Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں ، وہ شدید ہیں کفر کرنے والوں پر ، اور رحمدل ہیں اپنے درمیان ، تم دیکھو گے ان کو رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی خوشنودی ، ان کی نشانی ان کے چہروں میں سے سجدے کے اثر سے ، یہ مثال ہے ان کی تورات میں ، اور یہی مثال ہے ان کی انجیل میں ۔ جیسا کہ کھیتی اپنا پھٹہ نکالتی ہے ، پھر اس کو مضبوط کرتی ہے ، پھر وہ موٹا ہوجاتا ہے ، پھر کھڑا ہوجاتا ہے اپنی نال پر ۔ تعجب دلاتا ہے کھیتی کرنے والے کو تا کہ غصے میں ڈالے ان کی وجہ سے کفر کرنے والوں کو ، وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے ان میں سے بخشش کا اور اجر عظیم کا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے عمومی غلبہ یعنی اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا ذکر کیا تھا۔ پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تا کہ وہ اس دین کو تمام ادیان کے مقابلے میں غالب کر دے۔ اور اللہ ہی کافی ہے گواہی دینے والا ۔ اب آج کی آیت میں اس جماعت کا ذکر ہے ۔ جس کے ذریعے اللہ نے اس دین کو دنیا میں غالب کیا اور آئندہ کے لیے بھی اس کو نمونہ بنایا۔ رسالت کی گوہی گزشتہ دروس میں بیان ہوچکا ہے کہ صلح نامہ حدیبیہ تحریر کرتے وقتے مشرکین نے اتعراض کیا تھا۔ محمد رسول اللہ کی بجائے محمد ابن عبد اللہ لکھا جائے کیونکہ وہ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ اب اللہ نے ان کے اس انکار کے جواب میں حضور ﷺ کی رسالت کی خود گواہی دی ہے۔ محمد رسول اللہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو کفار اور مشرکین مٹانا چاہتے ہیں ، وہ ابدالا آباد تک قائم رہے گی ۔ صحابہ ؓ کی جماعت دوسری ضروری چیز اللہ کے دین کو دوسرے ادیان پر غالب بنانا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف نبی کا کام نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی کام ہے ۔ جس کے لیے جماعت کی ضرورت ہے۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ نے اسی مقصد کے لیے صحابہ ؓ کی جماعت کو تربیت دے کر تیار کیا ، تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کی تکمیل کرسکیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں والذین معہ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں یعنی آپ کے تربیت یافتہ صحابہ ؓ کی جماعت ، وہ بھی غلبہ دین کے اجتماعی کام میں برابر کے شریک ہیں ۔ اب پیغمبر (علیہ السلام) کی دو حیثیتیں ہیں ۔ ایک حیثیت میں آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور اس منصب میں آپ کا کوئی شریک نہیں ۔ آپ کی یہ حیثیت منفرد ہے۔ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اور آپ معصوم ہیں ، آپ کی دوسری حیثیت امیر جماعت کی ہے ، اور اس منصب میں آپ اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ شریک کار ہیں ۔ دین کو غالب بنانے میں آپ کے ساتھ صحابہ ؓ کا بھی حصہ ہے۔ چناچہ سورة توبہ میں ارشاد ہوتا ہے لٰـکِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ وَاُولٰٓـئِکَ لَھُمُ الْخَیْرٰتُز وَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ اَعَدَّ اللہ ُ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَ نْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (آیت : 88 ، 89) اللہ کے رسول اور اس کے ایماندار ساتھیوں نے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا ہے ، انہی لوگوں کے لیے بہتری ہے ، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہشت تیار کر رکھے ہیں جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں ، یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی اجتماعی کاوش سے اللہ نے فتح عطا فرمائی ہے اور دین اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کیا ہے۔ ان لوگوں کے متعلق گزشتہ رکوع میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ لقد ؓ المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ ( آیت : 18) اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے راضی ہوگیا ۔ جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کر رہے تھے ، اسی جذبہ قربانی کی وجہ سے خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کو تمام دنیا پر سیاسی غلبہ حاصل ہوگیا ۔ غرضیکہ والذین معہ سے صحابہ ؓ کرام کی یہی جماعت مراد ہے۔ مشاورت کی اہمیت اجتماعی امور میں مشاورت کی اہمیت مسلمہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں تک کہ ایسے امور میں جہاں وحی الٰہی کے ذریعے کسی بات کا فیصلہ نہ کردیا ہو ، خود اللہ کے نبی بھی پابند ہیں کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی جماعت کے ارکان سے مشورہ کرلیا کریں۔ بعض سیاسی یا انتظامی امور میں اللہ کی طرف سے واضح حکم نہیں آتا۔ بلکہ اسے اہل ایمان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی معاملات میں اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے۔ وشاورھم فی الامر ( آل عمران : 159) یعنی آپ اپنے صحابہ ؓ سے مشورہ کرلیا کریں اور پھر تمام اہل ایمان کے حق میں بھی فرمایا وامر ھم شوریٰ بینھم ( الشوریٰ : 38) یعنی ان کے معاملات باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں ۔ پھر جب کوئی معاملہ مشورہ کے ذریعے طے پا جائے تو پھر اللہ کا حکم ہے۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ( آل عمران : 159) تو اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دو ۔ مشاورت کے حکم سے متعلق بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے جو مشورہ کو استحباب کا درجہ دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ واجب ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) کا یہی مسلک ہے ۔ جب اللہ کے نبی بھی غیر منصوص امور میں باہمی مشورہ کے پابند ہیں تو دنیا کے باقی بادشاہ ، صدور یا دیگر حکام کیسے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مشاورت کو استحباب کے درجے میں رکھنے کی وجہ سے ہی لوگ اس کی ضرورت کو نظر انداز کر کے من مانی کرنے لگے ہیں ۔ بقول مولانا عبید اللہ سندھی (رح) سرکاری خزانے کی امانت کو دنیا کے بادشاہوں امراء اور ڈکیٹروں نے اپنی شان و شوکت ، لہو و لعب اور شہوت پرستی پر خرچ کرنا شروع کردیا ۔ جو اپنے معاملات میں کسی مشورہ یا رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ ناجائز امور میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے اوصاف آگے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کے بعض اوصاف بیان کیے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے اشدء علی الکفارہ وہ کافروں پر بڑے سخت ہیڈ رحماء بینھم البتہ آپ میں مہربان ہیں ۔ جب آپ کی بات ہوتی ہے تو نہایت نرم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ فرمایا ان کی ایک نشانی یہ ہے ترھم رکعا ً سجدا ً آپ ان کو دیکھیں گے رکوع کرتے ہوئے اور سجدے کرتے ہوئے ۔ گویا وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے محو عبادت رہتے ہیں۔ کسی بندے کا رکوع کرنا اس کے عہدہ ٔ تکلیف کو قبول کرنے کی علامت ہے۔ جب انسان اپنی پشت جھکا دیتا ہے تو وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے ہر فرمان کو قبول کروں گا ۔ گویا یہ اس کے اظہاراطاعت کا ایک ذریعہ ہے اس سے انسان کی عجز و انکساری کا ثبوت بھی ملتا ہے اور پھر جب انسان سجدہ کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے مکمل فرمانبرداری کا اظہار ہوتا ہے۔ پہلے سجدہ میں آدمی اپنے نفس کی طرف سے مکمل اطاعت کو پیش کرتا ہے جب کہ دوسرے سجدے کے ذریعے وہ اپنے مال اور اپنے لواحقین کی طرف سے بھی کامل اطاعت کا یقین دلاتا ہے۔ وہ اپنے خدا تعالیٰ کی انتہائی تعظیم بجا لاتے ہوئے اقرار کرتا ہے کہ میں اپنے اور اپنے لواحقین کی طرف سے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لا کر ہر جانی اور مالی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کی ایک صفت یہ بھی ہے یبتغون فضلا ً من اللہ ورضوانا ً وہ اپنی کمال اطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ فضل سے مراد ارتفاق ہے یعنی اسی دنیا میں انسان اپنی زندگی بہتر طریقے سے بسر کرے۔ ظاہر ہے کہ بہتر طریقے سے بسر اوقات کے وسائل رزق کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کاروبار کرتا ہے محنت مزدوری کرتا ہے ملازمت اختیار کرتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے تو مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایسا کر کے زندگی کے لوازمات حاصل کرے جس سے اسے سکون اور اطمینان حاصل ہو ۔ اس مقصد کے حصول تقویٰ کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے خود تلاش رزق کی ترغیب دی ہے سورة الجمعہ میں موجود ہے۔ لوگو ! جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو کاروبار چھوڑ کر ذکر الٰہی کی طرف متوجہ ہو جائو۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہ ِ (آیت : 10) جب نماز سے فارغ ہو جائو ، تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرو ، کیونکہ تمہاری زندگی کا انحصار اسی چیز پر ہے ، مطلب یہ ہے کہ فضل سے مراد لوازمات زندگی ہیں جن کے حصول کے لیے انسان کو محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری چیز جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، وہ رضوان ہے ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ رضوان سے مراد اقتراب ہے جس کا معنی خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے۔ انسان عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ بہت بڑی چیز ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اور انہیں وہاں کی تمام نعمتیں میسر آجائیں گی تو اللہ تعالیٰ دریافت فرمائیں گے کہ جنتیو ! بتائو کسی اور چیز کی ضرورت ہے ؟ عرض کریں گے ، مولا کریم ! اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا ضرورت ہوگی ؟ اللہ فرمائے گا ، میں تمہیں ان سے بڑھ کر نعمت دینے والا ہوں اور وہ میری رضا ہے ۔ جائو ! آج کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا ۔ الغرض اللہ نے صحابہ کرام ؓ کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر فرمایا سیما ھم فی وجوھھم من اثرا السجود ان کی نشانی ان کے سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں سے نمایاں ہوگی ۔ عام طور پر نمازی آدمی کی پیشانی پر سجدہ کا نشان پڑجاتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی پیشانی رگڑ رگڑ کر محراب کا گٹھا بنانے کی کوشش کرے۔ یہاں پرچہرے کی جس نشانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نشانی ہرگز مراد نہیں ، بلکہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ کی روایت میں آتا ہے ک جو شخص اس لیے ماتھا رگڑ کر نشان بناتا ہے کہ لوگ اسے عبادت گزار سمجھیں ۔ وہ خود منافق سمجھا جائے گا ۔ بہر حال جس نشانی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ صحابہ ؓ کے چہروں سے ظاہر ہے ، اس سے تواضع اور انکسار کی نشانی ہے۔ ریاضت کی وجہ سے ان کے چہروں سے خاص قسم کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ اور خاص قسم کی روحانیت ٹپکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عبادت اور ریاضت کرتے کرتے ان کے چہرے زد بھی ہو سکتے ہیں جسا سورة البقرہ میں فرمایا تعرفھم بسمھم ( آیت : 273) ا ن کی محتاجی ان کے چہروں سے نمایاں ہوتی ہے۔ مگر وہ کسی سے سوال نہیں کرتے ، بہر حال فرمایا کہ اللہ کے نبی کے ساتھیوں کی نشانی ان کے چہروں میں سجدے کے اثر سے ظاہر ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کرام ان نشانیوں کو الگ الگ شخصیات پر بھی محمول کرتے ہیں۔ مثلاً والذین معہ کا مصداق حضر ت ابوبکر صدیق ؓ ہیں جن کو حضور ﷺ کی ہمیشہ معیت حاصل رہی ۔ آپ غار میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے اور ہجرت میں بھی آپ کے ساتھی تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اشداء علی الکفار سے مراد حضرت عمر ؓ ہیں جو کہ کافروں کے مقابلے میں بڑے سخت گیر تھے۔ اسی طرح رحماء بینھم کے مصداق حضرت عثمان ؓ ہیں ۔ جو مسلمانوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت اور مہربانی کا سلوک کرنے والے تھے۔ اور پھر رکعا ً سجدا ً کا بہترین نمونہ حضرت علی ؓ ہیں جو بڑے ہی عبادت گزا ر تھے ۔ آپ کی خدام بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ایک رات میں آپ کی زبان سے ہزار ہزار بار تکبیر سنتے تھے ۔ گویا کہ آپ اتنی نمازیں پڑھتے تھے۔ ایک ہزار تکبیر سے نمازوں کی رکعات کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ شاہ عبد القادر (رح) فرماتے ہیں کہ انسان میں جو تندی اور نرمی اپنی عبادت کی وجہ سے پیدا ہو ، وہ سب عبادت گزاروں میں برابر ہوتی ہے اور جو سختی یا نرمی ایمان سے سنور کر پیدا ہو ، وہ سختی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ پر آتی ہے۔ اور یہی جماعت صحابہ ؓ کا شیوہ ہے ۔ گویا یہ ایمان کا کمال ہے کہ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سختی آتی ہے اور جہاں نامی کی ضرورت ہو ، وہاں نرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ تورات اور انجیل کی شہادت صحابہ ؓ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا ذلک مثلھم فی التورۃ ومثلھم فی الانجیل ان کی یہ مثال تورات میں بھی بیان کی گئی ہے اور انجیل میں بھی تورات میں صحابہ ؓ کی جماعت سے متعلق پیشین گوئی موجود ہے کہ ” وہ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا ۔ دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ ، اس کے دائیں ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور وہ دنیا کی اقوام سے محبت کرتا ہے اور لوگ اس کے قدموں میں اکٹھے کیے جاتے ہیں “۔ حضور ﷺ کا ایک لقب حاشر بھی ہے ۔ دس ہزارقدسیوں سے مراد صحابہ ؓ کی وہ جماعت ہے جو فتح مکہ کے موقع پر آپ کے ہمراہ تھی ۔ تا ہم تورات کے موجودہ ایڈیشنوں میں اس لفظ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ کیونکہ اس سے حضور ﷺ کی رسالت ثابت ہوتی تھی اور جو یہودیوں کو یہ ہرگز منظور نہیں ۔ کھیتی کے ساتھ تشبیہ فرمایا صحابہ ؓ کی اس جماعت کی مثال کزرع اخرج شطہٗ ایک کھیتی یا پودے کی ہے جو اپنا پھٹہ نکالتی ہے ۔ فازرہ پھر اس کی کمر مضبوط ہوجاتی ہے ۔ فاستغلظ پھر وہ موٹی ہوجاتی ہے فاستوی علی سوقہ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑے ہوجاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ جس طرح زمین سے نکلنے والا ایک پودا نہایت ہی نرم و نازک اور کمزور ہوتا ہے مگر بعد میں وہ مضبوط ہوجاتا ہے بلکہ کڑیل درخت بن جاتا ہے ، اسی طرح صحابہ ؓ کی جماعت ابتداء میں بالکل کمزور تھی ، اسکی تعداد بھی قلیل تھی۔ مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسی جماعت کو مضبوط بنا دیا ۔ جنہوں نے قیصر و کسریٰ جیسی عظیم سلطنتوں کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا اور پوری دنیا پر اسلام کو غالب بنا دیا ۔ کھیتی کی مثال کے تسلسل میں فرمایا کہ جب وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوجاتی ہے تو یعجب الزراع تو کھیتی والے آدمی کو خوش کردیتی ہے۔ وہ راضی ہوجاتا ہے کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی اور اب وہ اس کا پھل پانے والا ہے ۔ تو فرمایا اسی طرح اللہ نے صحابہ ؓ کی اس جماعت کو مضبوط بنا دیا ہے لیغیظ بھم الکفار تا کہ اس کی وجہ سے کافروں کو غصے میں ڈالے ، کافر لوگ اہل ایمان کی ترقی کو دیکھ کر جلتے تھے اور غصے کی وجہ سے ان کے چہرے سیاہ ہوجاتے تھے۔ اسی لیے امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص حضور ﷺ کے صحابہ ؓ سے حسد کرتا ہے ۔ ان سے جلتا ہے ان کے متعلق بد گمانی کرتا ہے۔ وہ کافروں میں شامل ہوجاتا ہے ۔ کوئی سچا مسلمان صحابہ ؓ کے متعلق بد گمانی نہیں کرسکتا اور نہ ہی انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنا سکتا ہے ۔ یہ تو پاک لوگ تھے جن کی اللہ نے یہاں تعریف بیان کی ہے اور انہیں آئندہ آنے والے نسلوں کے لیے بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ آئندہ اگر کوئی انقلاب آئے گا تو وہ اسی جماعت کے نمونہ پر چل کر لایا جاسکے گا ۔ صحابہ ؓ کا جذبہ اطاعت و فرمانبرداری ، دین کے ساتھ مکمل وفاداری ، جان و مال کی قربانی اور موت کی فکر قبول کرنا ، ان لوگوں کا طرہ امتیاز تھا ۔ اور انہیں کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ اہل ایمان سے وعدہ الذین امنوا وعملوا الصحلت منھم اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے اعمال انجام دیے مغفرۃً بخشش اور مغفرت کا یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ان اعمال کی وجہ سے ان کی کوتاہیاں اور لغزشیں معاف فرما دے گا ۔ انقلابی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے بعض کوتاہیوں کا ارتکاب بعید از قیاس نہیں مگر اللہ نے سب کی معافی کا اعلان فرما دیا ہے ، اور ساتھ ساتھ واجر ا ً عظیما ًبہت بڑے اجر کا وعدہ بھی فرمایا ہے جو ان کو آخرت میں میسر آئیگا ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مساعی کا پورا پورا بلکہ بڑھا چڑھا کر بدلہ عطا کرے گا ۔ ان کو اپنی رحمت کے مقام میں داخل کرے گا ، جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔
Top