Mazhar-ul-Quran - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور ( فرشتوں کو) اللہ کے لئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں، وہ پاک ہے اور اپنے لئے جو دل چاہتا ہے مقرر کرتے ہیں (یعنی فرزند)
مشرکین اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ان آیات میں مشرکوں کی دو بےوقوفیوں کا ذکر فرمایا : (1) ایک تو یہ کہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اس کے جوا اب میں ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی ذات جمیع عیوب سے پاک ہے، نہ اس کو پسر کی حاجت ہے نہ دختر کی ضرورت ہے۔ یہ بےہودہ باتیں ہمارے احسان کے صلہ میں کرتے ہیں جو ہم ان کی تمنا پوری کرتے ہیں اور خدا کی عطا کردہ جیز سے ناخوش ہونا طریقہ کفار اہل اسلام کا خدا کے عطیہ پر راضی رہنا واجب بلکہ فرض ہے۔ (2) دوسرے کفار کی یہ عادت تھی کہ دختر پیدا ہو کر چھ برس کے اندر اپنی موت آپ مر گئی تو خیر ورنہ جنگل میں گڑھا کھود کر اچھے کپڑے پہنا کر اس لڑکی کو گڑھے میں دبا آتے تھے یعنی زندہ درگور کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی سب باتیں ان کے حق میں نہایت مضر ہیں کیونکہ لڑکی کو زندہ دگور کرنا نتیجہ بد کھائے گا۔ بیٹی اللہ کی رحمت : صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ جو شخص لڑکی کے پالنے اور اس کی شادی بیاہ کرنے کا بوجھ اٹھاوے تو عاقبت میں وہ لڑکی دوزخ کی آگ کی ڈھال بن جاوے گی۔ لڑکی کو محبت سے پالنے پر اجر کا وعدہ اسلام میں آیا ہے۔
Top