Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو اور اس کا عہد جو اس نے تم سے مضبوط باندھا، جب تم نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ۔۔ : اس آیت میں نعمت سے مراد اسلام ہے، میثاق اور اقرار سے مراد وہ عہد ہے جو رسول اللہ ﷺ ہر آدمی سے مسلمان ہونے پر لیا کرتے تھے، چونکہ وہ اللہ کے حکم سے تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا (منکرین حدیث کو غور کرنا چاہیے)۔ اس سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی اولاد سے لیا تھا، جو ان کی فطرت میں داخل ہے اور یہ بھی کہ یہود کو متنبہ فرمایا ہو کہ آخری نبی کی پیروی کا جو عہد تم سے لیا گیا ہے اسے پورا کرو، مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی)
Top