Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہے، کیا تم دیکھتے نہیں
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ۔ (الذریٰت : 21) (اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہے، کیا تم دیکھتے نہیں۔ ) انفس میں جزاء و سزا کی بعض نشانیاں یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں، خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اسی حقیقت پر گواہی دینے والی بیشمار نشانیاں مل جائیں گی۔ کس طرح ایک خوردبینی کیڑے اور ایسے ہی ایک خوردبینی انڈے کو ملا کر ماں کے ایک گوشہ ٔ جسم میں تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی۔ کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کرکے بتدریج بڑھایا گیا۔ کس طرح تمہیں ایک بینظیر ساخت کا جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا۔ کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خودکار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روزپیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے، غذا ہضم کرنے، اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے، حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لیے سلا دینے تک کا کام خودبخود کیے جاتی ہے بغیر اس کے کہ تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو۔ ایک عجیب دماغ تمہارے کاسہ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کی پیچیدہ تہوں میں عقل، فکر، تخیل، شعور، تمیز، ارادہ، حافظہ، خواہش، احساسات و جذبات، میلانات و رجحانات اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے۔ بہت سے ذرائع علم تم کو دیئے گئے ہیں جو آنکھ، ناک، کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ سے تم اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرسکتے ہو۔ اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری اَنا کو ایک رئیس بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں قائم کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات، محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے، کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے، کس چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا۔ اب کیا کوئی شخص جس کی آنکھیں بالکل پھوٹ نہ گئی ہوں، یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقاً وجود میں آگئی ہے ؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کارفرما نہیں ہے ؟ زمین پر اس کے ہاتھوں یہ سارے ہنگامے جو برپا ہورہے ہیں سب بےمقصد ہیں اور بےنتیجہ ہی ختم ہوجانے والے ہیں ؟ کسی بھلائی کا کوئی ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں ؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی بازپرس نہیں ؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہے کہ تخلیقِ انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے۔ مگر ایک غیرمتعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو جس طرح، جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو حیثیت اس کو یہاں دی گئی ہے وہ یقینا ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے اور جس خدا کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازماً یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی بازپرس ہو اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خوردبینی خلیے سے شروع کرکے اس مرتبے تک پہنچا چکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لاسکے گا۔ (تفہیم القرآن)
Top