Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اللہ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہد و پیمان کو نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے یعنی تمہارا یہ قول کہ ” ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی “ اللہ سے ڈرو ‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے
(آیت) ” نمبر 7۔ جن لوگوں کو سب سے پہلے قرآن نے خطاب کیا تھا وہ اس دین کی قدروقیمت کو اچھی طرح جانتے تھے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں اس لئے کہ وہ اس دین کی حقیقت اپنی ذات اور شخصیت کے اندر زندہ طور پر دیکھ رہے تھے ۔ یہ دین ان کی زندگی ‘ ان کی سوسائٹی اور ان کے اردگرد پوری بشریت میں اس کے مقام کے حوالے سے ان کی آنکھوں کے سامنے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسمت کی طرف صرف اشارہ ہی ان کے لئے کافی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بسہولت اس عظیم حقیقت کی طرف متوجہ ہو سکتے تھے جو ان کی زندگی اور ماحول میں موجود تھی ۔ اسی طرح اس میں اس میثاق کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ۔ اور یہاں اس کی طرف اس لئے اشارہ کیا گیا کہ یہ بھی ایک واضح حقیقت تھی جسے وہ جانتے تھے اور اس پر وہ بہت فخر کرتے تھے ۔ اس معاہدے کا فریق اول اللہ تھا ۔ اور فریق دوئم وہ تھے اور یہ بات ان کے لئے نہایت ہی قابل قدر اور قابل عزت تھی ‘ اور یہ بات نہایت عظیم تھی اور وہ اس کی اہمیت اور حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو خدا ترسی کے حوالے کرتے ہیں اور دل کے اندر اللہ کے خوف کا احساس کرنے اور خفیہ خطرات کے مقابلے میں ان کو بیدار کیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون “ (اللہ سے ڈرو ‘ اللہ ان باتوں سے خبردار ہے جو تم کرتے ہو) انداز تعبیر (آیت) ” بذات الصدور “۔ (5 : 7) باتصویر اور مفہوم کو تیزی سے منتقل کرنے والی ہے ۔ مناسب ہوگا کہ اس میں جو خوبصورتی ‘ معنی خیزی اور گہرائی ہے اس کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ ذات الصدور کا مفہوم عربی میں ” دلوں کی مالکہ “ جو دلوں میں چسپاں ہو ‘ کنایتہ مراد وہ خفیہ جذبات ہیں جو دلوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ پوشیدہ میلانات ‘ دلوں کے خلجان ‘ خفیہ راز ایسے راز جو دلوں کے ساتھ چسپاں ہیں۔ یہ خفیہ راز بھی اللہ کے سامنے بالکل کھلے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ دلوں میں چھپی باتوں کا بھی جاننے والا ہے ۔ وہ عہد جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے لیا ہے ‘ اس میں یہ بات بھی ہے کہ یہ امت پوری انسانیت کے لئے عدل و انصاف کی نگران ہوگی ۔ ایسا انصاف کہ اس کے ترازو کا کوئی پلڑا دوستی اور دشمنی کی وجہ سے جھک نہ جائے ، اس پر رشتہ داری اور خواہشات نفسانیہ کے اثرات بھی نہ ہوں اور نہ وہ کسی مصلحت سے متاثر ہو ۔ یہ عدل صرف ذات باری کی رضا کے لئے ہو اور اس میں انصاف کرنے والا موثرات دنیا میں سے کسی موثر سے اثر نہ لے اور یہ انصاف اس شعور کے تحت ہو کہ اللہ رقیب اور نگہبان ہے اور خفیہ ترین گوشوں سے باخبر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی پکار یہ ہے ۔
Top