Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور ٹھہراتے ہیں42 اللہ کے لیے بیٹیاں وہ اس سے پاک ہے اور اپنے لیے جو دل چاہتا ہے
42:۔ یہ زجر ہے مشرکین کے بعض قبائل (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے مگر ان کا اپنا حال یہ تھا کہ وہ خود بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ” سبحنہٗ “ یہ مشرکین کے قول باطل کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بےنیاز اور اولاد سے پاک ہے۔ مشرکین فرشتوں کو خدا کی صلبی بیٹیاں مانتے تھے۔ بلکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جس طرح بیٹیاں باپ کو بہت عزیز ہوتی ہیں اور باپ ان کی کوئی بات رد نہیں کرتا اسی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو ضرور مان لیتا ہے اور رد نہیں کرتا جیسا کہ ” و یجعلون للہ البنات “ کی تعبیر بتا رہی ہے یعنی وہ اللہ کے لیے بیٹیاں بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں سورة زخرف رکوع 2 میں مشرکین کا قول اس طرح بیان کیا گیا ہے ” ام اتخذ مما یخلق بنت و اصفکم بالبنین “ اتخاذ بنات یعنی بیٹیاں بنا لینا کی تعبیر بتا رہی ہے کہ وہ فرشتوں کو صلبی بیٹیاں نہیں بلکہ بیٹیوں کی مانند سمجھتے تھے۔
Top