Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہاری اپنی جانوں میں بھی (اے لوگو) تو کیا تمہیں دکھلائی نہیں دیتا ؟
[ 16] دلائل انفسی میں دعوت غور و فکر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور خود تمہاری جانوں میں بھی اے لوگو ! سو تم دیکھو اور غور کرو کہ ان کے ظاہر میں اور باطن میں بھی کہ عجائب ہیں جو قدرت نے ان میں رکھے ہیں، سو تم ذرہ اپنے اس ظاہر و باطن اور اپنے آغاز آفرینش پر گور تو کرو، کہ کس طرح خدائے قدیر و حکیم نے ایک حقیقی بوند سے تمہاری تخلیق و پیدائش کا آغاز فرمایا، اور پھر تمہیں مختلف اطوار و مراحل سے گزار کر کہاں پہنچایا، اور تمہیں ایک بھلا چنگا انسان بنا کھڑا کیا، اور تمہیں گونا گوں ظاہری اور باطنی نعمتوں اور صلاحیتوں سے آراستہ و پیراستہ کیا، تو پھر اس کیلئے تمہیں دوبارہ پیدا کردینا آخر کیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اپنی ذات کے اس عظیم الشان مدرسہ علم و حکمت اور کارگہء فکر و بصیرت میں جھانک کر دیکھنا اور اس سے درس عبرت و بصیرت لینا تو تمہارے لئے مشکل نہیں اور نہ ہی اس کیلئے تم لوگوں کو کوئی سفر کرتا یا مشقت اٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سو اگر تم لوگ خود اپنے نفسوں میں اور اپنے باطن کی دنیا میں جھانک کر دیکھو گے تو تم کو ہر روز اپنے اندر زندگی موت برزخ اور بعث بعد موت کے نمونے نظر آئیں گے مگر ضرورت صحیح طور پر غور و فکر کی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، [ 17] انسانوں کے دل و دماغ پر ایک دستک کا ذکر وبیان : سو اس سے دعوت فکر کے لئے انسان کے دل و دماغ پر ایک دستک دی گئی۔ چناچہ دلائل نفسی میں غور وفکر سے کام لینے اور درس عبرت حاصل کرنے کے لئے انسان کے دل و دماغ پر دستک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں کو کچھ دکھتا نہیں ؟ کہ تم ہر سو پھیلے ہوئے ان دلائل کے علاوہ خود اپنی جانوں میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے، اور اس دلہپ مطلق۔ جل جلالہٗ وعم نوالہٗ ۔ کی یاد دلشاد سے غافل رہتے ہو ؟ اور اس کی اطاعت و بندگی کی پرواہ نہیں کرتے، والعیاذ باللّٰہ، تو کیا تم لوگ کائنات کی اس حکمتوں بھری کھلی کتاب کے علاوہ خود اپنی جانوں میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے کہ تمہاری آنکھیں کھل سکیں، اور تم غفلت کی نیند سے چونک کر راہ حق و صواب کو اپنا سکو، اور اس ہلاکت و تباہی کی راہ سے بچ کر خود اپنی بھلائی کا سامان کرسکو، انسان کا نفس چونکہ انسان کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے ضمیروں پر دستک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا { افلا تبصرون } کیا تم لوگوں کو اتنا بھی نہیں سوجھتا ؟ اور کیا اتنی قریب کی نشانیاں بھی تم کو نظر نہیں آتیں ؟ یعنی زمین کے اطراف و اکناف اگر تم لوگوں کے حیطہ علم و ادراک سے باہر ہیں، آسمان کی بلندیاں اگر تمہاری دسترس سے باہر ہیں، تو کیا تمہارے نفس بھی تمہارے دائرہ غور و فکر سے باہر ہیں ؟ اور کیا تم ان کے اندر بھی جھانک کر ان نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتے ؟ جو تمہارے خالق ومالک نے ان کے اندر ودیعت فرمائی ہیں ؟ جل جلالہٗ وعم نوالہٗ ۔
Top