Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد رسول اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں تو دیکھے ان کو رکوع میں سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی، نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدے کے اثر سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مظبوط کی پھر موٹا ہوا پھر کھڑا ہوگیا اپنی نال پر خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاکہ جلائے ان سے جی کافروں کا وعدہ کیا ہے اللہ نے ان سے جو یقین لائے ہیں اور کئے ہیں بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ، پورے قرآن میں خاتم الانبیاء ﷺ کا نام مبارک لینے کے بجائے عموماً آپ کا ذکر اوصاف و القاب کے ساتھ کیا گیا خصوصاً ندا کے موقع پر یایھا النبی، یایھا الرسول، یایھا المزمل وغیرہ بخلاف دوسرے انبیاء کے کہ ان کے نام کے ساتھ ندا کی گئی، یا ابراہیم یا موسیٰ یا عیسیٰ پورے قرآن میں صرف چار جگہ آپ کا نام مبارک محمد ذکر فرمایا ہے جہاں اس نام کے ذکر ہی میں کوئی مصلحت تھی اس مقام پر مصلحت یہ تھی کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں آپ کے نام کے ساتھ جب حضرت علی نے محمد رسول اللہ لکھا تو کفار قریش نے اس کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھنے پر اصرار کیا، رسول اللہ ﷺ نے بحکم ربانی اس کو منظور کرلینا قبول کیا۔ حق تعالیٰ نے اس مقام پر خصوصیت سے آپ کے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ قرآن میں لا کر اس کو دائمی بنادیا جو قیامت تک اسی طرح پڑھا لکھا جائے گا۔
وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ، یہاں سے آپ کے صحابہ کرام کے فضائل کا بیان ہے، اگرچہ اس کے پہلے مخاطب حضرات صحابہ ہیں جو حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے لیکن الفاظ کے عموم میں سبھی صحابہ کرام شامل ہیں کیونکہ صحبت و معیت سب کو حاصل ہے۔
صحابہ کرام کے اوصاف و فضائل اور خاص علامات
اس مقام پر حق تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی رسالت اور آپ کے دین کو سب دینوں پر غالب کرنے کا بیان فرما کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوصاف و فضائل اور خاص علامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے، اس میں ان کے اس سخت امتحان کا انعام بھی ہے جو صلح حدیبیہ کے وقت لیا گیا تھا کہ ان کے قلبی یقین اور قلبی جذبات کے خلاف صلح ہو کر بغیر دخول مکہ وغیرہ کے ناکام واپسی کے باوجود ان کے قدم متزلزل نہیں ہوئے اور بےنظیر اطاعت رسول اور قوت ایمانی کا ثبوت دیا، نیز صحابہ کرام کے فضائل اور علامات کی تفصیل بیان فرمانے میں یہ حکمت بھی ہو تو بعید نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی اور نبی و رسول تو مبعوث ہونے والا نہیں تھا آپ نے اپنے بعد امت کے لئے کتاب اللہ کے ساتھ اپنے اصحاب ہی کو بطور نمونہ کے چھوڑا ہے اور ان کی اقتداء و اتباع کے احکام دیئے ہیں، اس لئے قرآن نے بھی ان کے کچھ فضائل اور علامات کا بیان فرما کر مسلمانوں کو ان کے اتباع کی ترغیب و تاکید فرما دی ہے۔ اس مقام پر صحابہ کرام کا سب سے پہلا وصف تو یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔ کفار کے مقابلہ میں سخت ہونا ان کا ہر موقع پر ثابت ہوتا رہا ہے کہ نسبی رشتے ناتے سب اسلام پر قربان کردیئے اور حدیبیہ کے موقع پر خصوصیت سے اس کا اظہار ہوا اور آپس میں مہربان اور ایثار پیشہ ہونا صحابہ کرام کا اس وقت خصوصیت سے ظاہر ہوا جبکہ مہاجرین و انصار میں مواخات ہوئی اور انصار نے اپنی سب چیزوں میں مہاجرین کو شریک کرنے کی دعوت دی۔ قرآن نے صحابہ کرام کے اس وصف کو مقدم بیان فرمایا کیونکہ درحقیقت اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی دوستی اور دشمنی، محبت یا عداوت کوئی چیز اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہوتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایمان کامل کا اعلیٰ مقام ہے صحیح بخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ من احب للہ و ابغض للہ فقد استکمل ایمانہ یعنی جو شخص اپنی محبت اور بغض و عداوت دونوں کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام کے کفار کے مقابلہ پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر اللہ و رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں ان کو اپنے رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کے علاقے اس کام میں مانع نہیں اور جہاں تک ان کے ساتھ رحم و کرم کے معاملہ کا تعلق ہے وہ تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ (آیت) لاینھکم اللہ (الیٰ) ان تبروھم وتقسطوآ الیھم، یعنی جو کفار مسلمانوں کے درپے آزار اور مقاتلہ پر نہیں ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا، چناچہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں ضعیف و مجبور یا ضرورت مند کفار کے ساتھ احسان و کرم کے معاملات کئے گئے ہیں اور ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے۔ عین میدان کار زار میں بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی کارروائی جائز نہیں۔
دوسرا وصف صحابہ کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کا عام حال یہ ہے کہ وہ رکوع و سجدہ اور نماز میں مشغول رہتے ہیں ان کو دیکھنے والے اکثر ان کو اسی کام میں مشغول پاتے ہیں۔ پہلا و صف کمال ایمان کی علامت تھی دوسرا وصف کمال عمل کا بیان ہے کیونکہ اعمال میں سب سے افضل نماز ہے (آیت) سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ، یعنی نماز ان کا ایسا وظیفہ زندگی بن گیا ہے کہ نماز اور سجدہ کے مخصوص آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہوتے ہیں۔ مراد ان آثار سے وہ انوار ہیں جو عبدیت اور خشوع و خضوع سے ہر متقی عبادت گزار کے چہرہ پر مشاہدہ کئے جاتے ہیں، پیشانی میں جو نشان سجدہ کا پڑجاتا ہے وہ مراد نہیں۔ خصوصاً نماز تہجد کا یہ اثر بہت زیادہ واضح ہوتا ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں بروایت جابر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے من کثر صلوٰة بالیل حسن وجھہ بالنھار یعنی جو شخص رات میں نماز کی کثرت کرتا ہے دن میں اس کا چہرہ حسین پر نور نظر آتا ہے اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس سے مراد نمازیوں کے چہروں کا وہ نور ہے جو قیامت میں نمایاں ہوگا۔
(آیت) ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ ، صحابہ کرام کی جو علامت اوپر بیان فرمائی ہے کہ سجدوں اور نمازوں کا نور ان کی پیشانیوں کی علامت ہے اس آیت میں فرمایا کہ ان کی یہی مثال تورات میں بیان کی گئی ہے پھر فرمایا کہ انجیل میں ان کی ایک اور مثال یہ دی گئی ہے کہ وہ ایسے ہیں جیسے کوئی کاشتکار زمین میں بیج اگائے تو اول وہ ایک ضعیف سی سوئی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اس میں شاخیں نکلتی ہیں پھر وہ اور قوی ہوتا ہے پھر اس کا مضبوط تنہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے اصحاب شروع میں بہت کم تھے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے سوا صرف تین مسلمان تھے مردوں میں صدیق اکبر، عورتوں میں حضرت خدیجہ، بچوں میں حضرت علی پھر رفتہ رفتہ ان کی قوت بڑھتی رہی یہاں تک کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج میں شریک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتلائی گئی ہے۔ اس آیت میں تین احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ فی التوراة پر وقف کیا جائے اور پچھلی مثال یعنی چہروں کا نور، یہ علامت تورات کے حوالہ سے بیان ہوئی آگے مثلھم فی الانجیل پر وقف نہ کریں بلکہ ملا کر پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ صحابہ کی مثال انجیل میں اس کھیتی یا درخت کی ہے جو شروع میں نہایت کمزور ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ قوی تناور ہوجاتا ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ فی التورتہ پر وقف نہ ہو بلکہ فی الانجیل پر وقف کیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ سابقہ نشانی چہروں کے نور کی تورات میں بھی ہے انجیل میں بھی اور آگے کزرع کی مثال کو ایک الگ مثال قرار دیا جائے۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ فی التورتہ پر کلام ختم ہو نہ فی الانجیل پر اور لفظ ذلک اگلی مثال کی طرف اشارہ ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ تورات و انجیل دونوں میں صحابہ کی مثال زرع یعنی کھیتی کی دی گئی ہے۔ اگر اس زمانہ میں تورات و انجیل اپنی اصلی حالت میں ہوتیں تو ان کو دیکھ کر مراد قرآنی متعین ہوجاتی لیکن ان میں تحریفات کا سلسلہ بےحد و بیشمار رہا ہے اس لئے کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہوسکتا، مگر اکثر حضرات مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے جس میں پہلی مثال تورات میں اور دوسری انجیل میں ہونا معلوم ہے۔ امام بغوی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی یہ مثال انجیل میں ہے کہ شروع میں قلیل ہوں گے پھر بڑھیں گے اور قوی ہوں گے جیسا کہ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی یہ مثال انجیل میں لکھی ہوئی ہے کہ ”ایک قوم ایسی نکلے گی جو کھیتی کی طرح بڑھے گی اور وہ نیک کاموں کا حکم اور برے کاموں سے منع کیا کرے گی (مظہری) موجودہ زمانہ کی تورات و انجیل میں بھی بیشمار تحریفات کے باوجود اس کی پیشین گوئی کے حسب ذیل الفاظ موجود ہیں، تورات باب استثناء 123۔ 1 تا 3 کے یہ الفاظ ہیں۔
”خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا، دس ہزار مقدسوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی وہ اپنے لوگوں سے بڑی محبت رکھتا ہے اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں اور وہ تیرے قدموں کے پاس بیٹھے ہیں تیری بات مانیں گے“
یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ فتح مکہ کے وقت صحابہ کرام کی تعداد دس ہزار تھی جو فاران سے طلوع ہونے والے اس نورانی پیکر کے ساتھ شہر خلیل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھ میں آتشیں شریعت ہوگی کے لفظ سے اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں سے محبت کرے گا کے لفظ سے رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ کا مضمون سمجھا جاتا ہے اس کی پوری تفصیل مع دوسرے حوالوں کے اظہار الحق جلد سوم باب ششم ص 256 میں ہے یہ کتاب عیسائیت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈر کے مقابلہ پر تحریر فرمائی تھی اس کتاب میں انجیل کی تمثیل کا اس طرح ذکر ہے۔ انجیل متی باب 13 آیت 31 میں یہ الفاظ ہیں۔ اس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانہ کے مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا، وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں اور انجیل مرقس 26:4 کے یہ الفاظ ہیں جو الفاظ قرآنی کے زیادہ قریب ہیں ”اس نے کہا کہ خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح آگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے، پہلے پتی پھر بالیں پھر بالوں میں تیار دانے پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آپہنچا (اظہار الحق جلد 3) باب ششم ص 310 آسمان کی بادشاہی سے مراد نبی آخر الزماں کا ہونا انجیل کے متعدد مقامات سے ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
(آیت) لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو ان صفات کمال کے ساتھ مزین فرمایا اور ان کو ضعف کے بعد قوت، قلت کے بعد کثرت بخشی، یہ سب کام اس لئے ہوا تاکہ ان کو دیکھ کر کافروں کو غیظ ہو اور وہ حسد کی آگ میں جلیں، حضرت ابوعروہ زبیری فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امام مالک کی مجلس میں حاضر تھے ایک شخص نے بعض صحابہ کرام کی تنقیص کے کچھ کلمات کہے تو امام مالک یہ آیت پوری تلاوت کر کے جب لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ پر پہنچے تو فرمایا کہ جس شخص کے دل میں صحابہ کرام میں سے کسی کے ساتھ غیظ ہو تو اس آیت کی وعید اس کو ملے گی (قرطبی) حضرت امام مالک نے یہ تو نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہوجاوے گا مگر یہ فرمایا کہ یہ وعید اس کو بھی پہنچے گی۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کافروں جیسا کام کرنے والا ہوجائے گا۔
(آیت) وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا، منھم کا حرف من اس جگہ باتفاق مفسرین بیانیہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ سب صحابہ کرام ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سب سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے اور یہ من بیانیہ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے جیسے ارشاد ہے (آیت) فاجتنبوالرجس من الاوثان تو من الاوثان، بیان ہے لفظ رجس کا، اسی طرح یہاں منھم بیان ہے الذین امنوا کا اور روافض نے جو اس جگہ حرف من کو تبعیض کے لئے یہ کہہ کر مطلب نکالا ہے کہ ان میں سے جو بعض لوگ ایمان و عمل صالح پر ہیں ان سے یہ وعدہ ہے یہ سراسر سیاق کلام اور اوپر کی آیات کے منافی ہے کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ صحابہ کرام تو بلاشبہ داخل اور آیت کے پہلے مصداق ہیں جو سفر حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے ان سب کے متعلق اوپر کی آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرما دیا ہے (آیت) لقد ؓ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة اور رضائے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت ہے کہ یہ سب مرتے دم تک ایمان و عمل صالح پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ تو علیم وخبیر ہے اگر کسی کے متعلق اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ کسی وقت ایمان سے پھرجانے والا ہے تو اس سے اپنی رضا کا اعلان نہیں فرما سکتے۔ ابن عبدالبر نے مقدمہ استیعاب میں اسی آیت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ومن ؓ لم یسخط علیہ ابدًا یعنی اللہ جس سے راضی ہوجائے پھر اس پر کبھی ناراض نہیں ہوتا اور رسول اللہ ﷺ نے اسی آیت کی بنا پر ارشاد فرمایا کہ بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی آگ میں نہ جائے گو یہ وعدہ اصالةً انہی کے لئے کیا گیا ہے ان میں سے بعض کا مستثنیٰ ہونا قطعاً باطل ہے اسی لئے امت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل و ثقہ ہیں۔
صحابہ کرام سب کے سب اہل جنت ہیں ان کی خطائیں مغفور ہیں ان کی تنقیص گناہ عظیم ہے
قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں جن میں چند آیات تو اسی سورت میں آ چکی ہیں (آیت) لقد ؓ عن المومنین اور الزمھم کلمتہ التقوی و کانوا احق بھا واھلھا، ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے (آیت) یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان ؓ و رضواعنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر اور سورة حدید میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے (آیت) وکلا وعداللہ الحسنیٰ یعنی ان سب سے اللہ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے پھر سورة انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولٓئک عنھا مبعدون یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے وہ جہنم کی آگ سے دور رکھے جائیں گے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم (بخاری)
یعنی تمام زمانوں میں میرا زمانہ بہتر ہے اس کے بعد اس زمانے کے لوگ بہتر ہیں جو میرے زمانے کے متصل ہیں پھر وہ جو ان کے متصل ہیں۔
اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ (ان کی قوت ایمان کی وجہ سے ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کی برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے خرچ کئے ہوئے ایک مد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ نصف مد کی برابر۔ مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریباً ہمارے آدھے سیر کی برابر ہوتا ہے (بخاری) اور حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو سارے جہان میں سے پسند فرمایا ہے پھر میرے صحابہ میں میرے لئے چار کو پسند فرمایا ہے۔ ابوبکر، عمر، عثمان علی ؓ (رواہ البزار بسند صحیح) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے۔
اللہ للہ فی اصحابی لا تتخذو ھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبجی احبہم و من ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاھم فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ ومن اذی اللہ فیوشک ان یاخذہ (رواہ الترمذی عن عبداللہ بن المغفل از جمع الفوائد)
اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں میرے بعد ان کو طعن تشنیع کا نشانہ مت بناؤ کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی اور جو اللہ کو ایذا پہنچانے کا قصد کرے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑے گا۔
آیات و احادیث اس کے متعلق بہت ہیں جن کو احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں جمع کردیا ہے یہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔ تمام صحابہ کرام کے عدل و ثقہ ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اور صحابہ کے مابین جو اختلافات جنگ و قتال تک پہنچے ان کے متعلق بحث و تمحیص اور تنقید و تحقیق یا سکوت کا مسئلہ بھی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے اور اس میں سے بقدر ضرورت سورة محمد کی تفسیر میں آ چکا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان
تمت بحمد اللہ وعونہ سورة الفتح للتاسع والعشرین من شعبان سن 1392 ھ وللہ الحمد اولہ واخرہ
Top