Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ
: اور وہ بناتے (ٹھہراتے)
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
الْبَنٰتِ
: بیٹیاں
سُبْحٰنَهٗ
: وہ پاک ہے
وَلَهُمْ
: اور اپنے لیے
مَّا
: جو
يَشْتَهُوْنَ
: ان کا دل چاہتا ہے
اور ٹھہراتے ہیں یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں ، پاک ہے اس کی ذات ، اور اپنے لیے وہ کچھ جو وہ چاہتے ہیں ۔
(ربط آیات) گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے دو خدا ماننے والے مجوسیوں یا ثنوی فرقے والے مشرکوں کا رد فرمایا ، پھر مطلق شرک کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی کہ وہ اپنی کمائی میں سے غیر اللہ کے تقرب کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ، فرمایا نعمتیں تو ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں تو اس میں سے دوسروں کا حصہ نکالنے کا کیا مطلب ؟ تکلیف تو اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے مگر نذر ونیاز اغیار کی دی جاتی ہے ، فرمایا یہ لوگ اس چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھالیں ، آگے چل کر انہیں پتہ چل جائے گا جو یہ افتراء کیا کرتے تھے ۔ (خدا کے لیے بیٹیاں) اب اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی ایک اور قسم کا رد فرمایا ہے فرمایا (آیت) ” ویجعلون للہ البنت “۔ اور ٹھہراتے ہیں یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں ، پھر ان کو دیویاں مان کر ان کی پوجا کرتے ہیں اور حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں ، دیویوں کا تصور عربوں کے علاوہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا تھا ، مثلا ہندوؤں میں کلکتے والی کالی دیوی مشہور ہے جس کے نام پر کلکتہ میں مندر بھی بنا ہوا ہے ، یہاں پر انسانوں ، خاص طور پر چھوٹے بچوں کو کالی دیوی کی بھینٹ (قربانی) چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور وہ لوگوں پر قہر کا باعث نہ بنے ، اسی طرح یونانی زہرہ ستارے کو دیوی مانتے تھے ، اور اس کے نام پر مندر بھی بنا رکھا تھا ، ان کا عقیدہ تھا ۔ بعتاب زفس قارورتان ذی لخیر وذی لشر الھون : یعنی زہرہ دیوی کی دہلیز پر قسمت کی دو شیشیاں رکھی ہیں ان میں سے ایک بوتل میں خیر ہے اور دوسری میں شر ہے گویا یہ دیوی خیر وشر کی مالکہ ہے ، پرانے آشوریوں میں بھی اس قسم کا تصور پایا جاتا تھا ، عرب کے بعض قبائل بنو خزاعہ وغیرہ فرشتوں کی خدا کی بیٹیاں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ جننیاں (مادہ جن) ان کی مائیں ہیں ، اسی باطل عقیدے کے متعلق اللہ نے سورة الصفت میں فرمایا ہے (آیت) ” وجعلوابینہ وبین الجنۃ نسبا “۔ ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری قائم کر رکھی ہے ، گویا جنات خدا تعالیٰ کے سسرال ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں فرشتے پیدا ہوتے ہیں جو خدا کی بیٹیاں ہیں ۔ فرمایا ، دیکھو ، یہ کتنا باطل عقیدہ ہے حقیقت میں سبحنہ ‘ خدا تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے ، خدا کی طرف اولاد کی نسبت کرنا نہایت ہی گستاخی اور بےادبی کی بات ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی شان رفیع کے بالکل خلاف ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور اولاد ہو ، تو فرمایا اللہ تعالیٰ کے لیے تو بیٹیوں کا تصور رکھتے ہیں (آیت) ” ولھم ما یشتھون “۔ اور اپنے لیے وہ کچھ چاہتے ہیں جو انہیں پسند ہے یعنی خدا کی بیٹیوں کے میں اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں جو کہ ویسے بھی عقل کے خلاف ہے فارسی کا مقولہ ہے ” آنچہ برخود نہ پسندی “ بردیگرنہ پسندی ‘ یعنی جو چیز خود پسند نہیں کرتے ، وہ دوسروں کے لیے کیسے گوارا کرتے ہو ؟ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بعض عرب قبائل کے اس غم وغصہ کا ذکر کیا ہے جس کا اظہار وہ اپنی بیٹی کی پیدائش پر کیا کرتے تھے (آیت) ” واذا بشر احدھم بالانثی “۔ اور جب انہیں بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے یعنی کسی شخص کے گھر بیٹی ہوتی اور اس بات کی اطلاع اسے دوران مجلس دی جاتی ، تو پھر اس کی حالت یہ ہوتی (آیت) ” ظل وجھہ مسودا “۔ اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ، یہ خبر اس پر بجلی بن کر گرتی کہ وہ ایک بیٹی کا باپ بنا گیا ہے (آیت) ” وھو کظیم “۔ اور وہ غم سے نڈھال ہوجاتا ، اللہ نے فرمایا کہ بیٹی کی پیدائش پر ان مشرکین کی یہ حالت ہوجاتی ہے مگر انہی بیٹیوں کی نسبت اللہ کی طرف کرنے میں ذرا شرم نہیں کھاتے ، اور پھر وہ اپنی اس بدنامی کے مزعومہ داغ کو دھونے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” یتواری من القوم من سوء مابشربہ “۔ پھر وہ اس بری خبر کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے کسی کو اپنا منہ نہیں دکھانا چاہتا کہ لوگ کہیں گے اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے اس شرم کے بارے میں وہ اپنی بستی اور گھر بار بھی چھوڑ بیٹھتے ، چناچہ امام جاخط نے ” البیان والتبیین “ میں ایک عورت کے چند اشعار لکھے ہیں جن میں اسی قبیح صورت حال کو بیان کیا گیا ہے بچی کی پیدائش پر جب اس کا خاوند گھر بار ہی چھوڑ بیٹھتا ہے ، تو وہ اسے اس طرح خطاب کرتی ہے ۔ مالا بی ھمزۃ لا یاتینا یبیت فی بیت التی تلینا ۔ اے ابوہمزہ ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو ہمارے پاس نہیں ۔ آتا بلکہ پڑوسیوں کے گھر میں رہتا ہے ۔ غضبان الا نلد البنینا تاللہ ماذاک بایدینا : تو اس بات سے ناراض ہے کہ ہم بچے نہیں جنتیں حالانکہ خدا کی قسم یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے ۔ نحن کزرع لما قد زرعوافینا : ہم عورتیں تو کھیتی کی مثال ہیں کہ جیسا بیج پڑتا ہے ویسی ہی پیدا وار ہوتی ہے ۔ (بیٹی سے گلوخلاصی) وہ بدنصیب جو بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہوجاتا ہے ، اس سے گلوخلاصی کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے اپنے دل میں سوچتا ہے (آیت) ” ایمس کہ علی ھون “۔ کیا میں ذلت برداشت کرتے ہوئے بیٹی کو روک رکھوں (آیت) ” ام یدسہ فی التراب “۔ یا اسے مٹی میں داب دوں ، وہ بیوقوف لوگ بیٹی کو اس لیے باعث ذلت سمجھتے تھے کہ بڑی ہوگی تو اس کی شادی ہوگی اور پھر لوگ کہیں گے کہ یہ فلاں کا داماد ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی تو کسی عورت ہی کا جنا ہوا ہے اگر عورت نہ ہوتی تو اس کی اپنی پیدائش کب ممکن ہوتی ، وہ لوگ محض خودساختہ جاہلانہ غیرت کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے فرمایا (آیت) ” الا سآء مایحکمون “۔ دیکھو یہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں ، بہرحال سارے عرب بچیوں کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک نہیں کرتے تھے بلکہ چند قبائل بنوخزاعہ ، بنی کنانہ ، مضر اور بنو تمیم تھے جو عام طور پر بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زندہ درگور) اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب بچی چھٹے سال میں پہنچتی تو اس کو خوب نہلا دھلا کر اور نئے کپڑے پہنا کر باہر جنگل میں لے جاتے اور پھر اس مقصد کے لیے پہلے سے کھودے گئے گڑھے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دیتے بعض بدبخت پانی میں ڈبوکر ہلاک کردیتے یا کسی پہاڑی سے نیچے گرا دیتے بہرحال نومولود بچیوں کا یہ قتل عربوں میں رائج تھا ، اس کی سینگنی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة التکویر میں کیا ہے (آیت) ” واذا الموء دۃ سئلت بای ذنب قتلت “۔ قیامت والے دن زندہ درگور ہونے والی بچی سے پوچھا جائے گا بتا ، تجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ، ان بےنصیبوں کو اس وقت پتہ چلے گا ، جب انہیں اس ظلم کا ازالہ کرنا پڑے گا ، حضور ﷺ کے صحابی حضرت قیس ؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں ، بہت پریشان رہتا ہوں ، وجہ یہ ہے کہ میں جاہلیت کے دور میں آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوں مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ میں کتنے بڑے ظلم کا مرتکب ہوا ہوں ، آپ ﷺ نے تسلی دیتے ہوے فرمایا کہ اسلام پہلے سے کئے گئے گناہوں کو منہدم کردیتا ہے ، اب تمہارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرو ، نیز ہر زندہ درگور کردہ بچی کے عوض ایک غلام آزاد کرو ، اس شخص نے عرض کیا حضور ! میرے پاس غلام نہیں ہیں جو آزاد کرسکوں ، البتہ میرے پاس جانور ہیں ، آپ نے فرمایا ہر بچہ کے بدلہ ایک اونٹ ہدی کر دو ، شاید کہ بارگاہ رب العزت میں کچھ کفارہ بن جائے ، تاہم عام قانون یہ ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کردہ گناہوں پر گرفت نہیں ہوگی ، امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ جب سے اسلام لایا ہوں ، سخت پریشانی میں مبتلا ہوں حتی کہ راتوں کو نیند بھی اچاٹ ہوگئی ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں بچی پیدا ہوئی جس کا میں نے بہت برا منایا ، تاہم میں نے اس کو زندہ رہنے دیا پھر جب وہ چھٹے سال میں داخل ہوئی ، تو میں نے اس کی ماں سے کہا کہ اسے نہلاؤ ، اچھے کپڑے پہناؤ سرمہ لگاؤ ، اور خوب زینت کا سامان کرو ، پھر جب وہ تیار ہوگئی تو میں لے کر جنگل کی طرف چل دیا ، میں اسے ایک گہرے گڑھے پر لے گیا جو میں نے اس مقصد کے لیے پہلے ہی کھود رکھا تھا میں نے بچی سے کہا کہ ذرا اس کنوئیں میں جھانک کر تو دیکھو جونہی اس نے ادھر توجہ کی میں نے پیچھے سے دھکا دے کر اسے کنوئیں میں گرا دیا وہ بڑی چیخی چلائی اور ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی مگر میں نے اوپر سے مٹی ڈال کر اسے زندہ گاڑھ دیا ، مجھے یہ حرکت بہت پریشان کر رہی ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہوں کے متعلق اب سوائے استغفار کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ، یا پھر صدقہ خیرات کرو ، غلام آزاد کرو یا جانوروں کی ہدی پیش کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور ہو ۔ (رحمدلی کی مثال) حضرت علی ؓ کے زمانہ میں عرب کے دو مشہور شاعر فرزدق اور جریر ہوئے ، دونوں مسلمان تھے مگر خاندانی عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور ایک دوسرے کی ہجو بیان کیا کرتے تھے ، ان میں سے فررزدق کے متعلق آتا ہے کہ اس کا دادا صعصعۃ ؓ عنہحضور ﷺ کا صحابی تھا ، زمانہ جاہلیت میں اس میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ جہاں کہیں اسے پتہ چلتا کہ فلاں شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اور وہ اسے زندہ درگور کرنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کے پاس جاتا ، اسے بچی کے عوض دو اونٹ اور کچھ مال دے کر بچی کو حاصل کرکے اس کی جان بچا لیتا کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں اس نے تین سو ساٹھ بچیوں کی جان بچائی ، اللہ نے اس زمانہ جاہلیت میں بھی اس شخص کے دل میں ایسی شفقت پیدا کردی تھی مگر بچیوں کو قتل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی جو بچی کی پیدائش کو بدنامی کا باعث سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی واقعات کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ فرمایا ہے کہ جب انہیں بچی کی پیدائش کی خبر ملتی تو ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتا اور سوچنے لگتے کہ ایسی بچیوں کو زندہ رکھ کر بدنامی مول لی جائے یا اسے زندہ درگور کردیا جائے ۔ (جہیز کی لعنت) مفسرین کرام (آیت) ” ام یدسہ فی التراب “۔ کے دو مطلب بیان کرتے ہیں ایک مطلب تو پہلے بیان ہوچکا ہے کہ وہ لوگ اپنی نام نہاد و غیرت کی بنا پر بچیوں کو قتل کردیتے تھے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنی اولادوں کو قتل کردیتے تھے ، کہتے تھے کہ ان کو کما کر کون کھلائے گا اللہ نے ایسے ہی باطل خیال کا رد کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ولا تقتلوا اولادکم من املاق “۔ (سورۃ انعام) یعنی اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کرو جو خدا تعالیٰ تمہیں روزی دے رہا ہے وہ ان کے لیے بھی بندوبست کریگا ، اسی طرح پنجاب میں بچیوں کے نکاح میں جہیز کا مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے ، والدین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کا نکاح نہیں کرسکتے اور اسی انتظار میں بچیوں کو روک لیا جاتا ہے ، بعض والدین بچیوں کو خالی ہاتھ رخصت کرنے میں اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اب بعض لڑکے والے لمبے چوڑے جہیز کا مطالبہ کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیوں کی عمر برباد ہوجاتی ہے ، اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے تاکہ بچے بچیوں کے نکاح سنت کے مطابق سادگی سے انجام پائیں اور لوگوں کو جہیز کی لعنت سے نجات حاصل ہوجائے ، (عورت نصف انسانیت ہے) عورت کو ذلیل اور حقیر سمجھنا سخت جہالت کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے جنسی تفریق پیدا کردی ہے ، کسی کو مرد بنایا ہے اور کسی کو عورت ، کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر حقیر سمجھے کسی کو لڑکا دے یا لڑکی ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے ، یہ اللہ کی مصلحت کے مطابق ہوتا ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، تاہم عورت نصف انسانیت ہے ، متمدن دنیا میں عورت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مرد کی ، اگر مرد کو اللہ نے عورت پر فوقیت عطا فرمائی ہے تو اسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ، نہ کہ عورت کو ذلیل سمجھے ، اللہ عورت کے لیے بھی خاص احکام مقرر فرمائے ہیں اور اس کو خاص فرائض سونپے ہیں ، قانون کی نظر میں وہ بھی مرد کی طرح باعزت ہے ، اس کو بھی آرام و راحت کی ضرورت ہے جس طرح مرد کو نسل انسانی کی بقا کے لیے عورت اور مرد دونوں کی ضرورت ہے ، لہذا بچی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوش ہونا چاہئے جس طرح بچے کی ولادت پر ۔ فرمایا (آیت) ” للذین لا یؤمنون بالاخرۃ مثل السوء “۔ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کی بری مثال ہے جبھی تو وہ حقیر و ذلیل کام کرتے ہیں (آیت) ” وللہ المثل الاعلیٰ “۔ اور اللہ ہی کی مثال بلندو برتر ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے ، نہ اس کی بیوی ہے نہ بچے ، وہ غنی ، صمد اور بےنیاز ہے (آیت) ” وھو العزیز الحکیم “۔ وہ کمال قدرت اور حکمت کا مالک ہے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں ٹھہرانا باطل عقیدہ ہے ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا ذہنی پس منظر بیان فرمایا ہے ۔
Top