Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 73
قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ١ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَتَعْجَبِيْنَ : کیا تو تعجب کرتی ہے مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم رَحْمَتُ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَبَرَكٰتُهٗ : اور اس کی برکتیں عَلَيْكُمْ : تم پر اَهْلَ الْبَيْتِ : اے گھر والو اِنَّهٗ : بیشک وہ حَمِيْدٌ : خوبیوں والا مَّجِيْدٌ : بزرگی والا
فرشتوں نے کہا ، “ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والو ، تم لوگوں پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے
بیشک امر الٰہی میں تعجب کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اگر ایک روٹین کسی حکم کے مطابق چل رہی ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس عادت اور حکم کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب اللہ کی حکمت چاہے تو یہ روٹین بدل بھی سکتی ہے۔ یہاں اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھرانے پر رحم کرتے ہوئے اس کو بدلا لیکن جب ہمیں بظاہر نظر آتا ہے کہ واقعات کی روٹین بدل گئی ہے اور کوئی واقعہ خلاف عادت ہے تو بھی دراصل وہ ایک گہری عادت کے مطابق ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمیں سنن الہیہ کا بالاستیعاب علم حاصل نہیں ہے۔ اس کی حدود بہت ہی وسیع ہیں۔ ہم تو ایک حد تک حقائق کو دیکھ سکتے ہیں اور یہ حد بہت ہی مختصر اور محدود ہوتی ہے جبکہ ہم واقعات کی حقیقت کا استقراء اور استیعاب کرنے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ ذات باری کی قدرت و حکمت کو اپنے علم کے محدود پیمانے سے ناپتے ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ جو اللہ کی مشیت کو خود اللہ کے بنائے ہوئے قواعد میں محدود کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ ذات باری کی ماہیت اور حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت خود اللہ کے بنائے ہوئے قواعد سے بھی آزاد ہے ، اللہ کی مشیت خود اللہ کے بنائے ہوئے نوامیس قدرت کی پابند بھی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو ان قوانین قدرت کے مطابق چلاتا ہے جو اس نے اس جہاں کے لیے تیار کیے ہیں لکین یہ ایک علیحدہ بات ہے اور یہ کہنا کہ اللہ کی مشیت قوانین طبیعہ کی پابند ہے تو یہ ایک دوسری بات ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قوانین طبیعہ ٹھیک ٹھیک چلتے ہیں اورو لیکن ہر مرتبہ ان کا جزئی عمل جو اثرات مرتب کرتا ہے وہ اللہ کے حکم سے کرتا ہے۔ یہ اثرات خود کار طور پر نہیں ہوتے تو اگر کسی موقعہ پر اللہ تعالیٰ یہ حکم کر دے کہ کوئی جزوی طبیعی عمل وہ اثرات نہیں ظاہر کرے گا تو ایسا نہ ہوگا اور پھر ہم یہ نہ کہیں گے کہ اللہ کا قانون قدرت بدل گیا ہے بلکہ درست یہ ہوگا کہ قانون قدرت اب یہ ہے کو خارق عادت نظر آتا ہے۔ لہذا نوامیس قدرت اور قوانین طبیعت دراصل اللہ کے ارادے کا مظہر ہوتے ہیں جب اللہ کا ارادہ کچھ اور چاہتا ہے تو وہ اور قانون قدرت بن جاتا ہے۔ اصل قانون قدرت اللہ کا بےقید ارادہ ہے۔ چناچہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مطمئن ہوگئے کہ یہ اللہ کے نمائندگان قدرت ہیں اور پھر وہ اس پر بھی مطمئن ہوگئے کہ ان کے لیے یہ لوگ جو خوشخبری لائے ہیں وہ بھی لازماً متحقق ہونے والی ہے۔ لیکن وہ ان حالات میں بھی حضرت لوط اور ان کی قوم کو نہ بھولے کیونکہ وہ ان کے بھائی تازح کے بیٹے تھے اور ان کے قریب ہی رہائش پذیر تھے۔ اب چونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اللہ نے جن لوگوں کو بھیجا ہے وہ تو قوم لوط (علیہ السلام) کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں گے اور حضرت ابراہیم نہایت ہی مشفق اور رحم دل تھے۔ چناچہ قوم لوط (علیہ السلام) کے بارے میں فرشتوں سے یہ مکالمہ شروع کردیا۔
Top