Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں، تم انھیں دیکھو گے رکوع اور سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے، ان کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کے آثار ہیں، یہ ہے ان کی تمثیل تورات میں، اور انجیل میں، ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے کھیتی اس نے نکالی اپنی سوئی، پھر اس کی کمر مضبوط کی، پھر وہ سخت ہوئی پھر وہ اپنے تنا پر کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار اس کے پھلنے پھولنے پر جلیں، اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، مغفرت اور ایک اجرِعظیم کا
مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْـکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرٰ ہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا ز سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ ط ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰ ۃِ صلے ج وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ قف ج کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰ زَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْـکُفَّارَط وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔ (الفتح : 29) (محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں، تم انھیں دیکھو گے رکوع اور سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے، ان کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کے آثار ہیں، یہ ہے ان کی تمثیل تورات میں، اور انجیل میں، ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے کھیتی اس نے نکالی اپنی سوئی، پھر اس کی کمر مضبوط کی، پھر وہ سخت ہوئی پھر وہ اپنے تنا پر کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار اس کے پھلنے پھولنے پر جلیں، اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، مغفرت اور ایک اجرِعظیم کا۔ ) معاہدہ حدیبیہ اسلام کی تاریخ میں ایک ایسی موثر حیثیت کا حامل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبے کے حوالے سے ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن سے اسلام کی نشو و نما اور غلبہ ٔ دین کے امکانات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ کردیا ہے اور جس کام کے لیے گزشتہ انیس سال میں کشمکش برپا رہی اور اس کی بنیادیں استوار ہوتی رہیں اس نے نہایت تیزی سے برگ و بار پیدا کیے اور صرف چار سال میں عرب بھر میں وہ انقلاب ایسی کامیابی سے برپا ہوا کہ جس کی مثال تاریخِ عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی غیرمعمولی حیثیتِ عرفی کو اس حوالے سے لوگوں کے سامنے واضح کیا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ حیرت انگیز کامیایباں جو اتنے تھوڑے عرصے میں محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل کیں اس کی بنیاد درحقیقت کیا تھی۔ اور مسلمانوں نے حق و باطل کی اس کشمکش اور اس سلسلے میں مختلف امتحانات سے گزرتے ہوئے اپنے اندر جو ایمان و عمل اور مکارمِ اخلاق کی جو خصوصیات پیدا کیں ان کی صحیح تصویر کیا تھی۔ اور پھر اس کی تائید میں سابقہ کتب آسمانی سے چند پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جس میں اہل کتاب کو پہلے سے حقائق سے آشنا کیا گیا تھا تاکہ وہ اسلام کے حقائق کی گواہی دیں۔ لیکن انھیں بدقسمتی نے آپکڑا۔ وہ اس کے گواہ تو کیا بنتے اس کی دشمنی پر تل گئے۔ اور مسلمانوں کو کامیابی کا مژدہ سنانے کے ساتھ ساتھ اشارۃً یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمہارے ہاتھوں اسلامی انقلاب کی کامیابی تو یقینی ہے لیکن اس انقلاب کی نشو و نما اور اس کی کامیابی کے اسباب بتدریج پیدا ہوں گے۔ محمد رسول اللہ کی مختلف ترکیبیں کی گئی ہیں لیکن زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ مبتداء اور خبر ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد ﷺ نے دنیا میں جس انقلاب کو برپا کیا ہے اس میں آپ کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے رسول کی ہے۔ آپ نہ اس انقلاب کے بانی ہیں اور نہ اس کا تانابانا آپ کے دماغ نے بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید سے آپ نے اسے نشو و نما دینے میں بےحد محنت کی ہے اور ہر مشکل مرحلے میں انتہائی استقامت کا ثبوت دیا ہے۔ اور آپ کی تمام تر دعوتی زندگی میں کوئی مرحلہ ایسا نہیں جس پر کوئی شخص انگلی رکھ کر کہہ سکے کہ یہاں آپ سے خطا ہوئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو معصوم پیدا کیا جاتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں اس کی عصمت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرح ساتھ رہتی ہے۔ اس کا ہر قول اور ہر عمل اور ہر تقریر اس پر ایمان لانے والوں کے لیے حجت ہے۔ کیونکہ آپ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ نے رسول ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض کی بجاآوری میں جن لوگوں کو تیار کیا جو آپ کے صحابہ کرام ( رض) کہلاتے ہیں اور آپ کی معیت نے جس طرح ان میں ایسے حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں جن کے بارے میں دنیا کے دانشوروں کا یہ کہتا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے لیکن انسان کی عادات نہیں بدلتیں۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ آج جن صحابہ کرام ( رض) کا نام ہم نہایت ادب و احترام سے لیتے ہیں اور جن کی زندگیوں پر ہمیں بجاطور پر فخر ہے کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ وہ اپنے دور کے انتہائی بگڑے ہوئے لوگ تھے۔ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ انسانی خون، عزت، آبرو اور مال و دولت سے کھیلنا یہ ان کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ اور اس سلسلے میں کسی بڑی سے بڑی بداخلاقی سے وہ گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب کون کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تربیت نے ان کو جس اخلاقی بلندی تک پہنچایا کیا اس کے اوپر کسی انسان کے لیے کوئی ایسی منزل ہے جس کی وہ تمنا کرسکے۔ چناچہ ان کا ذکر کرتے ہوئے سب سے اہم بات جو اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کافروں کے بارے میں بڑے سخت اور آپس میں نہایت رحیم و کریم ہیں۔ بعض لوگوں کو ان الفاظ کو سمجھتے ہوئے ٹھوکر لگی اور انھوں نے یہ سمجھا کہ وہ بڑے لڑاکے اور غصے والے لوگ تھے، ہر وقت غیظ و غضب میں ڈوبے رہتے اور جیسے ہی کوئی کافر ان کے سامنے آتا تو وہ اس کی گردن اتارنے کے لیے لپکتے اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو تب بھی خوش اخلاقی سے پیش آنا کسی کافر کے ساتھ ان کے یہاں نہایت ناپسندیدہ بات تھی۔ حالانکہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ دونوں لفظ سورة المائدہ میں استعمال ہونے والے دونوں الفاظ کے ہم معنی ہیں۔ وہاں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے اَذِلَّۃٍ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَعِزَۃِ عَلٰی الْـکٰفِرِیْنَ ” وہ مومنوں پر نہایت نرم خو اور کافروں پر مشکل اور بھاری ہیں۔ “ اَعِزَۃِ عزیز کی جمع ہے۔ یہ ذلیل یا ذلول کے مقابل لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا معنی ہے سخت، مشکل، بھاری، ناقابلِ شکست، ناقابلِ عبور اور عسیر الانقیاد۔ یعنی وہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کافروں کو ان سے واسطہ پڑے تو وہ پتھر کی چٹان ثابت ہوتے ہیں۔ وہ اگر انھیں اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو کہیں سے انگلی دھنسانے کی جگہ نہ پاسکیں۔ یہاں بھی اس کا یہی مفہوم ہے کہ وہ کافروں پر سخت اور شدید ہیں یعنی وہ اگر انھیں استعمال کرنا چاہیں تو ہمیشہ ناکام رہیں گے۔ وہ اپنی فکر اور اپنی وفا اور اپنی جانثاری پر کبھی حرف نہیں آنے دیتے۔ دین کا معاملہ ہو یا مومنین کا وہ دین پر کسی سودے بازی کے قائل نہیں۔ اور کسی مومن کو اذیت دینے کا تو کیا سوال ہے وہ کسی کو اذیت پہنچانتے ہوئے دیکھ کر برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ تو ان کا اپنی فکری پختگی اور لوگوں کے ساتھ طرزعمل کا حال تھا۔ لیکن جہاں تک ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے جس کی اہم تر صورت عبادت ہے اس لحاظ سے جب کبھی تم انھیں رات کی تنہائیوں میں دیکھو گے تو کبھی قیام اللیل میں اور کبھی تہجد کے نوافل میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے تڑپتا ہوا دیکھو گے۔ چناچہ بندوں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اللہ تعالیٰ کے دین کے راستے میں ایثار و استقامت، اور عبادات میں انہماک کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے چہرے عبادات کے نور سے روشن ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے غائیت درجہ تعلق نے ان کے چہروں پر ملکوتی نور روشن کردیا ہے۔ اور بندوں سے حُسنِ سلوک کی وجہ سے وہ غائیت درجہ مطمئن اور شائستہ زندگی گزارتے ہیں۔ جو انھیں دیکھتا ہے وہ چہروں سے پہچان لیتا ہے کہ یہ چہرہ کسی مہذب، شائستہ اور سچے انسان کا چہرہ ہے۔ امام مالک کے بقول کہ جب مسلمان ملک شام میں داخل ہوئے تو عیسائی انھیں دیکھ کر پکار اٹھے کہ یہ حضرات تو بالکل ویسے ہیں جیسے ہم حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں کے بارے میں سنتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اَثَرِالسُّجُوْدِ میں پیشانیوں کے وہ نشانات مراد لیے ہیں جو کثرت سجود سے پیشانی پر پڑجاتے ہیں جنھیں عام طور پر گٹے کہا جاتا ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ ابن ماجہ میں بروایت جابر ( رض) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے من کثر صلوتہ باللیل حسن وجہہ بالنہار ” جو شخص رات میں نماز کی کثرت کرتا ہے، دن میں اس کا چہرہ حسین پرنور نظر آتا ہے۔ تورات میں چند پیشگوئیاں ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰ ۃِ یہ صحابہ کی وہ مثال ہے جو تورات میں بیان ہوئی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ اشارہ ان پیشگوئیوں کی طرف ہے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے بارے میں تورات، زبور اور یسعیاہ نبی کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ اہل کتاب نے قطع و برید کرکے ان پیشگوئیوں کو بالکل مسخ کردیا ہے لیکن آج بھی تورات اور انجیل میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مثلاً استثناء باب 33۔ 2 میں ہے ” خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے اپنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔ “ اس پیشگوئی کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ کے نمودار ہونے کا صحیح الفاظ میں حوالہ بھی ہے۔ اور اس سے مراد دس ہزار کی تعداد میں وہ صحابہ ہیں جو فتحِ مکہ کے موقع پر آپ کے ساتھ تھے۔ اور اس میں جس آتشی شریعت کا ذکر ہے یہ وہی چیز ہے جو قرآن کریم میں اَشِدَّآئُ عَلَی الْـکُفَّار کے الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے الفاظ میں اس کو یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ ” اس کے ہاتھ میں یعنی پیغمبر ﷺ کے ہاتھ میں اس کا چھاج ہوگا۔ وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا، دانے کو بھس سے الگ کرے گا، پھر دانے کو محفوظ کرے گا اور بھس کو جلا دے گا۔ “ انجیل کی تمثیل کی وضاحت وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِصحابہ کرام کی تمثیل جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اس میں اس اسلامی انقلاب کی کامیابی میں تدریج کی طرف اشارہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنے رسول کی کامیابیوں کے سفر کو نہایت تیز اور آسان کردے۔ اور اگر چاہے تو پورے جزیرہ ٔ عرب میں دنوں میں اس انقلاب کو برپا کردے۔ لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کامیابی بتدریج آگے بڑھے اور اس میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں ان کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بائبل کے عہدنامہ جدید میں اس تمثیل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ” اور اس نے کہا : خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے۔ پتی، پھر بالیں پھر بالوں میں تیار دانے پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آپہنچا۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بودیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہوجاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کرسکتے ہیں۔ (مرقس باب 4۔ آیت 26 تا 32) اور قرآن کریم نے اسی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے جب اپنی نبوت کی دعوت دینا شروع کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف لوگوں کو بلایا تو آپ بالکل یکہ و تنہا تھے۔ پھر حضرت صدیق اکبر ( رض) آئے، بچوں میں حضرت علی ( رض) نے ساتھ دیا، غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ ( رض) نے اور عورتوں میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ( رض) ایمان لائیں۔ یہ اس کھیتی کی پہلی سوئی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ اس سوئی نے طاقت پکڑی، موٹی ہوئی حتیٰ کہ اس قابل ہوگئی کہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ جیسے جیسے لوگ ایمان لاتے گئے، قافلہ بنتا گیا۔ اور دعوت کو قوت ملتی گئی۔ اسی سلسلے میں آپ کو ہجرت کرنا پڑی اور مدینہ طیبہ جا کر اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی۔ اللہ تعالیٰ کا دین جو اب تک صرف ایک مذہب کی شکل میں تھا اب اسلامی ریاست کا دین بن گیا۔ اور ملک کا قانون کہلایا۔ پھر بڑھتے بڑھتے پورا جزیرہ ٔ عرب اس کی آغوش میں آگیا۔ جن لوگوں نے اس کھیتی کو نشو و نما دینے میں شب و روز محنت کی تھی وہ اس کی باغ و بہار کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ لیکن جو ابھی تک اس کا انکار کرنے والے تھے وہ اس کے پھلنے پھولنے پر جل رہے تھے۔ اس طرح سے جزیرہ ٔ عرب کی حد تک آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں اس انقلاب کو بروئے کار آنے کا موقع ملا۔ اور اسلام کو ایک مضبوط بیس اور مرکز مل گیا جہاں سے اب پوری دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس دین کو دنیا تک پہنچنے کا راستہ مل گیا۔ اور وہ جماعت تیار ہوگئی جو اپنے اخلاص اور جاں نثاری کی وجہ سے تعداد میں تھوڑی ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی قوت تھی۔ اور جس نے چند ہی سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابیوں کا بھی یہ کہہ کر مژدہ سنایا کہ ایسے تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر انھوں نے قربانی اور استقامت کی تاریخ رقم کی ہم نے ان کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم رکھا ہے۔ بعض بدباطن قسم کے لوگوں نے اس آیت کے آخر میں مِنْہُمْ کا لفظ دے کر صحابہ پر طعن کا راستہ نکالا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن اور صالح نہ تھے لیکن ایسی بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کی کو رباطنی اس کو سامنے کی باتیں دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردے۔ ورنہ اس سورة الفتح کی کئی آیتوں میں صحابہ کے مومن اور صالح ہونے کا ذکر ہے، ان پر سکینت نازل فرمانے کا ذکر ہے، ان کے ایمان میں اضافہ کی بات کی گئی اور جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ وہ اعزاز ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اور اس اعلان میں کوئی استثناء نہیں فرمایا گیا اور پھر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ سیرت و کردار کے اعتبار سے یہ لوگ اس قابل تھے کہ انھیں تقویٰ کی دولت عطا کی گئی اور کلمہ تقویٰ کا پابند ٹھہرایا گیا اور ان کی اہلیت کا اعلان کیا گیا۔ ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کوئی شخص اس سورة کے آخر میں پہنچ کر ایک لفظ کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ آپ کے ساتھ جو صحابہ تھے وہ سارے مومن اور صالح نہ تھے۔ تو میں گمان بھی نہیں کرسکتا کہ اس سے بڑی کو رذوقی اور بدباطنی کی بھی کوئی دلیل ہوسکتی ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ سیاق وسباق کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مِنْھُمْ میں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ بیان کے لیے ہے۔ جیسے قرآن کریم کی ایک آیت فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ اْلاُوْثاَنِ ” بتوں کی گندگی سے بچو۔ “ اس آیت میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مِنْ تبعیض کے لیے ہے بلکہ جس کو عربی ذوق کی ہوا بھی لگی ہے وہ لازماً اسے بیان ہی کے معنی میں لے گا۔ اور اگر مِنْ کو تبعیض کے لیے لیا جائے تو پھر اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ بتوں میں سے جو ناپاک ہیں ان سے پرہیز کرو۔ اور اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی ہیں ان کی بندگی کی جاسکتی ہے۔
Top