Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور وہ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنی چاہت کی چیز،
مشرکین کی بھونڈی تجویز، اللہ کے لیے بیٹیاں اور اپنے لیے بیٹے تجویز کرتے ہیں خود ان کے یہاں بیٹی پیدا ہونے کی خبر مل جائے تو چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے مشرکین جو شرک کرتے ہیں اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مال کا کچھ حصہ باطل معبودوں کے لیے مقرر کردیتے ہیں جس کی تفسیر سورة انعام کی آیت (وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ ) (الی اخر الایۃ) میں گزر چکی ہے۔ مال تو دیا اللہ نے اس میں شریک کردیا باطل معبودوں کو اور اوپر سے یوں کہتے ہیں کہ ایسا کرنا درست ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے، اس لیے فرمایا (تَاللّٰہِ لَتُسْءَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ ) (کہ اللہ کی قسم تم سے افتراء پردازیوں کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا اور سورة انعام میں فرمایا (سَیَجْزِیْھِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (وہ عنقریب ان کی افتراء پردازیوں کا بدلہ دے گا۔ ) اس کے بعد مشرکین کا ایک اور شرکیہ عقیدہ بیان فرمایا اور وہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں (العیاذ باللہ) نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتایا اور یہودیوں نے کہا کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور مشرکین مکہ نے کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اول تو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا ہی شرک ہے وہ اس سے بالا اور برتر ہے کہ اس کی اولاد ہو، سورة مریم میں فرمایا (وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (یہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ اولاد اختیار کرے) صحیح بخاری ص 744 ج 2 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نے مجھے گالی دی اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ یوں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے حالانکہ میں بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں جنا گیا اور نہ کوئی میرے برابر ہے، مشرکین کی بھونڈی عقل تو دیکھو کہ اول تو اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد بتا کر مشرک ہوئے پھر جو اولاد تجویز کی وہ بھی لڑکی، جبکہ اپنے ہاں لڑکی کا پیدا ہونا برا سمجھتے ہیں اور اپنے لیے لڑکوں کو پسند کرتے ہیں، سورة زخرف میں فرمایا (وَجَعَلُوا الْمَلآءِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِِنَاثًا) (اور انہوں نے فرشتوں کو جو کہ خدا کے بندے ہیں عورت قرار دے رکھا ہے) اپنے لیے لڑکیاں پسند نہیں کرتے اور اللہ کی اولاد تجویز کرنے بیٹھے تو لڑکیاں تجویز کردیں۔ سورة زخرف میں فرمایا (اَوَمَنْ یُّنَشَّاُ فِی الْحِلْیَۃِ وَھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ ) (کیا اللہ نے اپنی اولاد بنانے کے لیے لڑکی کو پسند فرمایا جو زیور میں نشوونما پائے اور جو جھگڑے میں قوت بیان نہ رکھتی ہو) صنف ضعیف کو اللہ کی بیٹیاں بتا رہے ہیں، بیوقوفی کی انتہا ہے۔ اللہ کے لیے تو بیٹیاں تجویز کردیں اور اپنا حال یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کو خبر ملے کہ اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس خبر سے اس کا چہرہ سیاہ یعنی بےرونق ہوجاتا ہے اور دل میں گھٹا گھٹا پھرتا رہتا ہے، لوگوں کے سامنے آنے میں عار محسوس کرتا ہے اور چھپا چھپا پھرتا ہے کہ لوگ یہ عیب نہ لگائیں کہ تیرے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے اور ساتھ ہی اس فکر میں پڑجاتا ہے کہ ذلت برداشت کرتے ہوئے اسے روکے رکھوں یا عار سے بچنے کے لیے زمین میں گاڑ دوں، پھر ہوتا یہ تھا کہ بچی کو زندہ دفن کردیتے تھے اور رواج کی وجہ سے لوگوں کے سامنے آکر اپنے کو باعزت قرار دیتے تھے گویا انہوں نے بہت بڑا عزت کا کارنامہ انجام دیا کہ اپنی لڑکی کو زندہ دفن کردیا سورة تکویر میں فرمایا (وَاِِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُءِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ) (اور جب زندہ دفن کی ہوئی بچی کے بارے میں سوال کیا جاوے گا کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی) عرب جن جہالتوں میں مبتلا تھے ان میں سے ایک یہ جہالت بھی تھی۔ رواج نے انہیں سخت دل بنا دیا اپنی زندہ بچی کو دفن کرتے ہوئے ذرا رحم نہیں آتا تھا عورت اسلام سے پہلے بالکل بےحیثیت تھی، اس سے بڑی بےآبروئی کیا ہوگی، کہ بچی پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردی جاتی تھی، اور ہندوستان میں تو یہ حال تھا کہ شوہر مرجاتا تھا تو عورت کو اس کے ساتھ زندہ جلنا پڑتا تھا اسلام نے عورت کو مرتبہ عطا فرمایا ہے اس کے حقوق بتائے بچیوں کی پرورش کا ثواب بتایا اسے عزت کے ساتھ گھر میں رہنے کا حکم دیا پھر بھی عورتوں کی ناسمجھی پر افسوس ہے کہ دور حاضر کے ملحدوں اور زندیقوں کی باتوں سے متاثر ہو کر اپنی ذات کو بےآبرو کر رہی ہیں بےپردہ پھرنے میں گندی زندگی گزارنے میں ہنر سمجھتی ہیں شوہروں کے بجائے دوست تلاش کرتی پھرتی ہیں آخر میں فرمایا (اَلَاسَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ ) (خبر دار ان کے فیصلے برے ہیں) اول تو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرنا ہی بہت بڑی حماقت اور سفاہت ہے پھر اولاد بھی تجویز کی تو ایسی چیز تجویز کی جسے اپنے لیے سبب ذلت اور موجب عار سمجھتے ہیں۔
Top