Dure-Mansoor - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لئے اپنی چاہت کی چیز
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ویجعلون للہ البنت “ (الآیہ) کے بارے میں روایت کیا کہ وہ اس کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے) بیٹیوں کو تجویز کرتے ہیں اس کے لئے ان کو پسند کرتے ہیں اور اپنے لئے ان کو پسند نہیں کرتے اور یہ اس وجہ سے کہ زمانہ جاہلیت میں ان میں سے کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوجاتی تو سوچتا تھا کہ ذلت کے ساتھ اس کو اپنے پاس رکھے یا مٹی میں اس کو زندہ گاڑ دے۔ 2:۔ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولھم مایشتھون “ یعنی ان کے لئے بیٹے ہوں (جن کو پسند کرتے ہیں ) لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا حرام ہے : 3:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” واذا بشر احدھم بالانثی ضل وجہہ مسودا وھو کظیم “ کے بارے میں فرمایا کہ مشرکین عرب کا یہ ایک (برا) کام تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے اس برے کام کے بارے میں ان کو خبر دی لیکن مومن بندہ کو یہ لائق ہے کہ خوش ہو اس چیز پر جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تقسیم فرما دی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بہتر ہے آدمی کے اپنے فیصلے سے میری ، ، ، ، ، ، کی قسم مجھے معلوم نہیں کہ ہمارا فیصلہ خیر ہے رب تعالیٰ کی عطا کردہ لڑکی اپنے گھروں والوں کے لئے بہتر ہے لڑکے کے لئے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ان مشرکین عرب کے اس کام کے بارے میں خبر دی ہے تاکہ تم اس سے بچو اور اس سے باز آجاؤ (حال یہ تھا) کہ ان میں سے ایک آدمی اپنے کتے کو کھانا کھلاتا تھا (مگر) اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیتا ہے۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ عرب کے لوگ اس لڑکی کو قتل کردیتے تھے جو ان کے ہاں پیدا ہوتی تھی اور اس کو مٹی میں گاڑ دیتے تھے اس حال میں کہ وہ زندہ ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ مرجاتی تھی۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” علی ھون “ یہ ھوان ہے قریش کی لغت میں (یعنی ذلت) ۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ام یدسہ فی التراب “ یعنی زندہ درگور کردیتے اپنی بیٹی کو۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاسآء ما یحکمون “ سے مراد ہے کہ وہ برا ہے جو انہوں نے فیصلہ کیا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ چیز جو وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے میرے لئے کیسے پسند کرتے ہیں ؟ 8:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وللہ المثل الاعلی “ سے (مراد ہے) لا الہ اللہ کی شہادت دینا۔ 9:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وللہ المثل الاعلی “ (یعنی اللہ تعالیٰ ) فرماتے ہیں کہ انکی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔
Top