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ“ کا وسیلہ پکڑا۔ قرآن و سنت میں مذکور دعاؤں میں ہر دعا کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی صفت کا ذکر ہے، جیسا کہ ایوب ؑ نے ”وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ“ کہا اور یونس ؑ نے ”لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ“ کہا۔ بعض مفسرین نے اس جملہ کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ میں تجھ سے وارث عطا کرنے کی دعا کر رہا ہوں، مگر حقیقی وارث تو ہی ہے، اگر تو مجھے اولاد نہ بھی دے گا تب بھی میرے بعد اپنے دین کا انتظام ضرور کرے گا۔ (قرطبی)
Top