Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠ ۧ
مُحَمَّدٌ
: محمد
رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ
: اللہ کے رسول
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
مَعَهٗٓ
: ان کے ساتھ
اَشِدَّآءُ
: بڑے سخت
عَلَي الْكُفَّارِ
: کافروں پر
رُحَمَآءُ
: رحم دل
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
تَرٰىهُمْ
: تو انہیں دیکھے گا
رُكَّعًا
: رکوع کرتے
سُجَّدًا
: سجدہ ریز ہوتے
يَّبْتَغُوْنَ
: وہ تلاش کرتے ہیں
فَضْلًا
: فضل
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے، کا
وَرِضْوَانًا ۡ
: اور رضا مندی
سِيْمَاهُمْ
: ان کی علامت
فِيْ وُجُوْهِهِمْ
: ان کے چہروں میں
مِّنْ
: سے
اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ
: سجدوں کا اثر
ذٰلِكَ
: یہ
مَثَلُهُمْ
: انکی مثال (صفت)
فِي التَّوْرٰىةِ
: توریت میں
وَمَثَلُهُمْ
: اور انکی مثال (صفت)
فِي الْاِنْجِيْلِ ۾
: انجیل میں
كَزَرْعٍ
: جیسے ایک کھیتی
اَخْرَجَ
: اس نے نکالی
شَطْئَهٗ
: اپنی سوئی
فَاٰزَرَهٗ
: پھر اسے قوی کیا
فَاسْتَغْلَظَ
: پھر وہ موٹی ہوئی
فَاسْتَوٰى
: پھر وہ کھڑی ہوگئی
عَلٰي سُوْقِهٖ
: اپنی جڑ (نال) پر
يُعْجِبُ
: وہ بھلی لگتی ہے
الزُّرَّاعَ
: کسان (جمع)
لِيَغِيْظَ
: تاکہ غصہ میں لائے
بِهِمُ
: ان سے
الْكُفَّارَ ۭ
: کافروں
وَعَدَ اللّٰهُ
: وعدہ کیا اللہ نے
الَّذِيْنَ
: ان سے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
وَعَمِلُوا
: اور انہوں نے اعمال کئے
الصّٰلِحٰتِ
: اچھے
مِنْهُمْ
: ان میں سے
مَّغْفِرَةً
: مغفرت
وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
: اور اجر عظیم
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
(1) محمد رسول اللہ : ابن کثیر ؒ نے فرمایا :”لفظ“”محمد“ مبتدا اور ”رسول اللہ“ خبر ہے۔ محمد ﷺ کو ”رسول اللہ“ کہنے کے بعد اور کسی تعریف کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ اس میں تمام انسانی کمال اور خوبیاں آجاتی ہیں۔ اس لئے آگے ”والذین معہ“ کی صفت بیان فرمائی ہے۔“ اس مقام پر اس جملے سے کئی باتیں واضح ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ قرآن مجید میں عموماً آپ ﷺ سے خطاب یا آپ کا ذکر خیر آپ کے نام کے بجائے آپ کے القاب کے ساتھ ہوا ہے، مثلاً یا یھا النبی“ ، ”یایھا الرسول“ ، ”شاھداً“ ، ”مبشراً“ ، ”نذیراً“ ، ”’ اعیاً الی اللہ“ اور ”سراجاً منیراً“ وغیرہ۔ آپ ﷺ کا اسم گرامی ”محمد“ صرف چار جگہ آیا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (144) ، احزاب (40) ، سوروہ محمد (2) اور زیر تفسیر آیت۔ انچ اورں مقامات میں آپ کا نام لانے میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ یہاں حکمت یہ ہے ہ اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ اگر کفار مکہ نے حمیت جاہلیت میں آکر اصرار کیا ہے کہ معاہدے میں ”محمد رسول اللہ“ نہ لکھو اور ان کے اصرار پر صلح کی خاطر ”محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب“ لکھ دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ”محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، کفار کے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ دوسرا مقصد اس سوال کا جواب دینا ہے کہ تمام ادیان پر یہ دین کیسے غالب ہوگا ؟ فرمایا محمد ﷺ کا تمام دینوں پر غلبہ اپنے ذاتی کمال یا ذاتی جدوجہد کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اس لئے ہوگا کہ محمد ﷺ ”رسول اللہ“ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں، جنہیں اس نے بھیجا ہی اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرنے کے لئے ہے، پھر اللہ کے بھیجے ہوئے کو غالب آنے سے کون روک سکتا ہے ؟ (2) والذین معہ : اس میں ان پاکباز ہستیوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس ہدیات اور دین حق کو روئے زمین پر غالب کرنے والا تھا۔”والذین معہ“ (وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں) اس لفظ میں تمام صحابہ کرام شامل ہیں، خواہ انہیں آپ کے ساتھ رہنے کی لمبی مدت ملی ہو یا تھوڑی۔ حدیبیہ میں جو لوگ آپ کیساتھ تھے وہ اس لفظ کا اولین مصداق ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی صحبت ایسی اکسیر تھی کہ جس مومن کو حاصل ہوگئی اس کی طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شادت اور جنت کا ایسا شوق عطا فرمایا، انہیں ایسی شجاعت بخشیا ور ان میں ایسی برکت رکھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تو دشمن چند لمحوں میں بھاگ کھڑا ہوتا ، کسی لشکر میں ایک صحابی کی موجودگی اس کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتی۔ ان سیم لنے والوں میں بھی یہی برکت تھی۔ ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(یاتی زمان یغرو مثام من الناس ، فیقال فیکم من صحب النبی ﷺ ؟ فیقال نعم، فیفتح علیہ ، ثم یاتی زمان فیقال فیکم من صحب اصحاب النبی ﷺ ؟ فیقال نعم، فیفتح ، ثم یاتی زمان فیقال فیکم من صحب صاحب اصحاب التی ﷺ ؟ فیقال نعم، فیفتح) (بخاری، الجھاد والسیر، باب من استعان بالضعقا، والصالحین فی الحرب :2998)”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگو کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا :”کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا ہو ؟“ وہ کہیں گے :”ہاں !“ تو انہیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا :”کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو ؟“ وہ کہیں گے : ”ہاں !“ تو انہیں فتح عطا کی جائے گی۔“ (3) والذین معہ : جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا کہ ”والذین معہ“ (وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں) سے مراد سب سے پہلے وہ صحابہ ہیں جنہوں نے بیعت رضوان کی، پھر تمام صحابہ کرام ؓ ہیں خواہ انہیں ایک لمحہ کے لئے آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ہو۔ مفسر بقاعی نے فرمایا :”والذین معہ“ میں وہ تمام مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں احسان اور نیکی کیساتھ آپ ﷺ کی اتباع کرنے کی وجہ سے آپ کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہے۔“ پچھلے فائدے میں مذکور حدیث سے مفسر بقاعی کی اس بات کی تائید ہوتی ہے اور قرآن مجید میں صاف الفاظ میں احسان اور نیکی کے ساتھ اتباع کرنے والوں کو سابقون اولون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے سورة توبہ کی آیت (100) (والسبقون الاولون من المجرین والانصار والذین اثبعوھم باحسان ؓ عنم و رضواعنہ) کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ زیر تفسیر آیت میں کھیتی کی مثال صحابہ کے ساتھ قیامت تک ان کے پیروک اورں کو بھی ملانے سے پوری طرح مکمل ہوتی ہے۔ (4) اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم : ان الفاظ میں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کی تعریف فرمایء ہے کہ ان کا اللہ اور اس کے رسول پر ایسا ایمان ہے کہ ان کی دوستی اور دشمین کے جذبات بھی ان کے ایمان کے تابع ہوگئے ہیں۔ کوئی کافر ہے تو وہ اس کے دشمن اور اس کے مقابلے میں نہایت سخت ہیں اور اگر کوئی مومن ہے تو وہ اس کے دلی دوست اور اس پر بےحد مہربان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو کفار پر سختی کرنے اور ان کے ساتھ جہاد کا حکم دیا، فرمایا :(یایھا النبی جامد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم وما و لھم جھنم) (التوبۃ : 83)”اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔“ اور مسلمانوں کو بھی یہی حکم دیا، فرمایا :(یایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ) (التوبۃ : 123)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمہارے قریب ہیں اور لازم ہے کہ وہ تم میں کچھ سختی پائیں۔“ اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ ایمان والوں کا کفار کے ساتھ تعلق ان کے ایمان لانے تک ابدی عداوت و بغض کا ہے، خواہ وہ کفار ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قریبی رشتہ دار ہوں۔ دیکھیے سورة ممتحنہ کی پہلی چار آیات اور سورة مجادلہ کی آخری آیت۔ اس کے مقابلے میں ایمان والوں پر ہمارے نبی ﷺ بےحد مہربان اور شفیق تھے، جیسا کہ فرمایا :(لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنثم حریص علیکم بالمومنین رء وف رحیم) (التوبۃ : 128)”بلاشبہ یقینا تمہارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا ، نہایت مہربان ہے۔“ اور ایمان والوں کی صفت بھی یہی ہے، فرمایا :(یایھا الذین امنوا من یرتدمنکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی الممونین اعزۃ علی الکفرین، یجاھدون فی سبیل اللہ ولایخافون لومۃ لآیم ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ واسع علیم) (المائدۃ : 53)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(تری المومنین فی تراحمھم وتوادھم وتعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی غصوا تداعی لہ سائر جسدہ بالسھر والحمی) (بخاری، الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم : 6011)”تو ایمان والوں کو ان کے ایک دوسرے پر رحم ایک دوسرے سے دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت میں ایک جسم ک طرح دیکھے گا، جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کی وجہ سیب یداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“ اور ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا) (بخاری، المظالم، باب نصر المظلوم :2336)”مومن مومن کے لئے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ (5) واضح رہے کہ کافروں پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع کا اللہ اور اس کے رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں ان کو رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کے علاقے اس کام میں مانع نہیں اور جہاں تک ان کے ساتھ رحم و کرم کے معاملے کا تعلق ہے تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا ہے، فرمایا :(لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الذین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوآ الیھم، ان اللہ یحب المقسطین انما ینھکم اللہ عن الذین قتلوکم فی الذین و اخرجوکم من دیارکم و ظھروا علی اخراجکم ان تولو ھم، ومن یتولھم فاؤلئک ھم الظلمون) (الممتحنۃ : 8، 9)”اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کردیا اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تو تمہیں انھی لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو۔ اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔“ یعنی جو کفار مسلمانوں کے لئے باعث آزار اور ان کے ساتھ برسر جنگ نہیں ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا۔ چناچہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں ضعیف و مجبور یا ضرورت مند کفار کے ساتھ احسان و کرم کے معاملات کئے گئے ہیں۔ ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے، عین میدان کار زار میں بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی کارروائی جائز نہیں۔ (6) تریھم رکعاً سجداً : پچھلے جملے ”اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم“ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کا لوگوں کے ساتھ معاملہ ذکر فرمایا اور اس جملے میں ان کا اللہ کے ساتھ تعلق بیان فرمایا کہ تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ ان کے اکثر اوقات نماز کے مبارک عمل میں گزرتے ہیں جو آدمی کو اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب کرنے والا عمل ہے، کیوان کے نبی ﷺ نے فرمایا :(اقرب مایکون العبد من ربہ و ھو ساجد فاکتبر والداعئ) (مسلم، الصلاۃ باب مایقال فی الرکوع و السجود 1: 382)”بندہ اپنے رب کے سب سے قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے۔ تو بہت زیادہ داع کیا کرو۔“ ان کے دل مسجد کے ساتھ ہی معلق ہوتے ہیں، روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے گھر میں آکر یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہیں تو دھیان ادھر ہی رہتا ہے، پھر رات کو بھی قیام کرتے ہیں۔ (7) یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً : چونکہ رکوع و سجود ریا کے لئے بھی ہوسکتے ہیں اس لئے اس جملے میں صحابہ کرام اور رسول اللہ ﷺ کے پیرو کار ساتھیوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے کہا ن کے رکوع و سجود ریا یا دکھلا دے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں اور اس کی رضا کی طلب کے لئے ہوتے ہیں۔ اس میں ان کی ہمت کی بلندی کا بھی بیان ہے کہ وہ اعلیٰ چیز کے طلبگار ہیں جس سے بڑی کوئی چیز نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : 82)”اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی اور رضا سب سے بڑی چیز ہے۔“ دنیائے دنی یا دوسری ادنیٰ چیزیں ان کی بلند نگاہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ (8) سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود : بعض لوگوں نے سجدے کے اثر سے مراد پیشانی پر پڑنے والا گٹا لیا ہے، جسے عام طور پر محراب کہا جاتا ہے۔ کسی مخلص مسلمان کے ماتھے پر سجدے کی رگڑ سے پڑنے اولا نشان بھی یقیناً اس شناخت میں شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد وہ رونق اور حسن و شرافتکے آثار ہیں جو اخلاص، حسن نیت، خشیت و خشوع اور نماز کی کثرت سے چہرے پر نمایاں ہتوے ہیں۔ اگر دو آدمی رات بھر بیدار رہیں، ایک شراب نشویا ور گناہ کے کاموں میں مصروف رہے، دوسرا نماز یا قرآن کی تالوتا ور ذکر میں مصروف رہے تو صبح دونوں کے چہروں میں صاف قر نظر آئے گا۔ یہی فرق سچے و جھوٹے، دغا باز و باوفا، ظالم و عادل، بدکار و پاک دامن اور مکتبر و متواضع کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے :”سیما ھم فی وجوھھم“ یعنی السمت الحسن) ((طبری :31891)”یعنی اس سے مراد خوبصورت انداز اور ہئیت ہے۔“ ابن کثیر میں ہے، منصور نے مجاہد سے سنا کہ اس سے مراد خشوع ہے۔ منصور کہتے ہیں، میں نے کہا : میں تو اس سے مراد وہی نشان سمجھتا تھا جو چہرے پر پڑجاتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے چہروں پر، صحابہ ہوں یا ان کے متعبین، خاص قسم کا نور اور روقن ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے تمام لوگوں سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں بعض مفسرین نے ایک روایت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے قنل کی ہے :(من کثر صلاتہ باللیل حسن وجھہ بالھار)”جو شخص رات کو کثرت سے نماز پڑھے دن کو اس کا چہرہ خوبصورت ہوگا۔“ مگر اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں، بلکہ یہ ایک راوی شریک کا قول ہے۔ (9) ذلک مثلھم فی الثورتہ : ”مثل“ کا معنی مثال بھی ہوتا ہے اور وصف بھی، یہاں مراد وصف ہے، یعنی ان کا یہ وصف کہ سجدے اور عبادت کی تاثیر سے ان کی شناخت ان کے چہروں سے ظاہر ہوتی ہے، یہ تورات میں بیان ہوا ہے۔ اس وقت یہود و نصاریٰ کے ہاتھ میں جو تورات ہے اگرچہ انہوں نے اس میں کئی طرح کی تحریف کی ہے، رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کی صفات اکثرح ذف کردی ہیں اور بعض تبدیلی کردی ہے، اس کے باوجود اس کی پانچویں کتاب ”استثنا“ کے باب (33) اور فقرہ (2) میں ہے :”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کیلئے تھی۔“ اس پیش گوئی کا مصداق رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس میں جبل فاران سے جلوہ گر ہونے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آنے کا صاف حوالہ موجود ہے اور یہ مسلم بات ہے کہ فارانا حجاز کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ دس ہزار صحابہ کے ساتھ آئے تھے۔ ظاہر ہے قدوسیوں سے مراد اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفاتا ور عبادت گزار بندے ہیں، قرآن مجید میں اس کی جگہ ”تریھم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود“ کے الفاظ میں اور آتشیں شریعت کے بجائے ”اشدآء علی الکفار“ کہہ کر جہادی شریعت کا ذکر فرمایا ہے۔ تنبیہ :”’ س ہزار“ کے الفاظ بائبل کے سابقہ ایڈیشنوں میں موجود ہیں، حلایہ ایڈیشنوں میں تحریف کر کے بعض سے یہ عدد نکال دیا گیا ہے اور بعض میں سے اسے ”لاکھوں ‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ (10) ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج…: تو رات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے تقویٰ و تقدس ، جہادی شریعت اور ان کے غلبہ و اقتدار کی صفت بیان ہؤی ہے اور انجیل میں امت محمد ﷺ کے بتدریج قلت سے کثرت کی طرف اور کمزوری سے قوت کی طرف بڑھنے کو مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے کہ ان کی ابتدا اگرچہ کمزور ہوگی لیکن آخر کار وہ ایسے تنا ور درخت کی شکل اختیار کر جائیں گے جس کے سائے میں بڑی بڑی قومیں پناہ لیں گی۔ چناچہ انجیل متی، باب (13) ، فقرہ (3 تا 9) میں یہ مثال اس طرح بیان ہوئی ہے :”اس (مسیح) نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بودیا، وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے لیکن جب بڑھ جاتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔“ یہی مثال الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انجیل مرقس، باب (4) ، فقرہ (39) اور انجیل لوقا، باب (13) ، فقرہ (1821) میں بھی آئی ہے۔ (منقول از تفسیر ثنائی) قرآن مجید میں کھیتی کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حدیبیہ والے سال تم مکہ میں داخل نہیں ہو سکے تو اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور تمہیں یہ سبق سکھانا بھی مقصود ہے کہ اسلام کا عروج و کمال یک لخت نہیں بلکہ تدریج کے ساتھ ہوگا، جیسا کہ کھیتی بتدریج کمال کو پہنچتی ہے۔ پہلے وہ بیج سے نازک سی کو پنل یا سوئی نکالتی ہے، پھر اسے مضبوط کرتی ہے، پھر خوب موٹی ہوجاتی ہے، پھر اس کا پودا اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے، پھر اس کے ساتھ اور پودے اگتے چلے جاتے ہیں اور کھیت بھر جاتا ہے جس سے کاشت کرنے والوں کا دل خوش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک دن آنے والا ہے کہ ہدایت اور دین حق کی یہ کھیتی جو اول اول سر زمین عرب میں کاشت کی گئی، اپنے کمال کو پہنچے گی، مشرق و مغرب اس سے بھر جائیں گے، اپنی آبیاری اور دیکھ بھال کرنے والوں کے دلوں کو خوش کرے گی اور ان لوگوں کے دلوں کو غم و غصہ سے جلائے گی جنہوں نے اس کی نشو و نما کو روکنے کے لئے ایڑیچ وٹیک ا زور لگایا۔ (11) لیغیظ بھم الکفار :”لیغیظ“ کالام فعل مقدر کے متعلق ہے جو گزشتہ عبارت سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے :”ای جعلھم اللہ کذلک لیغیظ بھم الکفار“ یعنی اللہ تعالیٰ صحابہ کرام اور ان کے متبعین کو اس طرح بتدریج کمال و عروج تک پہنچائے گا، تاکہ ان کے ساتھ کفار کو غصہ دلائے اور ان کے دلوں کو جلائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو دعوت حق لے کر آئے اسے قبول کرنے والے اور اسے پوری دنیا پر غالب کرنے کے لئے اپنی جان، اپنا مال اور سب کچھ قربان کرنے والے صحابہ کرام تھے اور ان کے بعد ان سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین اور بعد کے لوگ تھے جن کے ذریعے سے یہ دین حق ساری دنیا میں پھیلا اور غالب ہوا۔ ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متعبین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انہیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔ تفسیر التحریر والتنویر (26/177) میں ہے کہ امام مالک رحہ اللہ نے فرمایا :(من اصبح من الناس فی قلبہ غیظ علی احد من اصحاب رسول اللہ ﷺ فقد اصابتہ ھذہ الایۃ)”لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول ﷺ میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔“ ابن عاشور نے فرمایا :”اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔“ (12) وعد اللہ الذین امنوا و عملوا الصلحت منھم…: شاہ عبدالقادر ؒ لکھتے ہیں :”اور کھیتی کی کہاوت یہ کہ اول ایک آدمی تھا اس دین پر ، پھر دو ہوئے پھر قوت بڑھتی گئی حضرت ﷺ کے وقت اور خلیفوں کے اور یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان لائے اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت ﷺ کے سب اصحاب ایسے ہی تھے، مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا۔ حق تعالیٰ بندوں کو ایسی خوش خبری نہیں دیتا کہ نڈر ہوجائیں، مالک سے اتنی شاباش بھی غنیمت ہے۔“
Top