Al-Qurtubi - Al-Maaida : 7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤ١ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) وَمِيْثَاقَهُ : اور اس کا عہد الَّذِيْ : جو وَاثَقَكُمْ : تم نے باندھا بِهٖٓ : اس سے اِذْ قُلْتُمْ : جب تم نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے مانا وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ : بات الصُّدُوْرِ : دلوں کی
اور خدا نے جو تم پر احسان کئے ہیں انکو یاد کرو اور اس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا (یعنی) جب تم نے کہا تھا کہ تم نے (خدا کا حکم) سُن لیا اور قبول کیا۔ اور خدا سے ڈرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے۔
سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر مسئلہ نمبر : (25) اس شخص کے بارے اختلاف ہے جس نے خفین اتارے جب کہ اس نے ان پر مسح کیا ہوا تھا، علماء کے تین اقوال ہیں۔ (1) اسی جگہ اپنے پاؤں دھوئے اگر تاخیر کی تو نئے سرے سے وضو کرے یہ امام مالک (رح) اور لیث (رح) کا قول ہے اسی طرح امام شافعی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : اوزاعی (رح) اور نخعی (رح) سے مروی ہے اور انہوں نے اس مکان کا ذکر نہیں کیا۔ ا (2) نئے سرے سے وضو کرے یہ حسن بن حی (رح) کا قول ہے، اوزاعی (رح) اور نخعی (رح) سے مروی ہے۔ (3) اس پر کچھ نہیں ہے اور جیسے ہے نماز پڑھے، ابن ابی لیلی اور حسن بصری (رح) کا یہ قول ہے، یہ ابراہیم نخعی (رح) سے روایت ہے۔ مسئلہ نمبر : (26) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کنتم جنبا فطھروا “۔ الجنب کا معنی سورة النساء میں گزر چکا ہے۔ (آیت) ” فاطھروا “۔ پانی سے غسل کرنے کا حکم ہے اسی وجہ سے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کا خیال ہے کہ جنبی کبھی بھی تیمم نہیں کرسکتا بلکہ وہ نماز چھوڑے رکھے حتی کہ پانی پالے، جمہور علماء نے کہا : یہ عبارت پانی پانے والے کے لیے ہے، پانی نہ پانے والے کے احکام کے بعد جنبی کا ذکر اس ارشاد : (آیت) ” اولمستم النسآء “ کے ساتھ کیا۔ ملامست سے یہاں مراد جماع ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے صحیح مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے قول کی طرف رجوع کیا کہ جنبی تیمم کرے اور حضرت عمران بن حصین کی حدیث اس میں نص ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو علیحدہ (بیٹھا ہوا) دیکھا جس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اے فلاں ! تجھے قوم کے ساتھ نماز پڑھنے سے کسی چیز نے منع کیا “ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے جنابت لاحق ہوئی ہے اور پانی موجود نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو مٹی کو استعمال کر وہ تیرے لیے کافی ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب التیمم جلد 1 صفحہ 50) اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (27) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغآئط، یہ تفصیلا سورة النساء میں گزر چکا ہے ہم یہاں ایک اصولی مسئلہ ذکر کرتے ہیں جو سورة النساء میں ہم سے رہ گیا تھا یہ غالبی عادت کے عموم کی تخصیص ہے کیونکہ (آیت) ” الغآئط “ اس احداث سے کنایہ ہے جو مخرجین سے نکلتے ہیں جیسا کہ سورة النساء میں ہم نے بیان کیا یہ عام ہے مگر ہمارے جلیل القدر علماء نے اس کو اس احداث کے ساتھ خاص کیا ہے جو عادۃ خارج ہوتے ہیں معتاد طریق پر، اگر غیر معتاد طریقہ پر نکلے مثلا کنکریاں یاکیڑے نکلیں یا سلسل اور مرض کے طریقہ پر معتاد طور پر نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، علماء لفظ کا خیال کرتے ہیں، کیونکہ لفظ جب اپنے مدلول کے لیے ثابت ہوتا ہے تو وہ غالب استعمال میں معروف ہوتا ہے اطلاق کی حالت میں سامع کے فہم کے لیے وہ غالب مفہوم ذہن سے بعید ہوتا ہے پس