Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے ؟
(1) وفی انفسکم افلاتبصرون : یعنی خود تمہارے نفسوں میں دوبارہ زندہ ہونے کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں کہ مٹی اور نطفے سے لے کر موت تک ہر لمحہ موت کے بعد زندگی کا شاہد ہے، کیونکہ جسم کا ہر خلیہ جو موجود ہوتا ہے فنا ہوتا اور اس کی جگہ نیا خلیہ وجود میں آتا رہتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے، جس کے دوران انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرف بھی منقت ہوتا رہتا ہے، مگر موت و حیات کے اس سلسلے پر غور کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ یہ بحث تفصیل کے ساتھ سورة مومنون (12 تا 16) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ (2) انسان کی ذات میں قیامت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، حکمت، تدبیر، صنعت، قدرت اور دوسری صفات کی بھی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں :”انسان کا اپنا وجود اور اس کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی ک طرح دن رات کا م میں لگا رہتا ہے، جو غذا کو پیس کر ایک مغلوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے تم بھوک کہتے ہیں۔ اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے، جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی ، کھینچنے والی مشینیں اورق وتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے کرنے والی کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے خارج کردیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر مجبور ہوجاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑجا ات ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک لاگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کیساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ (پھر سننے ، سونگھنے، چکھنے، سوچنے، سجھنے، یاد رکھنے، محسوس کرنے، سونے، جاگنے، بولنے اور دوسرے بیشمار افعال کے نظام ہیں جن میں سے ہر ایک پر غور کیا جائے تو آدمی حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے) انسان کا جسم ابتدا ہی سے حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے ، مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز ہی میں ہیں۔“ (تیسیرا القرآن) (3) ”وفی الارض ایت“ میں آفاقی آیات کا ذکر ہے اور ”وفی انفسکم“ میں انفسی آیات کا۔ مزید دیکھیے حم السجدہ (53)۔
Top