Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر اور عہد اس کا جو تم سے ٹھرایا تھا جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور مانا8 اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات9
8 غالباً یہ عہد وہ ہی ہے جو سورة بقرہ کے آخر میں مومنین کی زبان سے نقل فرمایا تھا۔ (وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ) 2 ۔ البقرۃ :285) جب صحابہ ؓ آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرتے تھے اس وقت بھی یہ اقرار کرتے تھے کہ ہم اپنی استطاعت کے موافق آپ کی ہر بات کو سنیں گے اور مانیں گے خواہ ہمارے منشاء اور طبیعت کے موافق ہو یا خلاف۔ یہ تو عام عہد تھا۔ اس کے بعد بعض ارکان اسلام یا مناسب حال اہم چیزوں کے متعلق خصوصیت سے بھی عہد لیا جاتا تھا گویا اس سورت کے شروع میں جو " اَوْفُوْا بِا لْعُقُوْدِ " فرمایا تھا، درمیان میں بہت سے احسانات کا ذکر کر کے جن کو سن کر ایفائے عہد کی مزید ترغیب ہوتی ہے پھر وہ ہی اصلی سبق یاد دلایا گیا۔ 9 ایک شریف اور حیا دار آدمی کی گردن اپنے محسن اعظم کے سامنے جھک جانی چاہئے۔ مروت و شرافت اور آئندہ مزید احسانات کی توقع اسی کو مقتضی ہے کہ بندہ اس منعم حقیقی کا بالکل تابع فرمان بن جائے، خصوصاً جب کہ زبان سے اطاعت و وفاداری کا پختہ عہد و اقرار بھی کرچکا ہے ممکن ہے حق تعالیٰ کی بےانتہا مہربانیاں دیکھ کر بندہ مغرور ہوجائے اس کی نعمتوں کی قدر اور اپنے قول وقرار کی کوئی پروا نہ کرے اس لئے فرمایا " وَاتَّقُوْ اللّٰہَ " یعنی خدا سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔ وہ ایک لمحہ میں تم سے سب نعمتیں چھین سکتا ہے اور ناشکری اور بد عہدی کی سزا میں بہت سخت پکڑ سکتا ہے۔ بہرحال مروت، شرافت، امید اور خوف ہر چیز کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی مخلصانہ اطاعت اور وفاداری میں پوری مستعدی دکھلائیں۔ آگے وہ " عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ " ہے ہم جو کچھ کریں گے وہ ہمارے اخلاص یا نفاق، ریاکاری یا قلبی نیاز مندی کو خوب جانتا ہے۔ فقط زبان سے " سمعنا واطعنا " کہنے یا شکر گزاری کی رسمی اور ظاہری نمایش سے ہم اس کو دھوکا نہیں دے سکتے۔
Top