Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا
: اور یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر (اپنے اوپر)
وَمِيْثَاقَهُ
: اور اس کا عہد
الَّذِيْ
: جو
وَاثَقَكُمْ
: تم نے باندھا
بِهٖٓ
: اس سے
اِذْ قُلْتُمْ
: جب تم نے کہا
سَمِعْنَا
: ہم نے سنا
وَاَطَعْنَا
: اور ہم نے مانا
وَاتَّقُوا اللّٰهَ
: اور اللہ سے ڈرو
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بِذَاتِ
: بات
الصُّدُوْرِ
: دلوں کی
اور خدا نے جو تم پر احسان کئے ہیں انکو یاد کرو اور اس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا (یعنی) جب تم نے کہا تھا کہ تم نے (خدا کا حکم) سُن لیا اور قبول کیا۔ اور خدا سے ڈرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے۔
(آیت 6 کی بقیہ تفسیر) جو لوگ سارے سر کے مسح کے قائل ہیں وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے سر کے اگلے اور پچھلے دونوں حصوں کا مسح کیا تھا۔ اگر سر کے ایک حصے کا مسح فرض ہوتا تو آپ سارے سر کا مسح نہ فرماتے اور سارے سر کا مسح کرنے والا لازمی طور پر حد سے تجاوز کرنے والا کہلاتا کیونکہ حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے وضو کے اعضاء تین تین دفعہ دھوئے اور فرمایا (من زاد فقد اھتدیٰ و ظلم جو شخص اس سے زائد دفعہ دھوئے گا وہ حد سے تجاوز کرے گا اور ظالم قرار پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ سر کے بعض حصے کا مسخ تو فرض ہو اور سارے سر کا مسح مسنون ہو۔ جس طرح اعضاء وضو کو ایک دفعہ دھونا فرض ہے اور تین تین دفعہ دھونا مسنون ہے۔ اس لئے فرض کی مقدار سے زائد مرتبہ اعضاء دھونے والا حد سے تجاوز کرنے والا نہیں کہلائے گا بشرطیکہ وہ اس کے ذریعے سنت کو اپنا لے۔ جس طرح موزوں کے بالائی حصوں کے بعض جزو کا مسح تو فرض ہے لیکن اگر کوئی شخص ان کے ظاہر اور باطن یعنی بالائی اور زیریں دونوں حصوں کا مسح کرلے تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا قرار نہیں پائے گا۔ یا جس طرح نماز میں ہمارے نزدیک ایک آیت کی قرأت فرض ہے اور ہمارے مخالفین کے نزدیک سورة فاتحہ فرض ہے لیکن سب کے نزدیک سورة فاتحہ کے ساتھ کچھ اور قرأت مسنون ہے یا جس طرح غسل وجہ میں ظاہری چہرے کا دھونا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا مسنون ہے ۔ سر کچا مسح فرض ہے لیکن اس کے ساتھ کانوں کا مسح مسنون ہے یا جس طرح ہمارے مخالفین کا قول ہے کہ سر کے اکثر حصے کا مسح فرض ہے اور تھوڑا سا حصہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص سارے سر کا مسح کرلے تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا نہیں کہلائے گا، بلکہ درست کام کرنے والا قرار پائے گا۔ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا مسح مسنون ہے۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ ین انگلیوں کی مقدار مسح فرض ہے۔ یہ اصل یعنی مبسوط کی روایت ہے، حسن بن زیاد کی روایت ک مطابق اس کی مقدار چوتھائی سر ہے۔ تین انگلیوں کی یہ مقدار مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے گزشتہ بیان کی روشنی میں سر کے بعض حصے کے مسح کی فرضیت ثابت ہوگئی اور آیت میں اس بعض کا مقدار کا ذکر نہیں ہے تو ہمیں اس کی مقدار معلوم کرنے کے لئے حضور ﷺ کے بیان کی ضرورت پیش آ گئی۔ جب آپ سے روایت کی گئی کہ آپ نے پیشانی کا مسح کیا تھا تو آپ کا یہ عمل بیان کے طور پر وارد ہوا۔ جب حضور ﷺ کا کوئی عمل بیان کے طور پر وارد ہو تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے جس طرح رکعتوں کی تعداد اور اس کے افعال کے سلسلے میں آپ کا عمل بیان کے طور پر وارد وہا اور اسے وجوب پر محمول کیا گیا۔ چناچہ ہمارے اصحاب نے پیشانی کی مقدار تین انگلیاں مقرر کیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے پیشانی اور سر کے کنارے کے درمیان مسح کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ روایت بھی موجود ہے کہ آپ نے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا۔ آپ پہلے دونوں ہتھیلیوں کو سامنے کی طرف لے آئے اور پھر پیچھے یک طرف لے گئے۔ اس لئے یہی واجب وہنا چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات واضح ہے کہ حضور ﷺ مفروض عمل کو ترک نہیں کرتے تھے اور اس بات کی گنجائش ہے کہ آپ نے غیرمفروض عمل اس بنا پر کیا ہو کہ یہ مسنون ہے۔ جب آپ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے ایک حالت میں صرف پیشانی کے مسح پر اقتصار کیا اور دوسری حالت میں پورے سر کا احاطہ کرلیا تو ہم دونں روایتوں پر عمل کریں گے، پیشانی کی مقدار کو فرض قرار دیں گے کیونکہ آپ سے یہ مروی نہیں کہ آپ نے کبھی پیشانی سے کم مقدار کا مسح کیا تھا اور پیشانی سے زائد مقدار کو مسنون کہیں گے۔ نیز اگر پیشانی سے کم مقدار کا مسح فرض ہوتا تو آپ کسی نہ کسی حالت میں اس پر ہی اقتصار کرتے تاکہ اس کے ذریعے مفروض مقدار بیان ہوجاتی جس طرح آپ نے بعض احوال میں پیشانی کی مقدار پر اقتصار کیا تھا۔ جب آپ سے اس سے کم مقدار کا مسح مروی نہیں ہے تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ پیشانی کی جگہ کی مقدار فرض ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا عمل اگر بیان کے طور پر وارد ہوتا تو پھر پیشانی کی جگہ پر فرض مسح ضروری ہوتا۔ سر کے کسی اور حصے میں اس کی ادائیگی نہ ہوتی۔ جس طرح آپ نے پیشانی کی جگہ کو مقدار کے لئے بیان قرار دیا کہ اس سے کم کی مقدار جائز نہیں۔ لیکن دوسری طرف جب سر کے بعض حصے کے مسح کی فرضیت کے قائلین اس بات پر متفق ہوگئے کہ پیشانی کے مسح کو ترک کر کے سر کے کسی اور حصے کا مسح کیا جاسکتا ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حضور ﷺ کا یہ عمل پیشانی کی مقدار مسح کا موجب نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کا ظہر عمل اسی بات کا متقاضی ہوتا اگر یہ دلالت قائم نہ ہوجاتی کہ پیشانی کو چھوڑ کر سر کے کسی حصے کا مسح پیشانی کے مسح کے قائم مقام ہے اس لئے پیشانی کے مسح کے اندر فرض کی تعیین واجب نہیں ہوئی اور مسح کی مقدار کے بارے میں آپ کے عمل کا حکم اسی طرح باقی رہا جس طرح عمل کے ذریعے آپ کا ظاہر بیان متقاضی تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب قول باری (وامسحوا برئوسکم) سر کے بعض حصے کے مسح کا مقتضی تھا تو ظاہر آیت کے رو سے سر کے جس حصے کا بھی مسح ہوجاتا وہ کافی ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب سر کا بعض محصہ مجہول تھا تو یہ مجمل کے حکم میں ہوگیا اور معترض کی بیان کردہ توجیہ سے یہ اجمال کے حکم سے خارج نہیں ہوسکا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (خدمن اموالھم صدقۃ) اور (وآلوالزکوۃ) نیز (یکترون المذہب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) میں سب فقرے مجمل ہیں اس لئے کہ جب ان کا ورود ہوا تھا اس وقت ان کی مقداریں مجہول تھیں۔ اب کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان مقادیر پر واقع ہونے والے اس کا اپنی طرف سے اعتبار کرلے، ٹھیک اسی طرح قول باری (برئوسکم) اگرچہ سر کے بعض حصے کے مسح کا متقاضی ہے لیکن یہ بعض حصہ چونکہ ہمارے لئے مجہول تھا اس لئے اسے مجمل قرار دینا اور اس کے حکم کو شریعت کی طرف سے وارد ہونے والے بیان پر موقوف رکھنا واجب ہوگیا۔ اس بنا پر حضور ﷺ کی طرف اس سلسلے میں جو عمل وارد ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد کا بیان بن گیا۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ تمام اعضائے وضو میں جب مفروض حصوں کی مقداروں کا تعین کردیا گیا تو اس سے لازم ہوگیا سر کے مسح کی مقدار کا بھی تعین ہوجائے کیونکہ سر بھی اعضائے وضو میں داخل ہے۔ اس دلیل کے ذریعے امام مالک اور امام شافعی کے خلاف حجت قائم کی جاسکتی ہے اس لئے کہ امام مالک سر کے اکثر حصے کا مسح واجب قرار دیتے ہیں اور قلیل حصے کے ترک کو جائز سمجھتے ہیں جس یک بنا پر مفروض حصے کا مقدار کے لحاظ سے مجہول ہونا لازم آتا ہے جبکہ امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ ہر وہ مقدار جائز ہے جس پر مسح کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ اس قول سے بھی مقدار کا مجہول ہونا لازم آتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے اصحاب نے تین انگلیوں کی جو مقدار مقرر کی ہے وہ مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے اسی طح ایک اور روایت کے مطابق چوتھائی سر کی مقدار کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ہمارا یہ موقف اعضائے وضو کے حکم کے عین مطابق ہے جس کی رو سے ان اعضاء میں مفروض مقدار مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے جبکہ ہمارے مخالفین کا قول اعضائے وضو کے مفروض حکم کے خلاف ہے۔ اس کی بھی گنجائش ہے زیر بحث مسئلہ میں ہماری ذکر کردہ بات کو دلیل کی ابتدا تسلیم کرلی جائے اور اس میں پیشانی کی مقدار کا اعتبار نہ کیا جائے اور ہم یوں کہیں کہ جب دو سے تمام اضعائے وضو کا اعتبار کرتے ہوئے مسح کی مفروض مقدار کا تعین بھی ضروری ہوگیا، لیکن ہمارے سوا کسی نے اس کا تعین نہیں کیا اور ہم نے اس کی مقدار تین انگلیاں یا چوتھائی سر مقرر کی تو اسی مقدار کا مفروض ہونا ضروری قرار پایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو اس بات سے کیوں انکار ہے کہ اس کی مقدار تین بال ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات محال ہے اس لئے کہ تین بالوں کا مسح ممکن ہی نہیں ہے بجز اس کے کہ دوسرے بال بھی اس کی زد میں آ جائیں، اور یہ بات تو درست ہی نہیں کہ مفروض مقدار ایسی ہو جس پر اقتصار ممکن ہی نہ ہو۔ نیز تین انگلیوں کی مقدار کو موزوں کے مسح پر قیاس کیا گیا ہے۔ موزوں پر مسح کی مقدار کا تعین انگلیوں کے ذریعے ہوا ہے اور سنت کا ورود بھی اسی کے ساتھ ہوا ہے اور یہ مسح بھی پانی کے ذریعے ہوا ہے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا سر کے مسح کی بھی یہی کیفیت ہو۔ چوتھائی سر کے مسح کی روایت کی توجیہ یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مفروض مسح سر کے بعض حصے کا ہوتا ہے اور ایک بال کا مسح اس کے لئے کافی نہیں ہوتا تو اس صورت میں اس مقدار کا اعتبار کرنا واجب ہوگیا جسے اسم کا اطلاق شامل ہوتا ہے جب اسے شخص کی نسبت سے دیکھا جائے، یہ مقدار ربع عنی چوتھائی ہے اس لئے کہ آپ کہتے ہیں ” رایت فلانا ‘ ( میں نے فلاں شخص کو دیکھا) وہ حصہ جو آپ سے متصل ہوتا ہے اور آپ کی روایت کے ذیل میں آتا ہے چوتھائی ہوتا ہے۔ اور اس پر فلاں کے اسم کا اطلاق کیا جاتا ہے اسی لئے فقہاء نے چوتھائی کا اعتبار کیا۔ سر مونڈنے کے مسئلے میں بھی فقاء نے چوتھائی سر کا اعتبار کیا ہے۔ اگر احرام والا شخص چوتھائی سر مونڈ لے تو اس کا احرام کھل جاتا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک چوتھائی سے کم مونڈنے پر احرام نہیں کھلتا۔ اسی بنا پر اگر کسی شخص نے حالت احرام میں یہ حرکت کی تو ہمارے اصحاب اس پر دم یعنی جرمانہ کے طور پر قربانی دینا لازم قرار دیتے ہیں۔ ایک انگلی سے سر کے مسح کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد کچا قولے کہ تین انگلیوں سے کم کے ساتھ مسح درست نہیں ہوتا۔ خواہ وہ ایک انگلی کے ساتھ مسح کرے یا دو انگلیوں کے ساتھ اور انہیں سر پر اس طرح کھینچے کہ وہ چوتھائی سر پر پھرجائیں۔ یہ مسح جائز نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری، زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسا مسح جائز ہے تاہم زفر کے نزدیک چوتھائی سر کچا اعتبار ہے کہ اس سے کم کا مسح درست نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ مسح کی فرضیت کی ادائیگی میں پانی کو ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس میں مسح والے حصے کو پانی کے ساتھ مسح کرنا مقصود ہوتا ہے اس پر پانی گزارنا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لئے جب مسح کرنے والا اپنی ایک انگلی یا دو انگلیاں مسح کے مقام پر رکھتا ہے تو اس کی انگلیوں میں لگے ہوئے پانی سے اس مقام پر لگانا درست نہیں رہتا اس لئے پانی تو پہلے ہی مقام کے اندر استعمال میں لایا جا چکا تھا۔ دھوئے جانے والے اعضاء میں ایسی بات نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ان اعضاء کو اگر وہ پانی کے ساتھ مس کر دے گا اور اس پر پانی نہیں گزارے گا تو اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا۔ اس پر دھونے کا مفہوم اسی وقت وجود میں آئے گا جب اس عضو پر پانی گزرے اور اس کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوجائے۔ اسی لئے عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف انتقال کی صورت میں وہ پانی مستعمل نہیں کہلاتا۔ مسح کی صورت میں اگر موضع مسح کو پانی کے ساتھ مس کرنے پر اقتصار کرلیا جاتا اور اسے گزارا نہ جاتا تو یہ عمل جائز ہوجاتا۔ جب ادائے فرض کی صحت کے سلسلے میں مسح کے عضو پر پانی گزارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے اس پانی کو عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ایک شخص اگر اپنے سر پر اس طرح پانی بہائے کہ وہ پانی تین انگلیوں کی مقدار سر کے حصے سے گزر جائے تو اس کا یہ عمل مسح کے لئے کافی ہوجائے گا حالانکہ اس صورت میں پانی مسح کے عضو کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوا۔ جب آپ کے نزدیک یہ صورت درست ہے تو آپ اس صورت کو کیوں درست قرار نہیں دیتے جس میں مسح کرنے والا اپنی ایک انگلی کو چوتھائی سر پر گزار کر مسح کرلیتا ہے۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہ صورت اس لئے جائز نہیں کہ پانی انڈیلنے اور بہانے کو دھونا کہتے ہیں اسے مسح نہیں کہتے۔ دھونے کے اندر پانی کا ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہونا درست ہوتا ہے یکن اگر کوئی شخص ایک حصے پر اپنی انگلی رکھ دیتا ہے تو یہ مسح کہلائے گا اب اس کے لئے اسی انگلی سے دوسرے حصے کے مسح کا جواز باقی نہیں رہے گا۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پانی انڈیلنے اور پانی سے دھونے کی صورت میں بہنے والا پانی عضو کے اس پورے حصے میں پھیل جاتا ہے جس کا دھونا فرض ہوتا ہے مسح کی صورت میں ایک انگلی پر لگے ہوئے پانی میں مسح والے عضو کے پورے حصے میں پھیلنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں صرف ایک انگلی کی مقدار کا پانی لگا ہوتا ہے۔ جب مسح کرنے والا اس انگلی کو ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل کرے گا تو وہ مستعمل پانی کو دوسر یجگہ استعمال کرنے والا قرار پائے گا اس بنا پر اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ پائوں دھونے کا بیان قول باری ہے (وامسحوا بروئسکم وارجلکم الی الکعبین۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پیر دھو لو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ ، حسن، عکرمہ حمزہ اور ابن کثیر نے قول باری (وارجلکم) کو مجرور پڑھا ہے اور اسے پیروں کے مسح پر محمول کیا ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ ، ابراہیم، ضحاک، نافع، ابن عامر، کسائی اور عاصم نے بروایت حفص اسے منصوب پڑھا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک پیروں کو دھونا فرض ہے۔ حسن بصری سے مسح کی روایت میں مستند بات یہ ہے کہ مسح کے ساتھ پورے پیروں کا احاطہ کرلیا جائے۔ سلف میں جو حضرات پیروں پر مسح کے قائل ہیں ان میں سے مجھے ایک بھی ایسا یاد نہیں جس نے حسن بصری کی طرح پورے پیروں یا اس کے بعض حصوں کے مسح کی شرط لگائی ہو۔ البتہ کچھ لوگوں کا یہ قول ضرور ہے کہ پیروں کے بعض حصوں کا مسح بھی جائز ہے۔ فقائے امصار کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں پیروں کا دھونا مراد ہے۔ مجرور اور منصوب کی یہ دونوں قرائین قرآن میں نازل ہوئیں اور امت نے حضور ﷺ سے انہیں حاصل کر کے آنے والے لوگوں کی طرف منتقل کردیا۔ اہل لغت کا بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دونوں قرأتوں میں سے ہر ایک کے اندر مسح کا احتمال بھی ہے جبکہ اسے (بروسکم) پر عطف کردیا جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس اعضاء پر جن کے دھونے کا حکم آیا ہے اسے عطف کر کے اس پر بھی دھونے کا حکم عائد کردیا جائے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (وارجلکم) کو اگر منصوب پڑھا جائے تو اس صورت میں یہ مراد لینا جائز ہے کہ ” اپنے پیر دھو لو “ اور یہ بھی جائز ہے کہ اسے (بروسکم) پر عطف کر کے اس سے مسح مراد لیا جائے اگرچہ یہ خود منصوب پڑھا جائے اس صورت میں لفظ پر اس کا عطف نہیں ہوگا معنی پر ہوگا اس لئے کہ جس چیز کا مسح کیا جائے گا وہ مفعول بہ قرار پائے گا۔ جس طرح شاعر کا قول ہے : معایو اتنا بشر فاسجح فلسنا بالجبال ولا الحدیدا اے معاویہ ! ہم بھی انسان ہیں اس لئے ہمارے ساتھ گفتگو کا لہجہ ذرا نرم رکھو، ہم کوئی پہاڑ یا لوہا نہیں ہیں کہ تمہاری گرمی سردی برداشت کرتے رہیں۔ شعر میں حدید کا لفظ منصوب ہے اور معنی کے لحاظ سے لفظ الجبال پر معطوف ہے۔ قول باری (و ارجلکم) کی مجرور قرأت کی صورت میں یہ احتمال ہے کہ اس کا ما قبل (بروسکم) پر عطف ہو اوار اس سے مسح مراد لیا جائے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ غسل یعنی دھونے کے مفہوم پر عطف ہو۔ اس صورت میں یہ مجاورت یعنی پڑوس کی بنا پر مجرور کردیا جبکہ معنی کے لحاظ سے اس کا لفظ الولدان پر عطف ہے۔ اس لئے کہ حوریں چکر لگانے والی ہوں گی، ان کے گرد چکر نہیں لگایا جائے گا۔ یا جس طرح شاعر کا یہ شعر ہے : فھل انت ان ماتت اتانک راکب الی بسطام بن قیس فخاطب اگر تمہاری بیوی مرجائے تو کیا تم اپنی گدھی پر سوار ہو کر بسطام بن قیس کے خاندان میں پہنچ جائو گے اور پیغام نکاح دوگے ؟ یہاں شاعر نے لفظ خاطب کو مجاورت کی بنا پر مجرور کردیا جبکہ یہ راکب جو مرفوع ہے، اس پر معطوف ہے اور پوری نظم کا قافیہ مجرور ہے۔ اس کے اگلے شعر کو دیکھئے : فتل مثلھا فی مثلھم او فلمھم علی دارمی بین لیلی و غالب اور پھر ان جیسے لوگوں میں اس جیسی خاتون سے نکاح کرے یا میہ (عورت کا نام) کے گھر میں بیٹھ کر جو لیلیٰ اور غالب کے گھروں کے درمیان ہے، انہیں برا بھلا کہہ۔ ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ دونوں قرأتوں میں سے ہر ایک کے اندر مسح کرنے اور دھونے کا احتمال موجود ہے۔ اس لئے یہاں تین صورتوں میں سے ایک صورت ضرور تسلیم کرنی ہوگی۔ یا تو آیت زیربحث میں مسح اور غسل دونوں مراد ہیں اس صورت میں وضو کرنے والے پر مسح کرنا اور دھونا دونوں باتیں لازم آئیں گی یا پھر ان دونوں میں سے ایک مرد ہو اور وضو کرنے والے کو ان میں سے سکی پر عمل کرنے کا اختیار دے دیا جائے چاہے تو مسح کرلے اور چاہے تو پائوں دھو لے، وہ جو بھی کرے گا اس سے وضو کے اندر مفروض حکم پر عمل ہوجائے گا یا یہ کہ ان دونوں میں ایک بعینہ مراد ہو، اختیار نہ ہو۔ اب پہلی صورت تو درست نہیں ہوسکتی اس لئے کہ سب کا اس کے خلاف اتفاق ہے دوسری صورت بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں تخییر کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی دلالت موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر تخییر کا اثبات جائز ہوتا تو اس میں لفظ جمع مذکور نہ ہونے کے باوجود جمع کا اثبات بھی جائز ہوجاتا۔ اس وضاحت سے تخییر کا بطلان ثابت ہوگیا۔ جب مذکورہ بالا دونوں ورتیں منتفی ہوگئیں تو اب تیسری صورت ہی باقی رہ گئی یعنی مسح اور غسل میں سے ایک بعینہ مراد ہے۔ ان میں تخییر نہیں ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کونسا مراد ہے تو اسے معلوم کرنے کے لئے ہمیں دلیل تلاش کرنے کی ضرورت پڑگئی۔ ان میں سے غسل لینا مراد ہے مسح مراد نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وضو کرنے والا جب پائوں دھو لے گا تو فرضیت بجا لائے گا اور معنی مراد پر عمل کرلے گا، نیز یہ کہ ترک مسح پر وہ ملامت کا نشانہ نہیں بنے گا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں غسل یعنی دھونا مراد ہے۔ ایک اور جہت سے اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ لفظ ترکیب کلام میں اس طرح واقع ہے کہ اس میں دونوں معنوں میں سے ہر ایک کا احتمال ہے اور ساتھ ساتھ اس پر بھی اتفاق ہے کہ دونوں معنی مراد نہیں ہوسکتے، صرف ایک معنی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال کے تحت یہ لفظ مجمل کے حکم میں ہوجائے گا جسے بیان اور تفصیل کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لئے جب کبھی حضور ﷺ کی طرف سے قول یا فعل کی شکل میں اس کا بیان وارد ہوجائے گا تو ہمیں اس سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے نزدیک بھی یہی معنی اور صورت مراد ہے۔ حضور ﷺ سے قولاً و فعلاً غسل یعنی پیر دھونے کا بیان وارد ہوچکا ہے، آپ سے فعلاً اس کا دورود ان روایات کے ذریعے ہوا ہے جن کا درجہ مستفیض اور متواتر روایت کے برابر ہے وہ یہ کہ حضور ﷺ نے وضو میں اپنے پیر دھوئے ہیں۔ اور امت کے اندر بھی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس طرح آپ کا یہ عمل بیان کے طور پر وارد ہوا ہے اور آپ کا کوئی عمل جب بیان کے طور پر وارد ہو تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت زیربحث میں پیر دھونا ہی اللہ کی مراد ہے۔ قولی طور پر اس کا وود اس حدیث کے ذریعے ہوا ہے جس کے راوی حضرت جابر ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وغیرہم ہیں کہ حضور ﷺ نے چند لوگوں کو دیکھ کر آپ نے فرمایا (ویل للاعقاب من النساء، ان ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی وجہ سے بربادی ہے) نیز فرمایا (اسبغوا الوضوء، پوری طرح وضو کرو) اسی طرح روایت ہے کہ حضور ﷺ نے وضو فرمایا تو اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور پائوں دھونے کے بعد فرمایا (ہذا وضوء من لا یقبل الہ لہ صلوۃ الابہ۔ یہ شخص کا وضو ہے جس کی نماز اللہ تعالیٰ اس کے بغیر قبول نہیں کرے گا) پہلی حدیث میں آپ ﷺ کا قول (ویل للاعقاب من النساء) ایسی وعید ہے جس کا مستحق صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس نے فرض ترک کردیا ہو۔ یہ بات پورے پیر کو دھونے کی موجب ہے اور اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوجاتا ہے جو پیر کے ایک حصے کی طہارت ک جوار کے قاتل ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد (اسبغوا الوضوء) اور پیر دھو لینے کے بعد آپ کچا قول (ھذا وضوء من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الایۃ) دونوں پیروں کو پورے طور پر دھونے کے موجب ہیں اس لئے کہ وضو غسل یعنی دھونے کے لئے اسم ہے جو وضو والے عضو سے پانی گزارنے کا مقتضی ہے۔ لیکن مسح اس کا مقتضی نہیں ہوتا۔ دوسری روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی نماز کو قبول نہیں کرتا جو وضو میں پیر دھوئے بغیر پڑھی گئی ہو۔ اگر اس صورت میں مسح کا جواز بھی ہوتا تو حضور ﷺ اسے بیان کئے بغیر نہ رہتے کیونکہ مسح بھی اللہ کے نزدیک اسی طرح مراد ہوتا ہے جس طرح غسل مراد ہے۔ اس لئے حضور ﷺ کا مسح کرنا آپ کے پیر دھونے کے ہم پلہ ہوتا ہے لیکن جب آپ سے مسح کا عمل پیر دھونے کے عمل کی طرح منقول نہیں ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے ہاں مسح مراد نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے، دونوں قراتین دو آیتوں کی طرح ہیں کہ ایک میں مسح کا حکم ہے اور دوسری میں دھونے کا حکم۔ اس لئے کہ دونوں قراتیں ان دونوں باتوں کی متحمل ہیں۔ اس لئے اگر دو آیتیں اس طرح وارد ہوتیں کہ ایک مسح کو واجب کرتی اور دوسری غسل کو تو بھی غسل کو چھوڑ کر مسح کو اختیار کرنا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ غسل کی صورت میں زیادہ کام سرانجام دیا جاتا جس کی غسل والی آیت مقتضی ہے۔ اس صورت حال کے تحت ان دو باتوں میں سے ایک بات پر عمل واجب ہوتا جس کا فائدہ زیادہ ہوتا اور جس کا حکم زیاہ عام ہوتا اور ظاہر ہے کہ یہب ات غسل یعنی پیر دھونے کی صورت میں پائی جاتی ہے اس لئے کہ پیر دھونا مسح کو بھی شامل ہے لیکن مسح میں دھونا نہیں پایاجاتا۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (وارجلکم الی الکعبین) کے ذریعے پیروں کی تحدید کردی جس طرح (وایدیکم الی الموافق) کے ذریعے بازوئوں کی تحدید کردی تو اس سے پیروں اور بازوئوں دونوں کے استیعاب یعنی حکم کے اندر پوری طرح سمیٹ لینے پر اسی طرح دلالت حاصل ہوئی جس طرح کہنیوں تک بازوئوں کے ذکر سے دونوں بازوئوں کو دھونے کے حکم میں احاطہ کرنے پر دلالت حاصل ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ دونوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے وضو فرمایا اور اپنے قدموں اور جوتوں پر مسح کیا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو وجوہ کی بناء پر اس بارے میں اخبار آحاد کو قبول کرنا جائز نہیں ہے : ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے آیت کے موجب یعنی غسل کے حکم میں اعتراض کی صورت پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ ہم پہلے دلائل کے ساتھ وضاحت کر آئے ہیں کہ آیت میں اللہ کی مراد غسل یعنی پیروں کا دھونا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس جیسے مسئلے میں اخبار آحاد قابل قبول نہیں ہیں اس لئے کہ لوگوں کو کثرت سے اس مسئلے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جس یک بنا پر اس بارے میں کثرت سے روایت ہونی چاہیے۔ حضرت علی سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے قول باری (وارجلکم) کی نصب کیس اتھ قرات کی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ اس سے پیروں کا دھونا مراد ہے۔ اگر آپ کو حضور ﷺ سے مسح کے جواز اور مسح پر اقتصاد کی بات پہنچی ہوتی تو آپ ہرگز یہ نہ کہتے کہ اللہ کی مراد پیروں کا دھونا ہے۔ نیز حضرت علی ؓ کی جس روایت میں مسح کا ذکر ہے اس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وستم سے یہ فقرہ نقل کیا تھا کہ (ہذا وضوء من لم یحدث یہ اس شخص کا وضو ہ جس حدث لاحق نہ ہوا ہو) یہ شعبہ کی روایت ہے جو انہوں نے عبدالملک بن میسرہ سے کی ہے۔ انہوں نے نزال بن سبرہ سے کہ حضرت علی ؓ نے اپنی بیٹھک یا گھر کے صحن کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر جب عصر کا وقت آٰ گیا تو آپ نے پانی کا کوزہ منگوا کر دونوں ہاتھ، چہرہ اور بازو دھوئے اور پھر سر اور پیروں پر مسح کیا اور فرمایا : ” میں نے حضور ﷺ کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضور ﷺ نے اس وقت یہ فرمایا تھا (ھذا وضوء من لم یعد ثم جس شخص کو حدث لاحق نہ ہو وہ اگر پیروں پر مسح کرے تو اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ہے نیز آیت زیربحث میں جب غسل اور مسح دونوں کا احتمال ہے تو ہم نے و حالتوں کے اندر اس پر بطور وجوب عمل کیا۔ جب پیروں میں موزے ہوں تو اس حالت میں مسح پر عمل کیا اور جب پیر موزوں کے بغیر ہوں تو اس حالت میں غسل یعنی دھونے پر عمل کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیمم کی صورت میں سر کے مسح کی فرضیت کی طرح پیروں کی فرضیت بھی ساقط ہوجاتی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سر کی طرح پیر بھی مسح کے تحت آتے ہیں، دھونے کے حکم کے تحت نہیں آتے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ آیت میں دھونا مراد ہی نہ ہو۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وضو کرنے والے نے اگر پیر دھو لئے تو اس نے فرض پر عمل کرلیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور ﷺ سے پیروں کو دھونے کی روایات کے اندر امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جائے وہ یہ کہ جنابت کی حالت میں پانی نہ ملنے پر تیمم کرنے کی صور ت میں پورے جسم کو دھونے کا حکم ساقط ہوجاتا ہے اور صرف دو عضو پر تیمم کا عمل جسم کے تمام اعضاء کو دھونے کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ تیمم کا عمل دونوں پیروں کو دھونے کے قائم مقام بن جائے اگرچہ ان پر تیمم واجب نہیں ہوتا۔ فصل کعبین یعنی ٹخنوں پر تحقیق کعبین یعنی ٹخنوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے جمہور اصحاب اور اہل علم کا قول ہے کہ قدم اور پنڈلی کے جوڑ رپ دونوں ابھری ہوئی ہڈیوں کو ٹخنے کہا جاتا ہے۔ ہشام امام محمد سے نقل کیا ہے کہ ٹخنہ پائوں کے اس جوڑ کو کہتے ہیں جو قدم کی پشت کی طرف تسمہ باندھنے کی جگہ ہوتا ہے۔ لیکن پہلی بات درست ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وارجلکم الی الکعبین) یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہر ٹانگ میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ اگر ہر ٹانگ میں ایک ٹخنہ ہوتا تو قول باری میں کعبین یعنی تثفیہ کی بجائے کعاب یعنی جمع کا لفظ استعمال ہوتا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ان تتو با الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ اے دونوں (بیویو) اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو تمہارے دل (اسی طرف) مائل ہو رہے ہیں) چونکہ ہر ایک کے اندر ایک دل تھا اس لئے جمع کے لفظ کے ساتھ دلوں کی اضافت ان دونوں کی طرف کردی۔ جب اللہ تعالیٰ نے تثنیہ کے لفظ کے ساتھ دونوں ٹخنوں کی اضافت ٹانگوں کی طرف کی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ہر ٹانگ میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں ایک ثقہ راوی نے سنائی، انہیں عبداللہ بن محمد شیرویہ نے، انہیں اسحاق بن راہویہ نے، انہیں الفضل بن موسیٰ نے یزید بن زیاد با ابی الجعد سے، انہوں نے جامع بن شداد سے اور انوں نے طارق بن عبداللہ المحاربی سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو ذی المجاز کے بازار میں دیکھا تھا۔ اس وقت آپ نے سرخ جبہ پہن رکھا تھا اور یہ فرما رہے تھے (ایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا۔ اے لوگو ! اللہ کی وحدانیت اور اس کی معبودیت کا اقرار کرلو فلاح پا جائو گے) میں نے ایک شخص کو آپ کے پیچھے چلتا وہا دیکھا جو آپ کو پتھروں سے مار را تھا جس کی وجہ سے آپ ک دونوں ٹخنے اور ایڑی کے اوپر کے دونوں پٹھے خون آلود ہوگئے تھے، وہ شخص ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا کہ ” لوگو ! اس کی بات نہ مانو، یہ (نعوذ باللہ) جھوٹا ہے “۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا یہ شخص جو ان کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے اور پتھر مار رہا ہے، کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبدالعزیٰ ابولہب ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ٹخنہ اس ہڈی کا نام ہے جو قدم کی جانب میں ابھری ہوئی ہوتی ہے اس لئے کہ اگر چلنے والے کے پیچھے پتھر مارے جائیں تو وہ قدم کی پشت پر نہیں لگیں گے۔ جماعت میں ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملانا ثقہ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن محمد بن شیرویہ نے روایت بیان کی، انہیں اسحاق نے، انہیں وکیع نے، انہیں زکریا بن ابی زائدہ نے قاسم الجدلی سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا (لستو ون صفوفکم اولیخالفن اللہ بین قلوبکم او وجوھکم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرلو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں (یا یہ فرمایا تمہارے چہروں میں) عدم توازن پیدا کر دے گا) حضرت نعمان ؓ مزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہر شخص اپنے ساتھ کھڑے ہوئے دوسرے شخص کے ٹخنے سے ٹخنا اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ٹخنے کے وہی معنی ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم ! موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں اختلاف کا ذکر ہمارے اصحاب، سفیان ثوری حسن بن صالح، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مقیم ایک دن ایک رات اور مسافر تین دن تین رات موزوں پر مسح کرے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد سے مروی ہے کہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نیں ہے۔ ایک شخص جب وضو کی حالت میں موزے پہن لے تو جب تک اس کی مرضی ہو مسح کرتا رہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس معاملے میں مقیم اور مسافر دونوں یکساں ہیں۔ اصحاب مالک کا قول ہے کہ ان کا صحیح مسلک یہی ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے بھی روایت کی ہے کہ مسافر مسح کرے گا اور مقیم مسح نہیں کرے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ بھی روایت کی ہے کہ انہوں نے موزوں پر مسح کی تضعیف کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے موزوں پر مسح کی بات ایسی روایات سے ثابت ہوچکی ہے جو تواتر اور استفاضہ کی حد تک پہنچ چکی ہیں اور ان کی حیثیت یہ ہے کہ یہ علم کی موجب ہیں۔ اسی بناء پر امام ابو یوسف کا قول ہے کہ سنت کے ذریے قرآن کا حکم صرف اسی صورت میں منسوخ ہوسکتا ہے اگر اس سنت کا ورود اسی طرح ہوا ہو جس طرح موزوں پر مسح کی سنت استفاضہ کی شکل میں وارد ہوئی ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے کسی صحابی نے موزوں پر مسح کی بات رد نہیں کی اور نہ ہی کسی کو اس بارے میں کوئی شک تھا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح کیا تھا۔ البتہ حضور ﷺ کے مسح کے وقت کے متعلق اختلاف تھا کہ آیا یہ سورة مائدہ کے نزول سے قبل شروع ہوا یا اس کے نزول کے بعد۔ مقیم کے لئے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن ین رات کی تحدید کے ساتھ حضور ﷺ سے مسح کی روایت کرنے والوں میں حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، صفوان ؓ بن عسال، خزیمہ بن ثابت ؓ ، عوف بن مالک ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ شامل ہیں۔ وقت کی تحدید کے بغیر حضور ﷺ سے مسح کی روایت کرنے والوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ ، حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ ، حضرت ابو ایوب انصاری ؓ ، حضرت سہل بن سعد ؓ ، حضرت انس بن مالک ؓ اور حضرت ثوبان ؓ شامل ہیں، ان کے علاوہ عمرو بن امیہ نے اپنے والد سے، اور سلیمان بنبریدہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اس کی روایت کی ہے۔ اعمش نے ابراہیم سے، انہوں نے ہتمام سے، انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو وضو کرتے وقت موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اعمش کہتے ہیں کہ ابراہیم کہا کرتے تھے کہ لوگ حضرت جریر ؓ کی اس روایت کو بہت پسند کرتے تھے اس لئے کہ حضر تجریر ؓ سورة مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے تھے۔ چونکہ موزوں پر مسح کی روایتیں استفاضہ کی صورت میں وارد ہوئی ہیں اور راویوں کی تعداد ! اس قدر زیادہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کا جھوٹ پر متفق ہوجانا، یا سہو اور غفلت کا شکار ہوجانا ممتنع ہے اس لئے آیت کے حکم کے ساتھ ساتھ ان روایتوں پر عمل کرنا بھی واجب ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ آیت وضو میں پیروں کے مسح کا بھی احتمال موجود ہے اس لئے ہم نے پیروں پر مسح کے حکم پر اس حالت میں عمل کیا جب پیروں میں موزے ہوں اور پیر دھونے کے حکم پر اس حالت میں عمل کیا جب پیروں میں موزے نہ ہوں۔ اس لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضور ﷺ نے سورة مائدہ کے نزول سے پہلے یا نزول کے بعد مسح کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ نے آیت وضو کے نزول سے پہلے مسح کیا تھا تو آیت مسح کے حکم پر مرتب قرار پائے گی اور اس حکم کو منسوخ نہیں کرے گی۔ اس لئے کہ آیت میں اس معنی کا بھی احتمال ہے جو موزے پہننے کی حالت میں مسح کے حکم کی موافقت کو واجب کردیتا ہے۔ نیز یہ کہ اگر آیت میں حدیث کی موافقت کا احتمال موجود نہ بھی ہوتا تو اس حدیث کی بنا پر آیت کے حکم کا مخصوص ہوجانا بھی جائز ہوتا اور اس طرح پیروں کو دھونے کا حکم اس حالت کے ساتھ خاص ہوجاتا جب پیروں میں موزے نہ ہوتے، موزے ہونے کی صورت کے ساتھ اس حکم کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ اگر آیت مسح پر مقدم ہوتی تو مسح کا جواز صرف اس بنا پر باقی رہتا کہ یہ اس معنی کے موافق ہے جس کا آیت کے اندر احتمال موجود ہے۔ یہ بات نسخ قرار نہیں دی جاتی بلکہ آیت کی مراد کے لئے بیان ثابت ہوتی۔ اگرچہ اس جیسی روایت کے ذریعے آیت کا نسخ بھی جائز ہے کیونکہ اس کے اندر تواتر کی صفت پائی جاتی ہے اور لوگوں کے درمیان اس کی اشاعت بھی ہوچکی تھی جب موزوں پر مسح کا ثبوت ہوگیا تو مقیم اور مسافر کیلئے اس کے وقت کی اس طرح تحدید بھی ثابت ہوگئی جس طرح ہم سابقہ سطور میں بیان کر آئے ہیں اس لئے کہ ان احادیث سے بھی توقیت یعنی مدت اور وقت کی تحدید ثابت ہوگئی ہے جو مسح علی الخفین کے متعلق علی الاطلاق وارد ہوئی ہیں۔ اگر توقیت باطل ہوجائے تو مسح بھی باطل ہوجائے گا اور اگر مسح ثابت ہوجائے تو توقیت بھی ثابت ہوجائے گی۔ اگر ہمارے مسلک کے مخالفین اس سلسلے میں حضر عمر ؓ کی اس روایت سے استدلال کریں جس میں ذکر ہے کہ عقبہ بن عامر ﷺ جب حضور ﷺ کے پاس آء تو انہیں موزوں پر مسح کرتے ہوئے ایک جمعہ گزر چکا تھا، آپ نے اس موقع پر ان سے فرمایا کہ ایسا کر کے تم نے سنت کو پا لیا ہے “۔ اسی طرح وہ روایت بھی ہے جس کے راوی حماد بن زید ہیں، انہوں نے کثیر بن شنظیر سے اور انہوں نے حسن بصری سے کہ کسی نے ان سے سفر میں موزوں پر مسح کے متعلق سوال کیا تو وہ فرمانے لگے ” ہم لوگ حضور ﷺ کے صحابہ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ یہ حضرات موزوں پر مسح کی توقیت نہیں کرتے “۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سعید بن المسیب نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو، جب انہوں نے موزوں پر مسیح کے سلسلے میں حضرت سعد ؓ پر اعتراض کیا تھا، یہ فرمایا تھا، یہ فرمایا تھا۔ ’ دبیٹے ! تمہارے چچا یعنی حضرت سعد ؓ تم سے بڑھ کر دین کی سمجھ رکھتے ہیں۔ مقیم کے لئے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن تین رات تک مسح ہے۔ “ اسی طرح سوید بن غفلہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ مسافر کے لئے تین دن تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن ایک رات تک کا مسح ہے۔ حضرت عمر (رح) سے ہماری ذکر کردہ توقیت کے مطابق وقت کی تحدید ثابت ہوچکی ہے۔ اس لئے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ ” تم نے ایسا کر کے سنت کو پا لیا ہے “۔ اس میں احتمال ہے کہ آپ کی مراد اس سے یہ ہو کہ ’ دتم نے مسح کرنے میں سنت پر عمل کیا ہے “۔ حضرت عمر ؓ کا یہ کہنا کہ عقبہ ؓ نے ای جمعہ مسح کیا تھا یہ اس پر محمول ہے کہ انہوں نے جائز طریقے پر ایک جمعہ مسح کیا تھا جس پر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میں ایک ماہ تک موزوں پر مسح کرتا رہا “ تو اس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ” میں ایک ماہ تک جائز طریقے سے موزوں پر مسح کرتا رہا۔ “ اس لئے حضرت عمر (رح) کی روایت میں یہ بات واضح ہے کہ اس سے یہ مفہوم مراد نہیں ہے کہ عقبہ ؓ نے ہمیشہ جمعہ ا جمعہ موزوں پر مسح کیا تھا اور کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ اس وقت مسح کرتے تھے جب انہیں مسح کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی طرح انہوں نے اس سے وہ وقت مراد لیا ہے جس میں مسح جائز ہوتا ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں ” میں نے مکہ مکرمہ میں ایک ماہ تک جمعہ کی نمازیں پڑھی ہیں۔ “ تو اس سے آپ کی مراد یہ ہوگی کہ ان اوقات میں پڑھی ہیں جن میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہوتا۔ حسن بصری کا یہ قول کہ انہوں نے حضور ﷺ کے صحابہ کیس اتھ سفر کیا تھا اور یہ حضرات موزوں پر مسح کے لئے کسی وقت کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد… واللہ اعلم… یہ ہوسکتی ہے کہ یہ حضرات بعض دفعہ دو یا تین دنوں کے درمیان موزے اتار دیتے تھے اور مسلسل تین دنوں تک ان پر مسح نہیں کرتے تھے۔ جس طرح لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے اپنے موزے تین دنوں تک اتارے بغیر رہنے نہیں دیتے تھے اس لئے اس روایت میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ حضرات تین دن سے زائد مدت تک موزوں پر مسح کرتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ نے حضور ﷺ سے جو روایت کی ہے اس میں آپ نے فرمایا ” مسافر تین دن تین رات اور مقیم ایک دن ایک رات تک موزوں پر مسح کرے گا۔ “ راوی کہتے ہیں ” اگر ہم حضور ﷺ سے اس مدت میں اضافہ کے طلب گار ہوتے تو آپ اضافہ کردیتے۔ “ اسی طرح حضرت ابوعمارہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! میں موزوں پر مسح کرلوں ؟ “ آپ نے اثبات میں جواب دیا، پھر عرض کیا : ” ایک دن تک “ آپ نے فرمایا : ” بیشک دو دنوں تک کرتے رہو “۔ پھر عرض کیا : تین دنوں تک کرلوں ؟ “ تو آپ نے فرمایا : ہاں، بلکہ جب تک چاہو “۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے مدت بڑھاتے بڑھاتے سات دن تک انہیں مسح کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت خزیر ؓ کی روایت کے یہ الفاظ کہ اگر ہم حضور ﷺ سے اس مدت میں اضافہ کے طلب گار ہوتے تو آپ ﷺ اضافہ کردیتے “ دراصل راوی کا اپنا گمان اور خیال ہے جبکہ گمان کی بنا پر کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت ابوعمارہ ؓ کی روایت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ قوی نہیں بلکہ ضعیف روایت ہے۔ اس کی سند میں اختلاف ہے۔ اگر یہحدیث ثابت بھی ہوجائے تو حضور ﷺ کے قول بلکہ جب تک چاہو “ کا یہ مفہوم لیا جائے گا وہ تین دنوں تک جتنی دفعہ چاہیں مسح کرسکتے ہیں۔ نیز توقیت کے بارے میں دوسری قوی روایات پر اس جیسی شاذ روایات کے ذریعے اعتراض نہیں کیا جاسکتا جس میں کئی معانی کا احتمال موجود ہے اور دوسری طرف کثرت سے ایسی روایات موجود ہیں جو حضور ﷺ کی توقیت کو ثابت کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب موزوں پر مسح کچا جواز ثابت ہو یگا تو قیاس اور نظر کا تقاضا ہے کہ سر کے مسح کی طرح یہ بھی غیر موقت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس کسی مسئلے کے متعلق اثر یعنی روایت موجود ہو تو اس میں نظر اور قیاس کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہی ہوتی ہے۔ اگر توقیت پر مشتمل روایات ثابت ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے نظر ساقط ہے اور اگر یہ روایات ثابت نہیں تو پھر ان ک یاثبات پر گفتگو ہونی چاہیے۔ دوسری طرف روایات مستفیضہ کی بنا پر توقیت کا ثبوت ہوچکا ہے اور اسے رد کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ عقلی طور پر بھی سر کے مسح اور موزوں پر مسح کے درمیان فرق واضح ہے وہ یہ کہ سر کا مسح فی نفسہ فرض ہے اور کسی غیر کا بدل نہیں۔ اس کے برعکس مسح علی الخفین غسل الرجلین کا بدل ہے جبکہ اصل کی بھی گنجائش ہوتی ہے اور بدل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کا صرف اسی مقدار کا بدل ہونا جائز ہوگا جس کا تعین توقیت کی شکل میں کردیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جبیرہ پر مسح کا جواز توقیت کے بغیر ہوا ہے جبکہ یہ مسح غسل یعنی دھونے کے عمل کا بدل ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق یہ سوال ساقط ہے۔ اس لئے کہ وہ جبیرہ پر مسح کو واجب قرار نہیں دیتے بلکہ ترک مسح ان کے نزدیک مستجب ہے اور اس سے وضو میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔ امام ابو یوسف اور اماممحمد کے قول پر بھی یہ اعتراض لازم نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسح ضرورت کے تحت یکا جاتا ہے۔ جس طرح تیمم ضرورت کے وقت کیا جاتا ہے جبکہ مسح علی الحخفین بلا ضرورت بھی جائز ہے اس لئے مسح کی دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اگر موزوں پر مسح کا جواز صرف سفر کی حالت تک محدود رکھا جائے اس لئے کہ اس بارے میں منقول روایات کا تعلق سفر کی حالت سے ہے اس لئے سفر کی حالت میں اس کا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ سے جب حضر کی حالت میں موزوں پر مسح کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے کہا کہ یہ مسئلہ علی ؓ سے جا کر پوچھو کیونکہ حضور ﷺ کے ساتھ سفر میں یہ رہا کرتے تھے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے حضر کی حالت میں موزوں پر مسح نہیں کیا کیونکہ اگر آپ ایسا کرتے تو حضرت عائشہ ﷺ سے یہ بات پوشیدہ نہ رہ سکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی روایت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے مسافر کے لئے مسح کی توقیت کے متعلق پوچھا گیا ہو اور آپ نے یہ کہہ کر سائل کو حضرت علی ؓ کی طرف بھیج دیا ہو کہ ان سے جا کر پوچھ لو کیونکہ اکثر سفروں میں وہی حضور ﷺ کے ساتھ رہے تھے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ ان راویوں سے ایک ہیں جنہوں نے مسافر اور مقیم دونوں کے مسح کی توقیت کی روایت کی ہے۔ نیز وہ روایات جن میں مسافر کے لئے مسح کی توقیت کا ذکر ہے ان میں مقیم کے لئے بھی توقیت مذکور ہے۔ اس لئے اگر توقیت مسافر کے لئے ثابت ہوگی تو مقیم کے لئے بھی ثابت ہوجائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ حفہ کی حالت میں پائوں دھونا ثابت ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (ویل للاعقاب من النار خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی بنا پر بربادی ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان تمام روایات کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب پیروں میں موزے نہ ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہوسکتا ہے تخفیف کا یہ حکم سفر کی حالت کے ساتھ مخلوص ہو۔ حضر کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو جس رطح نماز میں قصر کرنے، روزہ رکھنے اور تیمم کرلینے کے احکامات تخفیف کے طور پر سفر کی حالت کے ساتھ مختص ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے مقیم یا مسافر کے لئے قیاس کے طور پر مسح کی اباحت نہیں کی ہے بلکہ آثار و روایات کی بنا پر ہم اس کی اباحت کے قائل ہوئے ہیں۔ یہ آثار و روایات سفر اور حضر دونوں میں یکساں طور پر مسح علی الخفین کی متقاضی ہیں۔ اس لئے اس بارے میں قیاس سے کام لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسح علی الخفین کے سلسلے میں ایک اور جہت سے بھی اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کوئی شخص پائوں دھو کر موزے پہن لے اور حدث لاحق ہونے سے قبل وضو کی تکمیل کرے تو اس کے لئے حدث کی صورت میں ان موزوں پر مسح جائز ہوگا۔ سفیان ثودی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے بھی یہی قول منقول ہے۔ طحاوی نے امام مالک اور امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وضو کی تکیمل کے بعد اگر موزے پہن لے گا تو ان پر مسح کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ ہمارے اصحاب کی دلیل حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مفہوم ہے کہ یمسح المقیم یوما و لیلۃ والمسافر ثلاثۃ ایام ولیا لیھا) آپ نے وضو کی تکیمل سے قبل اور تکمیل کے بعد موزے پہن لینے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ شعبی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے وضو کیا میں آپ کے موزے اتارنے کے لئے جھکا، آپ نے فرمایا (مہ، فانی ادخلت القدمین الخفین و ھما طاہرتان، رکوخ میں نے پیروں میں یہ موزے اس وقت ڈالے ہیں جب پائوں پاک تھے) اس کے بعد آپ نے موزوں پر مسح کرلیا۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ ” جب تم ایسی حالت میں موزے پہنوجب پائوں پاک ہوں تو ان پر مسح کرلو۔ “ جو شخص اپنے پائوں دھو لے گا تو دوسرے تمام اعضا کی طہارت کی تکمیل سے پہلے اس کے دونوں پائوں پاک ہوجائیں گے جس طرح کہا جاتا ہے۔ ” فلاں نے اپنے دونوں پائوں دھو لئے ‘ٔ‘ یا جس طرح کہا جاتا ہے ” فلاح شخص نے ایک رکعت پڑھ لی۔ “ ابھی اس کی نماز مکمل نہ ہوئی ہو۔ نیز جو حضرات اس صورت کو جائز قرار نہیں دیتے وہ وضو کرنے والے ک موزے اتارنے اور پھر پہننے کا حکم دیں گے۔ اگر مسح تک یہ موزے اس کے پیروں میں رہیں تو اس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ مسلسل پہنے رہنے کی وہی حیثیت ہے جو ابتدائی طور پر پہننے کی ہے۔ جرابوں پر مسح کرنے پر اختلاف ائمہ جرابوں پر مسح کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے اسے جائز قرار نہیں دیا البتہ اگر مجلد ہوں یعنی ان پر چمڑا چڑھا ہو تو پھر ان پر مسح جائز ہوگا۔ طحاوی نے امام مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ جرا اگر مجلد ہوں یعنی ان پر چمڑا چڑھا ہو تو پھر ان پر مسح جائز ہوگا۔ طحاوی نے امام مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ جراب اگر مجلد بھی ہوں ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک کے بعض اصحاب نے یہ روایت نقل کی ہے کہ اگر جراب موزوں کی طرح مجلد ہوں تو ان پر مسح کرنا درست ہوگا۔ سفیان ثوری، امام ابو یوسف، امام محمد اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر جراب موٹے ہوں تو مجلد نہ وہنے کے باوجود بھی ان پر مسح کرنا جائز ہوگا۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سابقہ بیانات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آیت وضو میں پائوں دھونا مراد ہے۔ اگر موزوں پر مسح کے سلسلے میں حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ روایات منقول نہ ہوتیں تو ہم مسح کے جواز کے قائل نہ ہوتے۔ جب اس بارے میں صحیح روایات منقول ہوئیں اور آیت کے ساتھ ساتھ ان روایات پر عم ل کرنے کی بھی ہمیں ضرورت پیش آ گئی تو ہم نے ان پر اس طریقے سے عم لکیا جو اس پہلو سے آیت کے مطابق تھا کہ آیت میں بھی مسح کا احتمال موجود ہے۔ اور باقی صورتوں کو آیت کے مقتضی اور اس کی مراد پر چھوڑ دیا چونکہ جرابوں پر مسح کے جواز کے بارے میں اس پیمانے پر روایات منقول نہیں ہوئیں جس پیمانے پر موزوں پر مسح کے سلسلے میں منقول ہوئیں تو ہم نے آیت کی مراد میں پائوں دھونے کے حکم کو باقی رکھا اور اس حکم کو وہاں سے منتقل نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری نے حضور ﷺ سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ نے اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں احتمال ہے کہ شاید جرابیں مجلد تھیں، اس بنا پر اختلافی نکتے کے بارے میں اس روایت کے اندر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں لفظ کا عموم نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمل کی حکایت ہے جس کی حالت کا ہمیں صحیح علم نہیں ہے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ آ پنے یہ وضو حدث لاحق ہونے کی بنا پر نہ کیا ہو بلکہ وضو پر وضو کیا ہو جس طرح آپ نے ایک دفعہ پیروں پر مسح کرنے کے بعد فرمایا تھا (یہ اس شخص کا وضو ہے جسے حدث لاحق نہ ہوا ہو) عقلی اور قیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو سب کا اس پر اتفاق ہے کہ پائوں کو اگر کس یچیز سے لپیٹ دیا جائے اور لفافے کی شکل بن جائے تو اس پر مسح کا جواز ممتنع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ عادۃ لوگ اس طرح لپٹی ہوئی چیز کے ساتھ چلتے پھرتے نہیں ہیں۔ جرابوں کی بھی یہی کیفیت ہے کہ انہیں پہن کر لوگ چلتے پھرتے نہیں۔ اس لئے ان پر مسح کا جواز بھی ممتنع ہے۔ لیکن اگر یہ مجلد ہوں تو ان کی حیثیت موزوں کی طرح ہوتی ہے اور انہیں پہن کر چلا پھرا جاسکتا ہے اور یہ جرموق کی طرح ہوتی ہیں جسے موزے کے اوپر اس کی حفاظت کے لئے پہنتے ہیں (عوام اپنی زبان میں اسے کالوش کہتے ہیں) آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جراب جب مکمل طور پر مجلد ہو تو اس پر مسح کے جواز کے بارے میں سب کا اتفاق ہے۔ اگر جراب چلنے پھرنے اور دوسرے تصرف کے اندر موزوں کی طرح ہوں تو خواہ یہ مکمل طور پر مجلد ہوں یا ان کا بعض حصہ مجلد ہو تو اس سے مسح کے حکم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پگڑی پر مسح عمامہ یعنی پگڑی پر مسح کے بارے میں فقاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب، امام مالک حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ پگڑی پر مسح جائز نہیں ہے اور نہ ہی دوپٹے پر۔ سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ پگڑی پر مسح جائز ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل قول باری (وامسحوا بو وسکم) ہے اس کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ سر کے ساتھ پانی لگایا جائے، اب جو شخص پگڑی پر مسح کرے گا وہ اپنے سر کا مسح کرنے والا نہیں کہلائے گا۔ اس لئے اس مسح کے ساتھ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ نیز سر کے مسح کے متعلق تواتر کے ساتھ آثار مروی ہیں۔ اگر عمامہ پر مسح کا جواز ہوتا تو اس کے متعلق بھی اسی پیمانے پر آثار منقول ہوتے جس پیمانے پر مسح علی الخفین کے متعلق منقول ہیں۔ جب حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ عمامہ پر مسح کی روایات منقول بنیں تو دو وجوہ سے اس پر مسح جائز نہیں ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آیت سر کے مسح کی مقتضی ہے اس سے ہٹنا صرف اسی صور ت میں جائز ہوسکتا ہے جب اس کے متعلق ایسی روایات موجود ہوں جو علم کی موجب بنتی ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پگڑی پر مسح کی عام ضرورت تھی۔ اس لئے اس کے جواز کے لئے صرف متواتر روایات قابل قبول ہوں گی۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو ایک ایک دفعہ دھو کر فرمایا (ھذا وضو من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الایہ یہ اس شخص کا وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نماز قبول نہیں کرتا) یہ بات معلو ہے کہ آپ نے سر کا مسح کیا تھا اس لئے کہ عمامہ پر مسح کو وضو نہیں کہا جاتا۔ پھر آپ نے نماز کے جواز کی نفی کردی الا یہ کہ اس طرح وضو کیا گیا ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت بھی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضور ﷺ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو ایک ایک مرتبہ دھو کر اور سر کا مسح کرنے کے بعد فرمایا (نذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا یہ وہ وضو ہے جسے اللہ نے ہم پر فرض کردیا ہے) اس ارشاد کے ذریعے آپ نے یہ بتادیا کہ پانی کے ساتھ سر کا مسح کرنا ہم پر فرض کردیا گیا ہے اس لئے اس ک یبغی رنماز درست نہیں ہوگی۔ اگر پگڑی پر مسح کے جواز کے قائلین اس روایت سے استدلال کریں جو حضرت بلال ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے کہ آ پنے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا تھا، اسی طرح راشد بن سعد نے حضرت ثوبان ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک جنگی مہم روانہ کی۔ اس میں شریک مجاہدین کو سردی لگ گئی جب یہ لوگ حضور ﷺ کے پاس واپس آئے تو آپ نے انہیں پگڑیوں اور سر پر بندھی ہوئی ٹوپیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ ان روایات کی اسانید میں اضطراب ہے۔ ان کے راویوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجہول الحال ہیں۔ اگر ان کی اسانید اضطراب سے پاک بھی ہوتیں تو بھی ان جیسی روایات کو آیت کے مقابلہ میں پیش کرنا جائز نہ ہوتا۔ ہم نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ ” آپ نے اپنی پیشانی اور پگڑی کا مسح کیا۔ “ بعض میں ہے کہ ” آپ نے اپنی پگڑی کے کنارے کا مسح کیا۔ “ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے عمامہ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ “ اس طرح حضرت مغیرہ نے بتایا کہ آپ نے پیشانی پر مسح کر کے فرضیت کی ادائیگی کرلی اور پگڑی کا بھی مسح کرلیا، ہمارے نزدیک یہ صورت جائز ہے۔ ایک احتمال یہ بھ ی ہے کہ جس بات کی حضرت بلال ؓ نے روایت کی ہے وہ حضرت مغیرہ ؓ کی روایت میں واضح کردی گئی ہے رہ گئی حضرت ثوبان ؓ کی روایت تو اسے بھی حضرت مغیرہ ؓ کی روایت کے معنی پر محمول کیا جائے گا کہ لوگوں نے دراصل سر کے بعض حصوں اور پگڑی کا مسح کیا تھا۔ واللہ اعلم ! وضو میں اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) تاآخر آیت، اس کا ظاہر لفظ ان اعضاء کو ایک دفعہ دھونے کا مقتضی ہے کیونکہ اس میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے یہ تکرار فعل کا موج ب نہیں ہوگا۔ اس بنا پر جو شخص ان اعضاء کو ایک مرتبہ دھو لے گا وہ فرض ادا کرلے گا۔ حضور ﷺ سے بھی ان ہ ی معنوں میں روایات منقول ہیں۔ ان میں سے ایک روایت حضرت ابن عمر کی ہے کہ حضور ﷺ نی ایک ایک مرتبہ اعضائے وضو کو دھونے کے بعد فرمایا (ھذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا یہ وہ وضو ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کردیا ہے) حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک ایک مرتبہ یہ اعضاء دھونے، حضرت ابو رافع ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے تین تین مرتبہ بھی اعضائے وضو دھوئے ہیں اور ایک ایک مرتبہ بھی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نقاً جو کچھ بیان کیا ہے وہ فرض وضو ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ وضو میں بہت سے افعال مسنون بھی ہیں جنہیں حضور ﷺ نے جاری کیا ہے۔ ہمیں عبداللہ بن الحسن نے روایت بیان کی، انہیں ابو مسلم نے، انہیں ابوالولید نے، انہیں زائدہ نے، انہیں خالد بن علقمہ نے عبدالخیر سے کہ حضرت علی ؓ فجر کی نماز پڑھنے صحن یا بیٹھک میں آ گئے پھر آپ نے غلام سے پانی لانے کے لئے کہا، غلام ایک برتن اور ایک طشت لے آیا عبدالخیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے، آپ نے اپنے دائیں ہاتھ میں پانی کا برتن پکڑا اور بائیں ہاتھ پر جھکا دیا پھر دونوں کف دست دھو لئے پھر دائیں ہاتھ سے برتن پکڑ کر بائیں ہاتھ پر انڈیلا اور ونوں کف دست دھو لئے، اس طرح تین دفعہ اپنی دونوں ہتھیلیاں دھو لیں۔ پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر لیا اور کلی کی نیز ناک میں بھی پانی ڈالا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کی، تین مرتبہ ایسا ہی کیا، پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر انہیں پوری طرح تر کرلیا، پھر برتن سے ہاتھ نکال کر لگتے ہوئے پانی سمیت دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے دائیں قدم پر پانی ڈا لکر اسے بائیں ہاتھ سے تین مرتبہ دھویا، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں قدم پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے اسے تین مرتبہ دھویا، پھر ایک چلو بھر ک رنوش جان کرلیا اور فرمایا : جو شخص حضور ﷺ کا وضو دیکھنا پسند کرتا ہو وہ اس وضو کو دیکھ لے۔ یہی آپ ﷺ کا وضو تھا۔ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ کے وضو کی جو کیفیت بیان کی یہی ہماے اصحاب کا بھی مسلک ہے۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت علی ؓ نے سب سے پہلے برتن میں پانی انڈیل کر اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھو لئے، ہمارے اصحاب اور دوسرے تمام فقاء کے نزدیک یہ مستجب ہے، واج ب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ہاتھ دھوئے بغیر لگی ہو۔ حسن بصری سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ہاتھ ڈال دے گا تو وہ اس پانی کو بہا دے گا اور اس سے وضو نہیں کرے گا، حسن کے اس قول کی کچھ لوگوں کے متابعت کی ہے جو لائق اعتناء نہیں ہیں۔ بعض اصحاب حدیث سے یہ بات نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے دن کی نیند اور رات کی نیند میں فرق کیا ہے، اس لئے کہ رات کی نیند کے دوران بعض دفعہ جسم سے کپڑا ہٹ جاتا ہے اور ہاتھ کا استنجا کی جگہ پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن دن کی نیند کے دوران جسم سے کپڑا نہیں ہٹتا اور جسم برہنہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کی جس طرح کیفیت بیان کی گئی ہے اس کی بناء پر دن اور رات کی نیند کے فرق کا اعتبار ساقط ہوجاتا ہے۔ یہ روایت اس بات کی متقضی ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ دھو لینا وضو کی سنت ہے۔ اس لئے کہ حرت علی ؓ نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد حاضرین کی تعلیم کی خاطر وضو کیا تھا اور ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لیا تھا۔ حضور ﷺ سے یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا اسققظ احدکم من منامہ فلیفل یدیہ قبل ان یدخلھما الا ناء ثلاثا فانہ لا یدری این باتت یدہ۔ تم میں سے کوئی جب نیند سے بیدار ہو تو پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے) محمد بن الحسن نے کہا ہے کہ لوگ پتھروں کے ٹکڑوں سے استنجا کرتے تھے۔ اس لئے کسی کو اس بات کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ نیند کے دوران اس کا ہاتھ استنجا کی جگہ نہ پڑگیا ہو اور پسینے وغیرہ کی تری اس کے ہاتھ کو نہ لگ گئی ہو۔ اس لئے اس نجاست سے احتیاط کرنے کا حکم دیا گیا جو ممکن ہے کہ استنجا کی جگہ سے اس کے ہاتھ لگ گئی ہو۔ تاہم فقاء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ ایک مستجب حکم ہے۔ حسن بصر یکا جو قول ہم نے نقل کیا ہے وہ ایک شاذ قول ہے اور ظاہر آیت اس کے ایجاب کی نفی کرتا ہے۔ قول باری ہے (اذ اقمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق) ظاہر آیت پانی کے برتن میں ہاتھ داخل کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھونے کے وجوب کا مقتضی ہے۔ لیک جو شخص پہلے دونوں کف دست کو دھو لینے کے وجو بکا قائل ہے وہ آیت میں ایسے مفہوم کا اضافہ کر رہا ہے جو آیت کا جز نہیں ہے۔ یہ اقدام صرف اس وقت درست ہوتا ہے جب اس جیسا کوئی نص موجود ہو یا اس پر امت کا اتفاق ہو۔ آیت میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جو نیند سے بیدار ہوئے ہوں یا پہلے ہی سے بیدار ہوں۔ اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے کہ آیت کا نزول ان لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جو نیند سے بیدار ہوئے تھے، تاہم آیت کا تمام صورتوں میں اعضائے وضو کو دھونے کے جواز پر اطلاق ہوا ہے اور اس میں کسی صورت کے اندر پہلے دونوں ہتھیلیوں کو دھونے کی قید نہیں ہے عطاء بن یسار نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” کیا تم یہ بات پسند کرو گے میں تمہیں دکھائوں کہ حضور ﷺ کس طرح وضو کرتے تھے ؟ “ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، اس پر آپ نے برتن میں پانی منگوایا اور دائیں ہاتھ سے چلو بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر ایک چلو پانی لے کر دایاں ہاتھ دھو لیا پھر ایک چلو لے کر بایاں ہاتھ دھولیا (تا آخر حدیث) اس روایت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ نے دونوں ہاتھ دھونے سے پہلے انہیں برتن میں داخل کردیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے انہیں دھولینا مستحب ہے۔ واجب نہیں ہے حضرت علی ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایتوں میں ہاتھ پہلے دھونے کا جو ذکر ہے وہ استحباب پر محمول ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت تو واضح طور سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے ایجاب مراد نہیں ہے۔ صرف اس بات سے احتیاط کا ارادہ کیا گیا تھا کہ کہیں اس کا ہاتھ استنجا کی جگہ پر نہ پڑگیا ہو۔ یہ چیز حضور ﷺ کے اس قول سے واضح ہے کہ (فانہ لایدری این باتت یدہ) (a) اس میں آپ نے یہ بتایا کہ نجاست کا ہاتھ میں لگ جانا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ نیند سے پہلے اس کا ہاتھ پاک تھا۔ اس لئے اسے اس کے اصل پر رکھتے ہوئے پاک تسلیم کیا جائے گا جس طرح اس شخص کو باوضو تسلیم کیا ج اتا ہے جسے اپنے وضو کے ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے اسے یہ حکم دیا کہ شک پیدا ہوجانے کی صورت میں طہارت کے یقینی امر پر بنا کرے اور شک کا انعاء کردے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نیند سے بیدار ہوکر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھولینے کا حکم آپ نے استحباب کے طور پر دیا تھا۔ یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں تھا۔ ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے رفقاء کے سامنے جب حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت بیان ہوتی، یعنی ایک شخص جب نیند سے بیدار ہو تو برتن میں اپنا ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھولے، تو وہ کہتے ابوہریرہ ؓ تو بہت زیادہ باتونی تھے وہ اوکھلی (پتھ کا بنا ہوا برتن جس کے اندرکافی پانی کی گنجائش ہوتی ہے) کی صورت میں کیا کرتے ہوں گے (یعنی اوکھلی کو جھکا کر پانی انڈیلنا تو ناممکن تھا پھر وہ پہلے ہاتھ کیسے دھوتے ہوں گے) اشجعی نے بھی حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ بات پوچھی تھی کہ حضرت ! اوکھلی کی صورت میں آپ کیا کریں گے ؟ ” تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا : ” میں جال اور پھندے سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ “ حضرت ابن مسعود ؓ کے رفقاء نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی جس بات کو ناپسند کیا تھا وہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ وضو شروع کرنے سے پہلے اور برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھونا واجب ہے۔ اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ مدینہ منورہ میں جو اوکھلی یا بطائولی تھی اس سے سب لوگ حضور ﷺ کے زمانے میں اور آپ کے بعد بھی وضو کرتے تھے لیکن کسی شخص نے وہاں وضو کرنے سے منع نہیں کیا جبکہ اس سے وضو ہاتھ ڈال کر ہی کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے حضرت عبداللہ ؓ کے رفقاء نے اس اعتقاد کو ناپسند کیا کہ پہلے ہاتھ دھونا واجب ہے حالانکہ لوگ اس اوکھلی میں ہاتھ ڈال ڈا لکر چلو بھرتے تھے اور کوئی کسی کو اس سے روکتا نہیں تھا۔ حضرت عبداللہ ؓ کے رفقاء نے ہمارے خیال کے مطابق روایت کا انکار نہیں کیا تھا صرف وجوب کے اعتقاد کو ناپسند کیا تھا۔ کانوں کا مسح دونوں کان کے مسح کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کانوں کا تعلق سر کے ساتھ ہے اس لئے سر کے مسح کے ساتھ ان دونوں کا بھی مسح کیا جائے گا۔ امام مالک، ثوری (رح) اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے اشہب نے یہ روایت کی ہے۔ ابن القاسم نے بھی امام مالک سے یہی روایت کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ان دونوں کا نئے پانی سے مسح کیا جائے گا۔ حسن بن صالح نے کہا ہے کہ کانوں کا نچلا حصہ چہرے کے ساتھ دھویا جائے گا اور اوپر کے حصے کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نئے پانی کے ساتھ ان دونوں کا مسح کیا جائے گا۔ ان دونوں کا مسح الگ سنت کے طور پر مستقلاً کیا جائے گا۔ ان کا تعلق نہ تو چہرے کے ساتھ ہے اور نہ ہی سر کے ساتھ۔ اس بات کی دلیل کہ دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے اور سر کے مسح کے ساتھ ان کا بھی مسح کیا جائے گا۔ وہ روایت ہے جو ہمیں عبید اللہ بن الحسین نے بیان کی ہے۔ انہیں ابو مسلمہ نے، انہیں ابو عمر نے حماد بن یزید سے، انہوں نے سنان بن ربیعہ سے، انہوں نے شہر بن حوشب سے، انہوں نے حضرت ابو امامہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے وضو کیا۔ آپ ﷺ نے تین دفعہ اپنے کف دست دھوئے، پھر اپنا چہرہ مبارک اور اپنے بازو تین تین دفعہ دھوئے پھر سر اور کانوں کا مسح کیا اور فرمایا (الا ذنان من الراس (a) دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے حدیث سنائی۔ انہیں احمد بن النفر بن بحر نے، انہیں عامر بن سنان نے، انہیں زیاد بن علاقہ نے عبدالحکم سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الاذنان من الراس ما اقبل منھما وما ادبر۔ (a) دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے ان کے سامنے کا حصہ بھی اور ان کا پچھلا حصہ بھی) حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی حضور ﷺ سے یہی روایت کی ہے پہلی حدیث ہمارے اصحاب کے قول پر دو وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حضرت ابو امامہ ؓ نے یہ بیان کیا کہ حضور ﷺ نے اپنے سر اور کانوں کا مسح کیا۔ یہ اس بات کی مقتضی ہے کہ آپ نے ایک ہی پانی سے دونوں کا مسح کیا تھا اس لئے کسی روایت کے بغیر نئے پانی کے اثبات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الاذنان من الراس) (a) اس ارشاد سے آپ کی مراد یا تو یہ تھی کہ آپ ہمیں سر کے ساتھ لگے ہوئے کانوں کا موقع و محل بتانا چاہتے تھے یا آپ کی مراد یہ تھی کہ کان سر کے تابع ہیں اور سر کے ساتھ ان کا بھی مسح کیا جاتا ہے۔ پہلی صورت تو اس لئے درست نہیں ہے کہ یہ بات واضح اور بین ہے اور مشاہدہ کی بنا پر سب کو معلوم ہے۔ دوسری طرف حضور ﷺ کا کلام فائدے سے خالی نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ ایک معلوم اور واضح چیز کا موقع و محل بتانا بےفائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دوسری صورت مراد ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ ممکن ہے کہ آپ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ سر کی طرح کانوں کا مسح کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات درست نہیں ہے اس لئے کہ سر اور کان دونوں کو ایک حکم کے تحت اکٹھا کردینا اس حکم کے اطلاق کا موجب نہیں ہے کہ یہ دونوں سر کا حصہ ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے ٹانگیں چہرے کا حصہ ہیں اس لئے کہ ان دونوں کو بھی چہرے کی طرح دھویا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ کے ارشاد (الاذنان من الراس) (a) سے مراد یہ ہے کہ کان سر کے جز کی طرح ہیں اور اس کے تابع ہیں۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھا جائے۔ وہ یہ کہ حرف ’ من ‘ (a) تبعیض کے لئے آتا ہے الا (a) یہ کہ کسی اور معنی کے لئے کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اس بنا پر آپ کے ارشاد (الاذنان من الرأس) (a) کے حقیقی معنی یہ ہوں گے کہ دنوں سر کا بعض یعنی حصہ ہیں۔ اگر یہ بات اس طرح ہوجائے تو یہ واجب ہوگا کہ سر کے ساتھ ان دونوں کا ایک ہی پانی سے مسح کیا جائے گا جس طرح سر کے تمام ابعاض یعنی حصوں کا ایک ہی پانی سے مسح کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا مسح المتوضی برأسہ خرجت خطایاہ من رأسہ حتی تخرج من تحت اذنیہ۔ واذا غسل وجھہ خرجت خطایاہ من تحت اشفار عینیہ۔ (a) جب وضو کرنے والا اسے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ سر سے نکل کر اس کے کانوں کے نیچے سے جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے خارج ہوجاتے ہیں) حضور ﷺ نے دونوں کانوں کی سر کی طرف اضافت کی جس طرح آنکھوں کو چہرے کا حصہ قرار دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” دس باتیں فطرت یعنی سنت سے تعلق رکھتی ہیں، ان میں سے پانچ سر کے اندر ہیں۔ “ آپ نے اس ضمن میں مضمضہ اور استنشاق کا ذکر فرمایا لیکن اس سے یہ دلالت حاصل نہیں ہوئی کہ یہ دونوں باتیں سر کے حکم میں داخل ہیں۔ یہی بات آپ کے ارشاد (الاذنان من الرأس) (a) کے اندر بھی پائی جاتی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ منہ اور ناک سر میں سے ہیں۔ بلکہ صرف یہ فرمایا : ” پانچ باتیں سر کے اندر ہیں۔ “ اور پھر سر کے اندر کی جانے والی ان پانچ باتوں کو بیان کردیا۔ ہم یہ کہتے ہیں ان سب کا مجموعہ سر کہلاتا ہے اور ہمارا قول ہے کہ آنکھیں بھی سر کے اندر ہیں۔ اسی طرح منہ اور ناک بھی سر کے اندر ہیں۔ ارشاد باری ہے (لووا رئوسھم۔ (a) اپنے سر پھیر لیتے ہیں) اس سے مراد ان تمام کا مجموعہ ہے۔ علاوہ ازیں معترض نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ ہمارے حق میں جاتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے جب اس عضو کو سرکا نام دیا جو اس مجموعے پر مشتمل ہے تو کانوں کا سر میں سے ہونا ضروری ہوگیا۔ کیونکہ یہ مجموعہ دونوں کانوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ کہ دلالت کے بغیر اس مجموعے میں سے کوئی چیز خارج نہیں کی جاسکتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (وامسحو برئوسکم) (a) اور یہ بات معلوم تھی کہ اس سے چہرہ مراد نہیں ہے اگرچہ وہ سر کے اندر ہے بلکہ اس سے مراد صرف وہ حصہ ہے جو کانوں سے اوپر اوپر ہے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا (الاذنان من الرأس) (a) اس ارشاد کے ذریعے یہ بات بتلادی گئی کہ کانوں کا اس سر سے تعلق ہے جس کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لیا تھا۔ الربیع بنت معوذ ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے سر اور کنپٹیوں کا مسح کیا۔ یہ چیز کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی مقتضی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کا یہ کہنا کہ آپ نے کانوں کے لئے نیا پانی لیا ہوگا تو یہ ایسی بات ہے جس کے متعلق ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کسی قابل اعتماد ذریعے سے مروی ہوئی ہو۔ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے تو معترض کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوسکتی اس لئے کہ اگر کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے تو آپ نے نئے سرے سے جو پانی لیا تھا یہ وہی پانی ہوسکتا ہے جو آپ نے سارے سر کے مسح کے لئے لیا ہوگا۔ اس صورت میں کہنے والے کے ان دونوں قول میں کوئی فرق نہیں ہوگا کہ آپ نے دونوں کانوں کے لئے نیا پانی لیا تھا اور آپ نے سر کے لئے نیا پانی لیا تھا جبکہ دونوں کانوں کا سر کے ساتھ تعلق ہے اور سر کے لئے لیا ہوا پانی کانوں کے لئے بھی کافی ہو۔۔ الربیع بنت معوذ کے اس قول میں کہ آپ نے سر کا مسح کیا پھر کانوں کا مسح کیا۔ اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ آپ نے کانوں کے لئے نئے سرے سے پانی لیا تھا اس لئے کہ مسح کا ذکر کانوں کے لئے پانی کی تجدید کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ مسح کا اسم پانی نہ ہونے کی صورت میں بھی اس عمل پر واقع ہوتا ہے۔ یہ روایت اس روایت کی طرح ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے دو دفعہ ایک ہی پانی سے سر کا اس طرح مسح کیا کہ دونوں ہتھیلیوں کو پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے اور پھر انہیں پیچھے کی طرف لے گئے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ آپ ہتھیلیوں کو آگے کی طرف اور پھر پیچھے کی طرف لے گئے اور اس عمل سے پانی کی تجدید واجب نہیں ہوئی۔ اسی طرح کانوں کا معاملہ تھا کیونکہ بیک وقت سر کے ساتھ کانوں کا مسح ممکن نہیں ہے۔ جس طرح سر کے اگلے اور پچھلے حصوں کا بیک وقت مسح ممکن نہیں۔ اس لئے سر کے مسح کے بعد کانوں کے مسح کے ذکر کی اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ ان کے لئے نیا پانی لیا گیا ہوگا اور سر اس میں شامل نہیں ہوا ہوگا۔ اگر مخالفین حضور ﷺ کی اس روایت سے استدلال کریں جس کے مطابق سجدے کی حالت میں یہ فرمایا کرتے تھے (سجدو جھی للذی خلقہ وشق سمعہ وبصرہ (a) میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا جس نے اسے پیدا کیا اور اس میں سمع و بصہ یعنی سننے اور دیکھنے کی راہیں پیدا کیں) آپ نے سمع کو چہرے میں سے قرار دیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے وجہ سے وہ عضو مراد نہیں لیا جو اس نام سے موسوم ہے بلکہ آپ کی مراد یہ ہے کہ انسان کا سراپا اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے صرف چہرہ نہیں۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے (کل شیء ھالک الا وجھہ (a) ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اس کا چہرہ) اس سے مراد ذات باری ہے۔ نیز حدیث میں سمع کا ذکر ہے اور کان سمع نہیں ہیں اس لئے اس میں کانوں کے حکم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ شاعر کا قول ہے : الی ھامۃ قد وقر الضرب سمعھا ولیست کا خری سمعھالم یوقر (a) ایسی کھوپڑی کی طرف جس کی سماعت کو ضرب نے بوجھل یا بہرا کردیا ہے اور یہ کھوپڑی کسی اور کھوپڑی کی طرح نہیں ہے جس کی سماعت کو بوجھل یا بہرا نہ کردیا گیا ہو۔ شاعر نے سمع کی اضافت کھوپڑی کی طرف کی ہے۔ سر کے ساتھ کانوں کا مسح تابع کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اصول کے لحاظ سے جو بھی مسنون ہوتا ہے وہ فرض مسح کے تابع کے طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ موزوں پر مسح کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پائوں کی انگلیوں کے کناروں سے پنڈلی کی جڑ کی طرف مسح کیا جائے حالانکہ فرض مسح صرف اس کے ایک حصے کا ہوتا ہے یعنی ہمارے قول کے مطابق تین انگلیوں کی مقدار اور مخالفین کے قول کے مطابق اتنا حصہ جس پر مسح کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ عبد خیر نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے آپ نے سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا مسح کیا پھر فرمایا کہ تمہارے سامنے میں نے وضو کیا ہے یہ حضور ﷺ کا وضو ہے۔ عبداللہ بن زید المازنی اور مقدام بن معدیکرب نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تھا۔ دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے لے گئے تھے۔ سر کے اگلے حصے سے ابتدا کی اور پھر دونوں ہاتھوں کو سر کے پچھلے حصے یعنی گدی تک لے گئے پھر انہیں اسی جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے مسح کی ابتدا کی تھی۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ قفا یعنی گدی فرض مسح کی جگہ نہیں ہے اس لئے کہ کانوں سے نیچے کی جانب کے مسح سے فرضیت کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ آپ نے صرف فرض مسح کے تابع کے طور پر اس مقام کا مسح کیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب کان فرض مسح کی جگہیں نہیں ہیں تو منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کے ساتھ ان کی مشابہت ہوگئی۔ اس لئے مضمضہ اور استنشاق کی طرح ان کے لئے بھی نیا پانی لیا جائے گا۔ اس لئے ان کا مسح مستقلاً الگ سنت کے طور پر ہوگا۔ گدی سر کے تابع ہے فرض مسح کی جگہ نہیں ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ گدی فرض مسح کی جگہ نہیں ہے لیکن حضور ﷺ نے تابع کے طور پر سر کے ساتھ اس کا بھی مسح کیا ہے۔ کانوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ رہ گیا مضمضہ اور استنشاق تو ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ سنت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ منہ اور ناک کے اندرونی حصے کسی بھی صورت میں چہرے کا جز نہیں بنتے اس لئے یہ اس کے تابع نہیں قرار دیئے جائیں گے۔ اس لئے ان کی خاطر نئے سرے سے پانی لیا گیا۔ لیکن کان اور گدی چونکہ سب کے سب سر سے تعلق رکھتے ہیں اگر فرض مسح کے مواقع نہیں ہیں۔ اس لئے مسح کے اندر وہ سر کے تابع قرار پائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کانوں کا تعلق اگر سر کے ساتھ ہوتا تو احرام باندھنے والا شخص ان کا حلق کر ا کے احرام کھول دیتا نیز جب محرم احلال کے ارادے سے حلق کراتا تو سر کے ساتھ ان کا حلق بھی مسنون ہوتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کانوں کا مونڈنا مسنون قرار نہیں دیا گیا اور انہیں مونڈنے پر احرام نہیں کھلتا۔ اس لئے کہ عادۃً کانوں میں بال نہیں ہوتے۔ حلق سر میں مسنون ہے جہاں عادۃً بال موجود ہوتے ہیں۔ چونکہ کانوں میں بال کا وجود شاذو نادر ہی ہوتا ہے اس لئے کانوں کے حلق کا حکم ساقط ہوگیا لیکن مسح کے سلسلے میں حکم ساقط نہیں ہوا نیز ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ کان سر کے تابع ہیں اصل اور مستقل نہیں ہیں جیسا کہ ہم پچھلے سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہم سر کے بغیر صرف ان دونوں کے مسح کو جائز قرار نہیں دیتے۔ تو پھر ہم پر یہ کیسے لازم آسکتا ہے کہ ہم حلق کے اندر انہیں اصل اور مستقل قرار دیں۔ حسن بن صالح کا یہ قول کہ کانوں کے نچلے حصے چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے اور اوپر والے حصوں کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے گا ایک بلا وجہ بات ہے۔ اس لئے کہ اگر ان کے نچلے حصے غسل کے تحت آتے تو ان کا چہرے کے ساتھ تعلق ہوتا۔ پھر ان کا دھونا واجب ہوتا۔ پھر جب حسن بن صالح کانوں کے اوپر والے حصوں کا سر کے ساتھ مسح کے سلسلے میں ہمارے موافق ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ان کا تعلق سر کے ساتھ ہے۔ نیز ہمیں کوئی عضو ایسا نہیں ملا کہ اس کا ایک حصہ چہرے کے ساتھ تعلق رکھتا ہو اور دوسرا حصہ سر کے ساتھ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کانوں سے نچلے حصوں کا مسح کرے گا تو اس کا فرض مسح پورا نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ گدی سے تعلق رکھتے ہیں اور فرض مسح کے مقامات سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اس لئے ان کا مسح کافی نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص کے سر کے بال بڑھ کر کندھوں پر پڑ رہے ہوں اور وہ شخص سر کی بجائے ان بالوں کا مسح کرلے تو اس کا یہ مسح درست نہیں ہوگا اور سر کے مسح کی کفایت نہیں کرے گا۔ وضو کے عمل میں تفریق کرنے یعنی وقفہ ڈال کر ایک وضو مکمل کرنے کے متعلق فقہاء میں اختالاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ تفریق جائز ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس نے وضو کی تکمیل میں طوالت اختیار کرلی یا وضو کے دوران کسی اور کام میں مشغول ہوگیا تو نئے سرے سے وضو شرع کرے گا۔ ہمارے قول کی صحت کی دلیل یہ قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت۔ آیت کی رو سے کوئی شخص اعضائے وضو کو دھونے کا عمل چاہے جس طرح بھی کرلے وہ فرض سے سبکدوش ہوجائے ا۔ اگر ہم پے در پے ادائیگی اور ترک تفریق کی شرط عائد کریں گے تو اس سے نص کے مفہوم میں اضافے کا اثبات لازم آئے گا جو اس کے نسخ کا باعث بنے گا۔ اس پر قول باری (ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھرکم (a) اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہارے لئے کوئی تنگی پیدا ہوجائے لیکن وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے) حرج تنگی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کا مقصد طہارت کا حصول اور تنگی کی نفی ہے۔ ہمارے مخالفین کے قول کے نتیجے میں حرج کا اثبات ہوتا ہے جو آیت میں مذکور طہارت کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس پر قول باری (وینزل علیکم من السمآء ماء لیطھرکم (a) اور اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے پانی اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں پاک کردے) اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ پانی کے ذریعے تطہیر ہوجاتی ہے۔ اس میں موالات کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ اس لئے ظاہر آیت کی رو سے جس صورت میں بھی اسے استعمال کیا جائے گا یہ مطہر یعنی پاک کردینے والا بن جائے گا۔ (آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top