وہ اس کا غیر مدلول لہ بن جاتا ہے اور حال اس میں اس طرح ہوتا ہے جیسے دابۃ میں ہے جب یہ مطلق بولا جاتا ہے، تو ذہن ذوات اربع (چار ٹانگوں) والے جانوروں کی طرف جاتا ہے سننے والے کے ذہن میں چیونٹی کا تصور نہیں آتا ہے پس وہ غیر مراد ہوگئی اور اس لفظ کے لے ظاہر مدلول نہیں، مخالف کہتا ہے : غالبی معنی کی سبقیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ نادر غیر مراد ہو اور لفظ کا دو معانی کے لیے ایک وضع کے اعتبار سے ہے یہ ان دونوں کے ساتھ متکلم کے شعور پر قصدا دلالت کرتا ہے، پہلا قول اصح ہے اور مکمل کلام کتب اصول میں ہے۔ مسئلہ نمبر : (28) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” او لمستم النسآء عبیدہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : قبلہ (بوسہ) لمس سے ہے اور جمناع کے علاوہ سب کچھ لمس سے ہے اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : محمد بن یزید نے اس کو اختیار کیا ہے انہوں نے کہا : آیت کی ابتدا میں اس کا ذکر کیا جو جماع کرنے والے پر واجب ہے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وان کنتم جنبا فاطھروا “۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا : اللمس، لمس اور الغشیان سب کا معنی جماع ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کنایہ فرمایا، مجاہد نے (آیت) ” واذا مروا باللغو کراما ‘۔ (الفرقان) کے تحت فرمایا : اس کا مطلب ہے جب وہ نکاح کا ذکر کرتے ہیں تو اسے کنایہ کرتے ہیں سورة النساء میں اس باب میں قول تفصیلا گزر چکا ہے۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (29) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلم تجدوا مآء “۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے پانی کے نہ ہونے کا حکم صحیح حاضر کے لیے بھی مرتب ہوتا ہے کہ وہ قیدی ہو یا باندھا ہوا ہو، وہ شخص جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس نے نہ پانی پایا نہ مٹی اور اسے وقت کے نکلنے کا اندیشہ ہو تو اس کے حکم میں فقہاء کے مختلف چار اقوال ہیں، ابن خویز منداد نے کہا : امام مالک کا صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ نہ نماز پڑھے اور نہ اس پر کچھ اور ہے مدنی علماء نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : یہ مذہب صحیح ہے، ابن القاسم نے کہا : نماز پڑھ لے اور عادہ کرے، یہی امام شافعی کا قول ہے اشہب نے کہا : نماز پڑھے اور اعادہ نہ کرے، اصبغ نے کہا : نہ نماز پڑھے اور نہ قضا کرے یہی امام ابوحنفیہ کا قول ہے، ابو عمر بن عبدالبر نے کہا میں نہیں جانتا کہ ابن خویز منداد نے مذہب صحیح کا کیسے قول کیا ہے، اس کے بارے میں جو اس نے ذکر کیا ہے اس کے خلاف جمہور سلف، عامۃ الفقہاء اور مالکی علماء کی جماعت کا قول ہے، میرا خیال ہے وہ امام مالک کی حدیث کے ظاہر قول : لیسوا علی ماء “ کی طرف گئے ہیں اور انہوں نے انھم صلوا انہوں نے نماز پڑھی کا ذکر نہیں کیا اور اس میں حجت نہیں ہے، ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے اس حدیث میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور انہوں نے اور انہوں نے اعادہ کا ذکر نہیں کیا اس نظریہ کی طرف فقہاء کی ایک جماعت کا خیال گیا ہے، ابو ثور نے کہا : یہی قیاس ہے۔ میں کہتا ہوں : جو الکیاطبری نے ذکر کیا ہے اس سے مزنی نے حجت پکڑی ہے، طبری نے حضرت عائشہ ؓ سے ہار کا واقعہ روایت کیا ہے جب وہ گم ہوگیا، نبی مکرم ﷺ کے صحابہ جن کو آپ ﷺ نے ہار کی طلب کے لیے بھیجا تھا انہوں نے بغیر تیمم اور بغیر وضو کے نماز پڑھی تھی اور انہوں نے اس بات کی خبر آپ ﷺ کو دی تھی پھر آیت تیمم نازل ہوئی ان پر بغیر وضو اور تیمم کے نماز پڑھنے پر انکار نہ فرمایا۔ تیمم جب مشروع ہی نہیں تھا تو انہوں نے بغیر طہارت کے نماز پڑھی تھی، اسی وجہ سے مزنی نے کہا : اس پر اعادہ نہیں ہے یہ بغیر طہارت کے نماز کے جواز میں نص ہے جب طہارت دینے والی چیز تک پہنچنا ممکن نہ ہو ابو عمر نے کہا : اس کو مغمی علیہ (جس پر غشی طاری ہو) پر محمول کرنا مناسب نہیں مغمی علیہ کی عقل نہیں ہوتی جب کہ یہ عقل کے ساتھ ہے، ابن القاسم اور تمام علماء نے کہا : نماز انسان پر واجب ہے جب تک اس کی عقل موجود ہو، جب عقل موجود ہو تو وضو کرے یا تیمم کرے اور نماز پڑھے، امام شافعی سے دو روایات مروی ہیں، مشہور یہ ہے کہ وہ جس حالت میں ہے نماز پڑھے اور اعادہ کرے، مزنی نے کہا : جب کوئی شخص محبوس ہو اور پاک مٹی پر قادر نہ ہو تو نماز پڑھے اور اعادہ کرے، یہ امام ابو یوسف امام محمد، ثوری اور طبری کا قول ہے، زفر بن ہذیل نے کہا : حضر میں محبوس نماز نہ پڑھے اگرچہ وہ پاک مٹی پائے بھی، یہ ان کی اصل پر ہے کہ ان کے نزدیک حضر میں نمازی تیمم نہ کرے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابو عمر نے کہا : جس نے کہا نماز پڑھے جیسا بھی ہے اور اعادہ کرے جب طہارت پر قادر ہو تو انہوں نے بغیر طہارت کے نماز کے لیے احتیاط کی انہوں نے کہا : نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز کو قبول نہیں کرتا “ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 24۔ ) یہ اس کے لیے ہے جو طہارت پر قادر ہو اور جو طہارت پر قادر نہ ہو اس کے لیے یہ حکم نہیں، کیونکہ وقت فرض ہے وہ اس پر قادر ہے پس وہ نماز پڑھے جیسا وہ وقت میں قادر ہے پھر اعادہ کرے پس اس نے وقت اور طہارت میں احتیاط کو لیا۔ اور جن علماء نے کہا : وہ نماز نہ پڑھے انہوں نے ظاہر حدیث کے اعتبار سے کہا : یہ مالک ابن نافع اور اصبغ کا قول ہے انہوں نے کہا : جو پانی اور مٹی نہ پائے وہ نماز نہ پڑھے اور نہ قضا کرے اگر نماز کا وقت گزر جائے کیونکہ عدم قبولیت عدم شروط کی وجہ سے ہے یہ دلیل ہے کہ عدم قبولیت عدم شروط کی وجہ سے ہے یہ دلیل ہے کہ عدم شروط کی حالت میں وہ نماز کا مخاطب نہیں ہے اس کے ذمہ کوئی چیز مرتب نہ ہوگی پس وہ قضا نہ کرے، ابو عمر کے علاوہ علماء کا یہ قول ہے اس بناء پر طہارت وجوب کی شرط ہے۔ مسئلہ نمبر : (30) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتیمموا صعیدا طیبا “ صعیدا “۔ کے متعلق علماء کا اختلاف سورة النساء میں گزر چکا ہے اور امام مالک (رح) کے قول پر حضرت عمران بن حصین کی حدیث نص ہے اگر (آیت) ” صعیدا “۔ سے مراد تراب (مٹی) ہوتی تو آپ ﷺ آدمی کو کہتے علیک بالتراب فانہ یکفیک “۔ جب آپ ﷺ نے علیک بالصعید (1) (بخاری، کتاب التیمم جلد 1، صفحہ 50) فرمایا تو آپ نے اسے سطح زمین کی طرف پھیرا، واللہ اعلم۔ (آیت) ” فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ “۔ اس پر تفصیلی کلام سورة النساء میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (31) یہاں تک ہم نے آیات کے متعلق گفتگو کی، اب تو جان لے کہ علماء نے وضو اور طہارت کی فضیلت میں کلام کی ہے، یہ باب کا خاتمہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : الطھور شطرالایمان “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطھارات جلد 1، صفحہ 118) طہارت ایمان کا حصہ ہے اس حدیث کو مسلم نے حضرت ابومالک اشعری ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے سورة بقرہ میں اس پر کلام گزر چکی ہے۔ ابن عربی نے کہا : وضو دین میں اصل ہے اور مسلمانوں کی طہارت ہے خصوصا اس امت کے لیے۔ روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے وضو فرمایا اور فرمایا : ” یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے اور میرے باپ ابراہیم کا وضو ہے “ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ بعض علماء نے کہا : یہ نبی مکرم ﷺ کے قول لکم سیما لیست لغیرکم (3) (صحیح مسلم، کتاب الطھارات جلد 1، صفحہ 126) تمہارے لیے علامت ہے تمہارے غیر کے لیے نہیں ہے وہ وضو کرتے تھے جس چیز کے ساتھ یہ امت خاص ہے وہ غرہ (پیشانی کا روشن ہونا) اور التحجیل (ہاتھ اور پاؤں کا چمک والا ہونا) ہے وضو نہیں ہے، یہ دونوں اللہ کی طرف سے فضل ہیں اس امت کے شرف اور نبی مکرم ﷺ کے شرف کے لیے اس امت کے ساتھ خاص فرمایا ہے جس طرح تمام امتوں پر اس کی دوسری فضیلتیں دی ہیں، جس طرح اس امت کے نبی کریم ﷺ کو مقام محمود کے ساتھ اور دوسرے کمالات کے ساتھ تمام انبیاء پر فضیلت دی۔ واللہ اعلم۔ ابو عمر نے کہا : جائز ہے کہ انبیاء وضو کرتے ہوں اور اس سے وہ غرہ تحجیل حاصل کرتے ہو اور ان کے متبعین وضو نہ کرتے ہوں جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مروی ہے انہوں نے کہا : یا رب ! میں ایک امت دیکھتا ہوں جو سب انبیاء کی طرح ہیں اس کو میری امت بنا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محمد ﷺ کی امت ہے، اس حدیث میں طوالت ہے، سالم بن عبداللہ بن عمر عن کعب الاحبار ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ لوگ حساب کے لیے جمع ہیں پھر انبیاء کو بلایا گیا ہر نبی کے ساتھ اس کی امت تھی، اس نے ہر نبی کے لیے دو نور دیکھے جس کے درمیان وہ چل رہا تھا اور اس کی اتباع کرنے والے کے لیے ایک نور تھا جس کے ساتھ وہ چل رہا تھا حتی کہ حضرت محمد ﷺ کو بلایا گیا جب آپ کا سر اور چہرہ ظاہر ہوا تو نور ہی نور تھا ہر ایک کو وہ نور نظر آتا جو آپ کی طرف دیکھتا اور ہر ایک کی امت کے ہر فرد کے لیے دو نور تھے جس طرح انبیاء کے نور تھے، کعب نے اسے کہا : جب کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خواب ہے تجھے یہ حدیث کس نے بیان کیا اور تجھے کس نے یہ سکھایا ؟ اس شخص نے بتایا کہ یہ خواب ہے کعب نے اسے کہا : (آیت) ” اللہ الذی لا الہ الا ھو (الحشر : 22) واقعی تو نے یہ خواب دیکھا ہے کعب نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کی قبضہ میں میری جان ہے، یا کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ صفت احمد ﷺ اور آپ کی امت کی ہے اور انبیاء کی صفت کتاب میں گویا جو تو کہہ رہا ہے تو رات سے ہے، کتاب ” التمہید “ میں سند کے ساتھ بیان کیا ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : یہ کہا گیا ہے کہ تمام امتیں وضو کرتی تھیں واللہ اعلم، یہ میں صحیح سند سے نہیں جانتا۔ مسلم نے اس کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب بندہ مومن یا مسلم وضو کرتا ہے اور اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے ہر خطا نکل جاتی ہے جس کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ، جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے ہر خطا نکل جاتی ہے جس کو اس کے ہاتھوں نے پکڑا تھا، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ، جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو ہر خطا نکل جاتی ہے، اس کے قدم جس کی طرح چلے تھے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ حتی کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطھارات جلد 1، صفحہ 125) امام مالک (رح) نے عبداللہ صنابحی سے جو حدیث روایت کیا ہے وہ اکمل ہے درست ابو عبداللہ ہے نہ کہ عبداللہ۔ یہ وہ حدیث ہے جس میں امام مالک کو وہم ہوا اس کا نام عبدالرحمن بن عسیلۃ تھا یہ تابعی شامی کبیر ہے، کیونکہ اس نے حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا آغاز پایا، حضرت ابو عبداللہ صنابحی نے کہا : میں یمن سے ہجرت کرکے نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا جب ہم جحفۃ پہنچے وہاں ایک سوار موجود تھا، ہم نے اس سے پوچھا : کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا : ہم تین دن سے رسول اللہ ﷺ کو دفن کرچکے ہیں، یہ احادیث اور اس کے ہم معنی حضرت عمرو بن عبسہ وغیرہ کی احادیث تجھے یہ فائدہ دیتی ہیں کہ وضو مشروع ہے اور یہ عبادت ہے، گناہوں کو مٹانے کے لیے، یہ چیز نیت شرعیہ کی احتیاج کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ یہ گناہوں کو مٹانے اور اللہ کی بارگاہ میں درجات بلند کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (32) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج “۔ یعنی دین میں تنگی نہیں رکھی اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ما جعل علیکم فی الدین من حرج “۔ (الحج : 78) من صلہ ہے یعنی لیجعل علیکم حرجا۔ (آیت) ” ولکن یرید لیطھرکم “۔ یعنی تاکہ وہ تمہیں گناہوں سے پاک کردے جیسا کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث اور صنابحی کی احادیث ہم نے ذکر کی ہیں بعض علماء نے فرمایا : حدیث اور جنابت سے تمہیں پاک کرے، بعض علماء نے فرمایا : تاکہ تم اس طہارت کے وصف کے مستحق ہوجاؤ جس کے ساتھ اہل طاعت موصوف ہوتے ہیں، سعید بن مسیب نے لیطحرکم پڑھا ہے۔ معنی ایک ہی ہے جیسا کہا جاتا ہے، نجاہ وانجاہ۔ (آیت) ” ولیتم نعمتہ علیکم “۔ مرض اور سفر کے وقت تیمم کی رخصت دے کر تم پر نعمت مکمل کرے، بعض علماء نے کہا : شرائع کے بیان کے ساتھ نعمت کو مکمل کیا، بعض علماء نے فرمایا : گناہوں کی بخشش فرما کر تم پر نعمت کو مکمل کرے، حدیث میں ہے ” نعمت کا تمام جنت کا دخول اور آگ سے نجات ہے “۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب الدعوات جلد 2، صفحہ 191، ایضا حدیث 3450، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی تم اس کی نعمت کا شکر ادا کرو اور اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہو۔ آیت نمبر : 7۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذکروا نعمۃ اللہ علیکم ومیثاقہ الذی واثقکم بہ “۔ بعض علماء نے فرمایا : میثاق سے مراد وہ ہے جو اس ارشاد میں ہے (آیت) ” واذا اخذ ربک من بنی ادم “۔ (الاعراف : 172) یہ مجاہد وغیرہ کا قول ہے اگرچہ ہم نے اس کو یاد نہیں رکھا جو ہمیں حضرت محمد ﷺ نے بیان فرمایا : یہ بھی جائز ہے کہ ہمیں وفا کرنے کا حکم دیا گیا ہو، بعض علماء نے فرمایا : یہ یہود کو خطاب ہے کہ وہ عہد جو ان سے تورات میں لیا گیا ہے اس کی حفاظت کریں اور جمہور مفسرین جیسے حضرت ابن عباس ؓ اور سدی کا نظریہ یہ ہے کہ وہ عہد اور میثاق مراد ہے جو ان کے لیے نبی مکرم ﷺ کے ساتھ خوشی اور پریشانی میں سمع وطاعت کا جاری ہوا تھا جب انہوں نے کہا تھا : ہم نے آپ کا ارشاد سنا اور ہم نے اطاعت کی جیسا کہ ” لیلۃ العقبہ اور تحت الشجرہ “ جاری ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے جس طرح فرمایا (آیت) ” انما یبایعون اللہ “۔ (الفتح : 10) حالانکہ انہوں نے عقبۃ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی کہ وہ آپ کی حفاظت کریں گے جس سے وہ اپنے نفسوں، اپنی عورتوں اور اپنے بیٹوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ ان کے اصحاب ان کی طرف ہجرت کریں گے، سب سے پہلے حضرت براء بن معرور نے اس پر بیعت کی تھی، اس کو اس رات مقام محمود حاصل تھا رسول اللہ ﷺ سے پختہ عہد کرتے اور آپ کے امر کو شدت سے پکڑنے کی وجہ سے یہی وہ تھے جنہوں نے کہا تھا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ! ہم اس چیز سے آپ کی حفاظت کریں گے جس سے ہم اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں، یا رسول اللہ ﷺ آپ ہماری بیعت کریں، اللہ کی قسم ! ہم جنگوں کے بیٹے ہیں، اہل حلقہ میں ہم ان چیزوں کے نسل در نسل وارث بنے ہیں، سیرت ابن اسحاق میں خبر مشہور موجود ہے۔ بیعت الرضوان کا ذکر اپنی جگہ آئے گا، یہ قول اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ کے ساتھ متصل ہے جو صحابہ کرام نے کہا تھا اس کو پورا کیا، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے، ؓ وارضاھم۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ یعنی اللہ کی مخالفت سے ڈرو، کیونکہ وہ ہر چیز کا عالم ہے۔
Top