Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا
ٖٖحضرت ھود (علیہ السلام) کی بعثت، قوم عاد کی تکذیب اور بربادی مذکورہ بالا آیات میں حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا ہے آپ قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے آپ نے بھی ان سے وہ باتیں کیں جن کا حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں ذکر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں امانت دار ہوں تم اللہ سے ڈرو میری فرمانبر داری کرو مجھے تم سے کچھ لینا نہیں ہے میرا اجر وثواب صرف اللہ کے ذمہ ہے قوم عاد بڑی سر کش قوم تھی ان کے ڈیل ڈول بھی بڑے تھے جس کو سورة اعراف میں (وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً ) سے تعبیر فرمایا ہے اور سورة فجر میں ان کے بارے میں (اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبَلاَدِ ) فرمایا ہے (ان جیسے لوگ زمین کے حصوں میں پیدا نہیں کیے گئے) یہ لوگ اونچی جگہوں پر یاد گار کے طور پر بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے جو ایک عبث اور فضول کام تھا ان چیزوں کی ضرورت بالکل نہ تھی محض فخر و شیخی میں اس طرح کی عمارتیں بناتے تھے (اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ ریعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ ) میں اس کا تذکرہ فرمایا اس کا ایک مطلب تو یہی ہے کہ بلا ضرورت تعمیر کر کے فضول کام کرتے ہو اور علامہ قرطبی نے ایک مطلب یہ لکھا ہے کہ تم لوگ اوپر بیٹھ بیٹھ کر راہگیروں کا مذاق بناتے اور ان کے ساتھ مسخرہ پن کرتے ہو۔ اپنے رہنے کے لیے بھی یہ لوگ بڑے بڑے مضبوط محل بناتے تھے اور ان کا ڈھنگ ایسا تھا کہ گویا انہیں ہمیشہ دنیا ہی میں رہنا ہے اس کو فرمایا (وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ) لعل عربی زبان میں ترجی کے لیے آتا ہے مطلب یہ ہے کہ تم یہ آرزو لیے بیٹھے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہو گے اسی لیئے تو اتنی پختہ عمارتوں کے دلدادہ بنے ہوئے ہو، بعض حضرات نے لعل کو بمعنی کی بتایا ہے ای کی ما تخلدون لا تتفکرون فی الموت (یعنی تم اسی لیے مضبوط محل بناتے ہوتا کہ دنیا میں ہمیشہ رہو اسی لیے موت کے بارے میں فکر منہ نہیں ہوتے) اور حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ نے کان کے معنی میں لیا ہے یعنی تم ایسے گھر بناتے ہو گویا کہ تم ان میں ہمیشہ رہو گے۔
Top