Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
جھٹلایا قوم عاد نے اللہ کے رسولوں کو
ربط آیات یہ تسلی کا مضمون بیان ہو رہا ہے۔ سورة ہذا کی ابتدائی آیات میں حضور ﷺ اور آپ نے ان کو تسلی دی گئی تھی کہ آپ اتنی زیادہ فکر نہ کریں اور یہ لوگ آپ کی بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتے بلکہ آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیں اور نتائج اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں اب اسی سلسلے میں سابقہ اقوام کا حال بیان کیا جا رہا ہے مطلب یہ ہے کہ اکثر مشرکین بہت بڑے سر کش میں تو ان سے پہلی اقوام کے لوگ بھی کوئی کم سر کش نہیں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے …علیہم السلام کو سخت تکالیف پہنچائیں ، ان کی تکذیب کی مگر وہ خود ہی ہلاک ہوئے اس ضمن میں قوم فرعون ، قوم ابراہیم اور قوم نوح کا ذکر ہوچکا ہے ۔ قوم فرعون اور قوم نوح کو اللہ نے پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے بابلی لوگ بھی بڑے ظالم اور سر کش تھے ۔ انہوں نے آپ کو سات سال تک قید میں رکھا پھر آپ کو بڑی آگ میں پھینک دیا ، مگر اللہ نے آپ کو صحیح سلامت بچا لیا ، پھر بابل والوں پر اللہ کی گرفت آئی اور وہ تباہ و برباد ہوئے۔ اب آ ج کے برس میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ کی سلوک کیا اور ان کا کیا انجام ہوا ۔ قوم عاد کا حال ارشاد ہوتا ہے کذبت عاد المرسلین قوم عاد نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا ، اگرچہ انکے رسول تو ہود (علیہ السلام) ہی تھے مگر یہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ تمام رسولوں کا دین اور مشن تو ایک ہی رہا ہے لہٰذا کسی ایک رسول کو جھٹلانا تمام رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اسی طرح خطاب کیا اذ قال لھم اخوھم ھود جب کہا ان کو ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح حضرت ہود (علیہ السلام) بھی اس قوم کے فرد تھے۔ اس لیے آپ کو ان کا بھائی کہا گیا ہے تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا الا تتقون تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ اللہ کے نبی کی تکذیب کرتے ہو ۔ اسراف اور دیگر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر کفر و شرک تمہارا شعار ہے مگر اس کے باوجود تم خدا تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتے نہیں ۔ یاد رکھو انی لکم رسول امین میں تمہاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول اور امانتدار ہوں ۔ میں تمہیں اللہ کا پیغام بےکم وکاست پہنچاتا ہوں ، کسی کی رو رعایت نہیں رکھتا لہٰذا فاتقو اللہ واطیعون اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات جانو ۔ اس کے بعد آپ نے وہی جملہ دہرایا جو سارے نبی کہتے آئے ہیں وما اسئلکم علیہ من خبر میں تم سے اس تبلیغ حق کے عوض کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا کیونکہ ان اجری الا علی رب العالمین کی وجہ میرا بدلہ تو صرف تمام جہانوں کے پروردگار کے ذمے ہے۔ وہی مجھے حق مختار ادا کرے میرا تم سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ خدا کی وحدانیت کو تسلیم کرو اور میری بات مان کر ہدایت کے راستہ پر گامزن ہو جائو کفر شرک اور معاصی کو ترک کر کے اللہ کے مقبول بندے بن جائو۔ اسراف کی بیماری مختلف اقوام میں مختلف اخلاقی بیماریاں پائی جاتی رہی ہیں ۔ عقیدے کی بیماری کفر ، شرک تو ہر قوم میں تھا۔ تا ہم قوم نوح ، قوم ابراہیم اور قوم فرعون کی اخلاقی بیماریوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اسی طرح قوم عاد میں ظلم و ستم کے علاوہ اسراف کی بیماری عام تھی ۔ بڑی بڑی عمارات تعمیر کرنا ان کا عام مشغلہ تھا جن کا کوئی خاص مصرف نہیں بلکہ محض نمود و نمائش مطلوب ہوتی تھی ۔ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا اتبنون بکل ریع ایۃ تعبون کیا بناتے ہو تم ہر اونچی جگہ پر کوئی نشانی محض کھیل کے لیے ؟ وتتخذون مصائع اور طرح طرح کی کاریگریاں یا مکانات بناتے ہو لعلکم تخلدون گر با تم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ آپ نے اپنی قوم کی توجہ اس طرف دلائی کہ تم عالیشان عمارات بنا کر اور اس میں نقش و نگار کر کے فضول خرچی کے مرتکب ہو رہے ہو ۔ رہائش یا کسی دوسرے ضروری مقصد کے لیے کوئی عمارت تعمیر کی جائے تو اس میں تو کوئی حرج نہیں مگر اتنی بڑی بڑی عمارات بنانا جن کا کوئی مصرف نہ ہو ، محض اسراف ہے ۔ اللہ کے نبی نے قوم کو ایسی باتوں سے منع فرمایا۔ قوم عاد حضر ت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی ان کا مرکز بین کے اطراف میں وادی داہنا اور ریگستانی علاقہ تھا۔ یہ لوگ فن تعمیر کے ماہر تھے ۔ انہوں نے بیشمار عمارتیں تعمیر کیں جن میں قصر عمدان یا عمدان چالیس منزلہ تھا۔ اس کے کھنڈرات حضرت عثمان ؓ کے دور تک پائے جاتے تھے۔ مصر سے لے کر ترکستان ، ہندوستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک پر ان کا دبدبہ تھا۔ اہرام مصر بھی ساڑھے پانچ ہزار سال پرانے ہیں ، کچھ سلامت ہیں اور کچھ ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔ جس طرح فراعین مصر کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا شوق تھا۔ اسی طرح قوم عاد بھی نمود و نمائش کے لیے عالیشان عمارتیں تعمیر کرتی تھیں۔ …عمارات ان آیات میں آمدہ الفاظ ریع تعثون اور مصانع خاص طور پر توجہ طلب ہیں ۔ ریع کا معنی درہ بھی ہوتا ہے مگر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ریع کا معنی اونچی جگہ ہے ۔ قوم عاد کے لوگ اونچے ٹیلے پر اونچی اونچی عمارتیں مینار اور گنبد وغیرہ بناتے تھے۔ دوسرا لفظ مصانع ہے جو مصنع کی جمع ہے۔ آج کل یہ لفظ فیکٹری یا کارخانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر یہ لفظ بطور مصدر ہو تو اس کا معنی مختلف کاریگر یاں یا فنون ہوگا ، تا ہم یہاں پر عالیشان مکانات محلات ، مینار ، گنبد اور کبوتر اڑانے کے اونچے چبوترے مراد ہیں جنہیں قوم عاد کے لوگ تعمیر کرتے تھے ۔ قرآن پاک کی رو سے بلا ضرورت ایسی شاندار عمارات تعمیر کرنا اسراف میں داخل ہے۔ جسے اس مقام پر غبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی فضول بےمقصد ، عبث قول سے ہو یا فعل سے دونوں طرح ناجائز ہے غرضیکہ عبث ہو وہ چیز ہے جس کا نتیجہ انسان کے حق میں آخرت کے اعتبار سے اچھا نہ نکلے اور یہ قابل مذمت ہے۔ پرانی اقوام میں اس قسم کی عبث عمارات مصریوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مشہور احرام مصر فراعین کے قبرستان اور مقبرے ہیں ۔ برصغیر میں تاج محل ، آگرہ مقبرہ جہانگیر ، مقبرہ نور جہاں ، قطب صاحب کی الاٹ ذخیرہ اسی قبیل سے ہیں ۔ حیدر آباد دکن میں کسی امیر آدمی نے قصر فلک نما بنا کر افضل الدولہ کو تحفے میں دیا تھا۔ یہ پہاڑی کے اوپر بنا ہوا عالیشان محل ہے جس کے چالیس کمرے ہیں اور ہر کمرے کی آرائش زیب وزینت ، فرنیچر ، پردے رنگ و روغن اور ماحول الگ الگ ہے۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں جناح صاحب کا مقبرہ کروڑوں کی لاگت سے تعمیر ہوا ہے لاہور میں مینار پاکستان سے علامہ اقبال کا مقبرہ ہے اس کے علاوہ کھیلوں کے لیے بڑے بڑے سٹیڈیم اور کمپلیکس تعمیر ہونے ہیں جن پر کروڑوں روپیہ صرف ہوا ہے۔ یہ سب عمارات نام و نمود کے لیے تعمیر ہوئی ہیں وگرنہ ان کا حقیقی فائدہ کچھ نہیں ۔ ان کی بجائے اگر یہی روپیہ سکول کالج یا لائبریریاں بنانے پر صرف ہوتا تو لوگوں کو اجتماعی فائدہ ہوتا ۔ غریب لوگوں کے لیے مکانات تعمیر ہوتے تو ان کے بچوں کو سردی اور گرمی سے پناہ گاہ حاصل ہوجاتی جس سے ہزاروں خاندان مستفید ہو سکتے تھے ، مگر اس قسم کی عالیشان عمارات جن ک کوئی خاص مقصد نہیں عبث کی تعریف میں آتی ہے۔ بھلا اہرام مصر فرعونیوں کو آخرت میں کیا فائدہ دیں گے ان کی شہرت اسی دنیا تک محدود ہے۔ اسی طرح ستر لاکھ روپے سے تعمیر ہونے والا لاہور کا مینار پاکستان کس قدر مفید ہو سکتا ہے۔ یہی رقم اگر لوگوں کی تالیف قلوب پر ہی صرف ہوتی تو لوگ مرید ہونے سے بچ جاتے ۔ عیسائی مشنریاں اسی دولت کی بناء پر مسلمانوں کو عیسائی بنا رہی ہیں ۔ نادار مسلمانوں کی دست گیری کی جائے تو لوگ اسلام جیسے اعلیٰ وارفع دین کو فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں ۔ لبنان کی جنگ کے نتیجے میں بارہ سو لاوارث بچوں کو انگیریزوں نے اپنی کفالت میں لے لیا ۔ آخر وہ عیسائی ہی بن گئے۔ دنیائے اسلام کی نظریں ان ضروری کاموں کی طرف کیوں نہیں اٹھتیں ۔ ذاتی نمائش کے لیے عالیشان محلات ، سربفلک پلازے ، بڑے بڑے اسمبلی ہال ، پریذیڈنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس جیسی عمارات محض شان و شوکت کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا یہ ضرورتیں اس خرچ عمارات سے پوری نہیں ہو سکتیں ۔ یہ سب فضول خرچی ہے جو کہ عبث ہے۔ طبرانی نے جید سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے جسے صاحب تفسیر مظہری نے بھی نقل کیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے بارے میں برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی دولت کو مٹی اور گارے میں لگا دیتا ہے۔ دیکھ لیں آج بلڈنگ بازی کا شوق کن لوگوں کے سروں پر سوارہو چکا ہے ۔ آخرت کی کچھ فکر نہیں ۔ محض دنیا کی نمود و نمائش کے لیے عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں ، وگرنہ اگر محض رہائش مقصود ہو تو وہ کم خرچ سے تھوڑی جگہ پر بھی بن سکتی ہے۔ اس کے آرائش و زیبائش کے اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے ، مگر لوگ ان کو اس طرح تعمیر کر رہے ہیں گویا کہ ہمیشہ ان میں رہائش پذیر ہوں گے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کل بناء و بال علی صاحبہ لا ما لا الا مالا ہر عمارت اپنے بنانے والے کے لیے باعث وبال ہوگی سوائے اس کے جو ضروری ہے اور جس میں رہائش مقصود ہے دوسری روایت میں آتا ہے۔ ہر بنائی جانے والی عارات وبال ہے الا ما کان من مسجد او دار سوائے مسجد یا گھر کے ۔ مسجد کو اگر خوشنما بھی بنا دے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ باقی عمارتیں انسان کے لیے وبال جان ہیں ۔ لوگ انہیں یادگار کے طور پر بناتے ہیں مگر آخرت میں ان کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ایسے لوگ اسراف کے حربہ میں قابل مواخذہ ہوں گے۔ دنیا کی بےثباتی شداداسی قوم عاد کا ایک فرد تھا جس نے باغ زیر تعمیر کرایا تھا۔ اس نے دنیا میں جنت نمونہ تیار کروایا۔ وہ بھی سمجھتا تھا کہ اس میں ہمیشہ رہے گا ، مگر اس کو اس باغ میں داخلہ بھی نصیب نہ ہوا ۔ ابھی دروازے پر ہی تھا کہ موت کا وقت آگیا ۔ ایک اور روایت میں بھی دنیا کی بےثباتی اور انسانی زندگی کی وقعت اور وقوع موت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ روزمرہ مشاہدہ میں آ رہا ہے مگر ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ موت دوسروں کیلئے ہے اور وہ ہمیشہ رہے ۔ اور اسی زعم میں بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے مگر بےعبث حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا۔ راستے میں حضور ﷺ کو پیشاب کی حاجت ہوئی ۔ آپ نے فارغ ہو کر مٹی سے تیمم کرلیا ۔ میں نے عرض کیا حضور اپنی تو قربت ہی ہے آپ ذرا توقفہ فرما کر وضو ہی کرلیتے ۔ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا وما یدرینی لعلی لا ابلغ مجھے کیا علم کہ میں پانی تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں ، لہٰذا میں نے طوری طور پر تیمم ہی کرلیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ابن عاص ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ہمارے پاس گزر ہوا میں اور میری والدہ اس وقت اپنی جھونپڑی مرمت کر رہے تھے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا عبد اللہ ! کیا کر رہے ہو ، عرض کیا حضور ! جھونپڑی اصلاح طلب تھی اس کو ٹھیک کر رہے ہیں ۔ فرمایا الامر اعجل من ذلک معاملہ تو اس سے بھی جلدی کا ہے تمہیں کیا معلوم کہ اس جھونپڑی کی درستگی کے بعد تمہیں اس میں رہنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں ۔ کیا پتہ کہ موت کس وقت آجائے۔ حضرت ابو درا ؓ کا وعظ جس طرح حضرت ابو ذر غفاری ؓ ، کمال درجے کے مجذہ ب اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ افقہ الامت یعنی امت محمدیہ کے بڑے فقیہہ تھے۔ اسی طرح حضرت ابو داردا ؓ ، حضور ﷺ کی امت کی حکیم الامت تھے ۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں آپ دمشق گئے تو دیکھا کہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں ۔ آپ مسجد میں آئے ، اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر اعلان کیا ۔ اے اہل دمشق ! میری بات سنو ! کیا تمہیں حیا نہیں آتی کہ عالیشان عمارات بنانے لگے ہو ۔ تجمعون مالا تاکلون تم ایسی چیزیں جمع کرتے ہو جنہیں کھانا نصیب نہیں ہوگا ۔ ایسی عمارات بناتے ہو جن میں رہنا نصیب نہیں ہوگا اور ایسی چیز کی آرزو کرتے ہو جیسے پا نہیں سکتے۔ تم سے پہلے بہت سی قومیں گزری ہیں جو جمع کرتی تھیں ۔ مال و دولت سمیٹ سمیٹ کر رکھتی تھیں ۔ مضبوط تع میرات کرتی تھیں ۔ لمبی آرزئوئیں باندھتی تھیں مگر یہ سب چیزیں باطل ثابت ہوئیں اور وہ قومیں ہلاک ہوگئیں ۔ فرمایا اب ان قوموں کے مساکن قبرستان بنے ہوئے ہیں ۔ دیکھو ! قوم عاد عدن سے عمان تک برسر اقتدار تھی ۔ ان کے گھوڑے اور اونٹ دوڑتے تھے ، ان کے پاس آسائش کی ہر چیز موجود تھی ، مگر آج ان کی پوری وادی ویران اور سنسان پڑی ہوئی ہے جسے کوئی ٹکے پر بھی لینے کے لیے آمادہ نہیں بھلا تم لوگ کن کاموں میں مصروف ہوگئے ہو کہ بڑ بڑ ی عمارتیں بنانا شروع کردی ہیں ۔ بہر حال اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عبث کیسا بھی ہو اچھا نہیں ہے۔ ایسی عمارتیں بنانا جن کا کوئی خاص مصرف نہ ہو ۔ محض نمود و نمائش کا اظہار ہو ۔ ان کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ ایسا کرنا بری بات ہے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے بیان سے ان کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ ظلم کی ممانعت حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی دوسری خرابی یہ بیان فرمائی واذا بطشتم بطشتم جباربن لوگو ! جب تم کسی پر گفت کرتے ہو تو ظلم و ستم ڈھاتے ہو قوم عاد کے لوگ اپنے ارد گرد کے کمزور لوگوں پر بڑا ظلم کرتے تھے ، ان سے بیگانہ لیتے ۔ ان کی مزدوری ادا نہ کرتے اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے ۔ اللہ کے نبی نے ان کو ظلم و ستم سے منع کیا ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے غرور ، تکبر ، شرک ، کفر ، فضول خرچی ، نمود و نمائش ، فضول ، عمارات ، مینار اور گنبد تعمیر کرنے اور ناداروں اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ان باتوں سے آگاہ کیا اور یہ بھی فرمایا فاتقوا اللہ واطیعون لوگو ! اللہ سے ڈر جائو اور میری بات مانو میں تمہیں اللہ کے احکام ٹھیک ٹھیک پہنچا رہا ہوں کہ میں اس کا امانت دار رسول ہوں ۔ اگلی آیات میں نہ یہ وعظ و نصیحت کا ذکر ہے۔
Top