Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور ٹھہراتے ہیں یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں ، پاک ہے اس کی ذات ، اور اپنے لیے وہ کچھ جو وہ چاہتے ہیں ۔
(ربط آیات) گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے دو خدا ماننے والے مجوسیوں یا ثنوی فرقے والے مشرکوں کا رد فرمایا ، پھر مطلق شرک کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی کہ وہ اپنی کمائی میں سے غیر اللہ کے تقرب کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ، فرمایا نعمتیں تو ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں تو اس میں سے دوسروں کا حصہ نکالنے کا کیا مطلب ؟ تکلیف تو اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے مگر نذر ونیاز اغیار کی دی جاتی ہے ، فرمایا یہ لوگ اس چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھالیں ، آگے چل کر انہیں پتہ چل جائے گا جو یہ افتراء کیا کرتے تھے ۔ (خدا کے لیے بیٹیاں) اب اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی ایک اور قسم کا رد فرمایا ہے فرمایا (آیت) ” ویجعلون للہ البنت “۔ اور ٹھہراتے ہیں یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں ، پھر ان کو دیویاں مان کر ان کی پوجا کرتے ہیں اور حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں ، دیویوں کا تصور عربوں کے علاوہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا تھا ، مثلا ہندوؤں میں کلکتے والی کالی دیوی مشہور ہے جس کے نام پر کلکتہ میں مندر بھی بنا ہوا ہے ، یہاں پر انسانوں ، خاص طور پر چھوٹے بچوں کو کالی دیوی کی بھینٹ (قربانی) چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور وہ لوگوں پر قہر کا باعث نہ بنے ، اسی طرح یونانی زہرہ ستارے کو دیوی مانتے تھے ، اور اس کے نام پر مندر بھی بنا رکھا تھا ، ان کا عقیدہ تھا ۔ بعتاب زفس قارورتان ذی لخیر وذی لشر الھون : یعنی زہرہ دیوی کی دہلیز پر قسمت کی دو شیشیاں رکھی ہیں ان میں سے ایک بوتل میں خیر ہے اور دوسری میں شر ہے گویا یہ دیوی خیر وشر کی مالکہ ہے ، پرانے آشوریوں میں بھی اس قسم کا تصور پایا جاتا تھا ، عرب کے بعض قبائل بنو خزاعہ وغیرہ فرشتوں کی خدا کی بیٹیاں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ جننیاں (مادہ جن) ان کی مائیں ہیں ، اسی باطل عقیدے کے متعلق اللہ نے سورة الصفت میں فرمایا ہے (آیت) ” وجعلوابینہ وبین الجنۃ نسبا “۔ ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری قائم کر رکھی ہے ، گویا جنات خدا تعالیٰ کے سسرال ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں فرشتے پیدا ہوتے ہیں جو خدا کی بیٹیاں ہیں ۔ فرمایا ، دیکھو ، یہ کتنا باطل عقیدہ ہے حقیقت میں سبحنہ ‘ خدا تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے ، خدا کی طرف اولاد کی نسبت کرنا نہایت ہی گستاخی اور بےادبی کی بات ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی شان رفیع کے بالکل خلاف ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور اولاد ہو ، تو فرمایا اللہ تعالیٰ کے لیے تو بیٹیوں کا تصور رکھتے ہیں (آیت) ” ولھم ما یشتھون “۔ اور اپنے لیے وہ کچھ چاہتے ہیں جو انہیں پسند ہے یعنی خدا کی بیٹیوں کے میں اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں جو کہ ویسے بھی عقل کے خلاف ہے فارسی کا مقولہ ہے ” آنچہ برخود نہ پسندی “ بردیگرنہ پسندی ‘ یعنی جو چیز خود پسند نہیں کرتے ، وہ دوسروں کے لیے کیسے گوارا کرتے ہو ؟ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بعض عرب قبائل کے اس غم وغصہ کا ذکر کیا ہے جس کا اظہار وہ اپنی بیٹی کی پیدائش پر کیا کرتے تھے (آیت) ” واذا بشر احدھم بالانثی “۔ اور جب انہیں بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے یعنی کسی شخص کے گھر بیٹی ہوتی اور اس بات کی اطلاع اسے دوران مجلس دی جاتی ، تو پھر اس کی حالت یہ ہوتی (آیت) ” ظل وجھہ مسودا “۔ اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ، یہ خبر اس پر بجلی بن کر گرتی کہ وہ ایک بیٹی کا باپ بنا گیا ہے (آیت) ” وھو کظیم “۔ اور وہ غم سے نڈھال ہوجاتا ، اللہ نے فرمایا کہ بیٹی کی پیدائش پر ان مشرکین کی یہ حالت ہوجاتی ہے مگر انہی بیٹیوں کی نسبت اللہ کی طرف کرنے میں ذرا شرم نہیں کھاتے ، اور پھر وہ اپنی اس بدنامی کے مزعومہ داغ کو دھونے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” یتواری من القوم من سوء مابشربہ “۔ پھر وہ اس بری خبر کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے کسی کو اپنا منہ نہیں دکھانا چاہتا کہ لوگ کہیں گے اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے اس شرم کے بارے میں وہ اپنی بستی اور گھر بار بھی چھوڑ بیٹھتے ، چناچہ امام جاخط نے ” البیان والتبیین “ میں ایک عورت کے چند اشعار لکھے ہیں جن میں اسی قبیح صورت حال کو بیان کیا گیا ہے بچی کی پیدائش پر جب اس کا خاوند گھر بار ہی چھوڑ بیٹھتا ہے ، تو وہ اسے اس طرح خطاب کرتی ہے ۔ مالا بی ھمزۃ لا یاتینا یبیت فی بیت التی تلینا ۔ اے ابوہمزہ ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو ہمارے پاس نہیں ۔ آتا بلکہ پڑوسیوں کے گھر میں رہتا ہے ۔ غضبان الا نلد البنینا تاللہ ماذاک بایدینا : تو اس بات سے ناراض ہے کہ ہم بچے نہیں جنتیں حالانکہ خدا کی قسم یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے ۔ نحن کزرع لما قد زرعوافینا : ہم عورتیں تو کھیتی کی مثال ہیں کہ جیسا بیج پڑتا ہے ویسی ہی پیدا وار ہوتی ہے ۔ (بیٹی سے گلوخلاصی) وہ بدنصیب جو بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہوجاتا ہے ، اس سے گلوخلاصی کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے اپنے دل میں سوچتا ہے (آیت) ” ایمس کہ علی ھون “۔ کیا میں ذلت برداشت کرتے ہوئے بیٹی کو روک رکھوں (آیت) ” ام یدسہ فی التراب “۔ یا اسے مٹی میں داب دوں ، وہ بیوقوف لوگ بیٹی کو اس لیے باعث ذلت سمجھتے تھے کہ بڑی ہوگی تو اس کی شادی ہوگی اور پھر لوگ کہیں گے کہ یہ فلاں کا داماد ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی تو کسی عورت ہی کا جنا ہوا ہے اگر عورت نہ ہوتی تو اس کی اپنی پیدائش کب ممکن ہوتی ، وہ لوگ محض خودساختہ جاہلانہ غیرت کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے فرمایا (آیت) ” الا سآء مایحکمون “۔ دیکھو یہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں ، بہرحال سارے عرب بچیوں کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک نہیں کرتے تھے بلکہ چند قبائل بنوخزاعہ ، بنی کنانہ ، مضر اور بنو تمیم تھے جو عام طور پر بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زندہ درگور) اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب بچی چھٹے سال میں پہنچتی تو اس کو خوب نہلا دھلا کر اور نئے کپڑے پہنا کر باہر جنگل میں لے جاتے اور پھر اس مقصد کے لیے پہلے سے کھودے گئے گڑھے میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دیتے بعض بدبخت پانی میں ڈبوکر ہلاک کردیتے یا کسی پہاڑی سے نیچے گرا دیتے بہرحال نومولود بچیوں کا یہ قتل عربوں میں رائج تھا ، اس کی سینگنی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة التکویر میں کیا ہے (آیت) ” واذا الموء دۃ سئلت بای ذنب قتلت “۔ قیامت والے دن زندہ درگور ہونے والی بچی سے پوچھا جائے گا بتا ، تجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ، ان بےنصیبوں کو اس وقت پتہ چلے گا ، جب انہیں اس ظلم کا ازالہ کرنا پڑے گا ، حضور ﷺ کے صحابی حضرت قیس ؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں ، بہت پریشان رہتا ہوں ، وجہ یہ ہے کہ میں جاہلیت کے دور میں آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوں مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ میں کتنے بڑے ظلم کا مرتکب ہوا ہوں ، آپ ﷺ نے تسلی دیتے ہوے فرمایا کہ اسلام پہلے سے کئے گئے گناہوں کو منہدم کردیتا ہے ، اب تمہارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرو ، نیز ہر زندہ درگور کردہ بچی کے عوض ایک غلام آزاد کرو ، اس شخص نے عرض کیا حضور ! میرے پاس غلام نہیں ہیں جو آزاد کرسکوں ، البتہ میرے پاس جانور ہیں ، آپ نے فرمایا ہر بچہ کے بدلہ ایک اونٹ ہدی کر دو ، شاید کہ بارگاہ رب العزت میں کچھ کفارہ بن جائے ، تاہم عام قانون یہ ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کردہ گناہوں پر گرفت نہیں ہوگی ، امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ جب سے اسلام لایا ہوں ، سخت پریشانی میں مبتلا ہوں حتی کہ راتوں کو نیند بھی اچاٹ ہوگئی ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں بچی پیدا ہوئی جس کا میں نے بہت برا منایا ، تاہم میں نے اس کو زندہ رہنے دیا پھر جب وہ چھٹے سال میں داخل ہوئی ، تو میں نے اس کی ماں سے کہا کہ اسے نہلاؤ ، اچھے کپڑے پہناؤ سرمہ لگاؤ ، اور خوب زینت کا سامان کرو ، پھر جب وہ تیار ہوگئی تو میں لے کر جنگل کی طرف چل دیا ، میں اسے ایک گہرے گڑھے پر لے گیا جو میں نے اس مقصد کے لیے پہلے ہی کھود رکھا تھا میں نے بچی سے کہا کہ ذرا اس کنوئیں میں جھانک کر تو دیکھو جونہی اس نے ادھر توجہ کی میں نے پیچھے سے دھکا دے کر اسے کنوئیں میں گرا دیا وہ بڑی چیخی چلائی اور ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی مگر میں نے اوپر سے مٹی ڈال کر اسے زندہ گاڑھ دیا ، مجھے یہ حرکت بہت پریشان کر رہی ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہوں کے متعلق اب سوائے استغفار کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ، یا پھر صدقہ خیرات کرو ، غلام آزاد کرو یا جانوروں کی ہدی پیش کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور ہو ۔ (رحمدلی کی مثال) حضرت علی ؓ کے زمانہ میں عرب کے دو مشہور شاعر فرزدق اور جریر ہوئے ، دونوں مسلمان تھے مگر خاندانی عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور ایک دوسرے کی ہجو بیان کیا کرتے تھے ، ان میں سے فررزدق کے متعلق آتا ہے کہ اس کا دادا صعصعۃ ؓ عنہحضور ﷺ کا صحابی تھا ، زمانہ جاہلیت میں اس میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ جہاں کہیں اسے پتہ چلتا کہ فلاں شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اور وہ اسے زندہ درگور کرنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کے پاس جاتا ، اسے بچی کے عوض دو اونٹ اور کچھ مال دے کر بچی کو حاصل کرکے اس کی جان بچا لیتا کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں اس نے تین سو ساٹھ بچیوں کی جان بچائی ، اللہ نے اس زمانہ جاہلیت میں بھی اس شخص کے دل میں ایسی شفقت پیدا کردی تھی مگر بچیوں کو قتل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی جو بچی کی پیدائش کو بدنامی کا باعث سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی واقعات کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ فرمایا ہے کہ جب انہیں بچی کی پیدائش کی خبر ملتی تو ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتا اور سوچنے لگتے کہ ایسی بچیوں کو زندہ رکھ کر بدنامی مول لی جائے یا اسے زندہ درگور کردیا جائے ۔ (جہیز کی لعنت) مفسرین کرام (آیت) ” ام یدسہ فی التراب “۔ کے دو مطلب بیان کرتے ہیں ایک مطلب تو پہلے بیان ہوچکا ہے کہ وہ لوگ اپنی نام نہاد و غیرت کی بنا پر بچیوں کو قتل کردیتے تھے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنی اولادوں کو قتل کردیتے تھے ، کہتے تھے کہ ان کو کما کر کون کھلائے گا اللہ نے ایسے ہی باطل خیال کا رد کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ولا تقتلوا اولادکم من املاق “۔ (سورۃ انعام) یعنی اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کرو جو خدا تعالیٰ تمہیں روزی دے رہا ہے وہ ان کے لیے بھی بندوبست کریگا ، اسی طرح پنجاب میں بچیوں کے نکاح میں جہیز کا مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے ، والدین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کا نکاح نہیں کرسکتے اور اسی انتظار میں بچیوں کو روک لیا جاتا ہے ، بعض والدین بچیوں کو خالی ہاتھ رخصت کرنے میں اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اب بعض لڑکے والے لمبے چوڑے جہیز کا مطالبہ کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیوں کی عمر برباد ہوجاتی ہے ، اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے تاکہ بچے بچیوں کے نکاح سنت کے مطابق سادگی سے انجام پائیں اور لوگوں کو جہیز کی لعنت سے نجات حاصل ہوجائے ، (عورت نصف انسانیت ہے) عورت کو ذلیل اور حقیر سمجھنا سخت جہالت کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے جنسی تفریق پیدا کردی ہے ، کسی کو مرد بنایا ہے اور کسی کو عورت ، کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر حقیر سمجھے کسی کو لڑکا دے یا لڑکی ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے ، یہ اللہ کی مصلحت کے مطابق ہوتا ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، تاہم عورت نصف انسانیت ہے ، متمدن دنیا میں عورت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مرد کی ، اگر مرد کو اللہ نے عورت پر فوقیت عطا فرمائی ہے تو اسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ، نہ کہ عورت کو ذلیل سمجھے ، اللہ عورت کے لیے بھی خاص احکام مقرر فرمائے ہیں اور اس کو خاص فرائض سونپے ہیں ، قانون کی نظر میں وہ بھی مرد کی طرح باعزت ہے ، اس کو بھی آرام و راحت کی ضرورت ہے جس طرح مرد کو نسل انسانی کی بقا کے لیے عورت اور مرد دونوں کی ضرورت ہے ، لہذا بچی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوش ہونا چاہئے جس طرح بچے کی ولادت پر ۔ فرمایا (آیت) ” للذین لا یؤمنون بالاخرۃ مثل السوء “۔ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کی بری مثال ہے جبھی تو وہ حقیر و ذلیل کام کرتے ہیں (آیت) ” وللہ المثل الاعلیٰ “۔ اور اللہ ہی کی مثال بلندو برتر ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے ، نہ اس کی بیوی ہے نہ بچے ، وہ غنی ، صمد اور بےنیاز ہے (آیت) ” وھو العزیز الحکیم “۔ وہ کمال قدرت اور حکمت کا مالک ہے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں ٹھہرانا باطل عقیدہ ہے ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا ذہنی پس منظر بیان فرمایا ہے ۔
Top