Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ
: جھٹلایا
عَادُ
: عاد
ۨ الْمُرْسَلِيْنَ
: رسول (جمع)
جھٹلایا قوم عاد نے اللہ کے رسولوں کو
ربط آیات یہ تسلی کا مضمون بیان ہو رہا ہے۔ سورة ہذا کی ابتدائی آیات میں حضور ﷺ اور آپ نے ان کو تسلی دی گئی تھی کہ آپ اتنی زیادہ فکر نہ کریں اور یہ لوگ آپ کی بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتے بلکہ آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیں اور نتائج اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں اب اسی سلسلے میں سابقہ اقوام کا حال بیان کیا جا رہا ہے مطلب یہ ہے کہ اکثر مشرکین بہت بڑے سر کش میں تو ان سے پہلی اقوام کے لوگ بھی کوئی کم سر کش نہیں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے …علیہم السلام کو سخت تکالیف پہنچائیں ، ان کی تکذیب کی مگر وہ خود ہی ہلاک ہوئے اس ضمن میں قوم فرعون ، قوم ابراہیم اور قوم نوح کا ذکر ہوچکا ہے ۔ قوم فرعون اور قوم نوح کو اللہ نے پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے بابلی لوگ بھی بڑے ظالم اور سر کش تھے ۔ انہوں نے آپ کو سات سال تک قید میں رکھا پھر آپ کو بڑی آگ میں پھینک دیا ، مگر اللہ نے آپ کو صحیح سلامت بچا لیا ، پھر بابل والوں پر اللہ کی گرفت آئی اور وہ تباہ و برباد ہوئے۔ اب آ ج کے برس میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ کی سلوک کیا اور ان کا کیا انجام ہوا ۔ قوم عاد کا حال ارشاد ہوتا ہے کذبت عاد المرسلین قوم عاد نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا ، اگرچہ انکے رسول تو ہود (علیہ السلام) ہی تھے مگر یہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ تمام رسولوں کا دین اور مشن تو ایک ہی رہا ہے لہٰذا کسی ایک رسول کو جھٹلانا تمام رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اسی طرح خطاب کیا اذ قال لھم اخوھم ھود جب کہا ان کو ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح حضرت ہود (علیہ السلام) بھی اس قوم کے فرد تھے۔ اس لیے آپ کو ان کا بھائی کہا گیا ہے تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا الا تتقون تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ اللہ کے نبی کی تکذیب کرتے ہو ۔ اسراف اور دیگر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر کفر و شرک تمہارا شعار ہے مگر اس کے باوجود تم خدا تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتے نہیں ۔ یاد رکھو انی لکم رسول امین میں تمہاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول اور امانتدار ہوں ۔ میں تمہیں اللہ کا پیغام بےکم وکاست پہنچاتا ہوں ، کسی کی رو رعایت نہیں رکھتا لہٰذا فاتقو اللہ واطیعون اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات جانو ۔ اس کے بعد آپ نے وہی جملہ دہرایا جو سارے نبی کہتے آئے ہیں وما اسئلکم علیہ من خبر میں تم سے اس تبلیغ حق کے عوض کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا کیونکہ ان اجری الا علی رب العالمین کی وجہ میرا بدلہ تو صرف تمام جہانوں کے پروردگار کے ذمے ہے۔ وہی مجھے حق مختار ادا کرے میرا تم سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ خدا کی وحدانیت کو تسلیم کرو اور میری بات مان کر ہدایت کے راستہ پر گامزن ہو جائو کفر شرک اور معاصی کو ترک کر کے اللہ کے مقبول بندے بن جائو۔ اسراف کی بیماری مختلف اقوام میں مختلف اخلاقی بیماریاں پائی جاتی رہی ہیں ۔ عقیدے کی بیماری کفر ، شرک تو ہر قوم میں تھا۔ تا ہم قوم نوح ، قوم ابراہیم اور قوم فرعون کی اخلاقی بیماریوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اسی طرح قوم عاد میں ظلم و ستم کے علاوہ اسراف کی بیماری عام تھی ۔ بڑی بڑی عمارات تعمیر کرنا ان کا عام مشغلہ تھا جن کا کوئی خاص مصرف نہیں بلکہ محض نمود و نمائش مطلوب ہوتی تھی ۔ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا اتبنون بکل ریع ایۃ تعبون کیا بناتے ہو تم ہر اونچی جگہ پر کوئی نشانی محض کھیل کے لیے ؟ وتتخذون مصائع اور طرح طرح کی کاریگریاں یا مکانات بناتے ہو لعلکم تخلدون گر با تم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ آپ نے اپنی قوم کی توجہ اس طرف دلائی کہ تم عالیشان عمارات بنا کر اور اس میں نقش و نگار کر کے فضول خرچی کے مرتکب ہو رہے ہو ۔ رہائش یا کسی دوسرے ضروری مقصد کے لیے کوئی عمارت تعمیر کی جائے تو اس میں تو کوئی حرج نہیں مگر اتنی بڑی بڑی عمارات بنانا جن کا کوئی مصرف نہ ہو ، محض اسراف ہے ۔ اللہ کے نبی نے قوم کو ایسی باتوں سے منع فرمایا۔ قوم عاد حضر ت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی ان کا مرکز بین کے اطراف میں وادی داہنا اور ریگستانی علاقہ تھا۔ یہ لوگ فن تعمیر کے ماہر تھے ۔ انہوں نے بیشمار عمارتیں تعمیر کیں جن میں قصر عمدان یا عمدان چالیس منزلہ تھا۔ اس کے کھنڈرات حضرت عثمان ؓ کے دور تک پائے جاتے تھے۔ مصر سے لے کر ترکستان ، ہندوستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک پر ان کا دبدبہ تھا۔ اہرام مصر بھی ساڑھے پانچ ہزار سال پرانے ہیں ، کچھ سلامت ہیں اور کچھ ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔ جس طرح فراعین مصر کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے کا شوق تھا۔ اسی طرح قوم عاد بھی نمود و نمائش کے لیے عالیشان عمارتیں تعمیر کرتی تھیں۔ …عمارات ان آیات میں آمدہ الفاظ ریع تعثون اور مصانع خاص طور پر توجہ طلب ہیں ۔ ریع کا معنی درہ بھی ہوتا ہے مگر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ریع کا معنی اونچی جگہ ہے ۔ قوم عاد کے لوگ اونچے ٹیلے پر اونچی اونچی عمارتیں مینار اور گنبد وغیرہ بناتے تھے۔ دوسرا لفظ مصانع ہے جو مصنع کی جمع ہے۔ آج کل یہ لفظ فیکٹری یا کارخانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر یہ لفظ بطور مصدر ہو تو اس کا معنی مختلف کاریگر یاں یا فنون ہوگا ، تا ہم یہاں پر عالیشان مکانات محلات ، مینار ، گنبد اور کبوتر اڑانے کے اونچے چبوترے مراد ہیں جنہیں قوم عاد کے لوگ تعمیر کرتے تھے ۔ قرآن پاک کی رو سے بلا ضرورت ایسی شاندار عمارات تعمیر کرنا اسراف میں داخل ہے۔ جسے اس مقام پر غبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی فضول بےمقصد ، عبث قول سے ہو یا فعل سے دونوں طرح ناجائز ہے غرضیکہ عبث ہو وہ چیز ہے جس کا نتیجہ انسان کے حق میں آخرت کے اعتبار سے اچھا نہ نکلے اور یہ قابل مذمت ہے۔ پرانی اقوام میں اس قسم کی عبث عمارات مصریوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مشہور احرام مصر فراعین کے قبرستان اور مقبرے ہیں ۔ برصغیر میں تاج محل ، آگرہ مقبرہ جہانگیر ، مقبرہ نور جہاں ، قطب صاحب کی الاٹ ذخیرہ اسی قبیل سے ہیں ۔ حیدر آباد دکن میں کسی امیر آدمی نے قصر فلک نما بنا کر افضل الدولہ کو تحفے میں دیا تھا۔ یہ پہاڑی کے اوپر بنا ہوا عالیشان محل ہے جس کے چالیس کمرے ہیں اور ہر کمرے کی آرائش زیب وزینت ، فرنیچر ، پردے رنگ و روغن اور ماحول الگ الگ ہے۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں جناح صاحب کا مقبرہ کروڑوں کی لاگت سے تعمیر ہوا ہے لاہور میں مینار پاکستان سے علامہ اقبال کا مقبرہ ہے اس کے علاوہ کھیلوں کے لیے بڑے بڑے سٹیڈیم اور کمپلیکس تعمیر ہونے ہیں جن پر کروڑوں روپیہ صرف ہوا ہے۔ یہ سب عمارات نام و نمود کے لیے تعمیر ہوئی ہیں وگرنہ ان کا حقیقی فائدہ کچھ نہیں ۔ ان کی بجائے اگر یہی روپیہ سکول کالج یا لائبریریاں بنانے پر صرف ہوتا تو لوگوں کو اجتماعی فائدہ ہوتا ۔ غریب لوگوں کے لیے مکانات تعمیر ہوتے تو ان کے بچوں کو سردی اور گرمی سے پناہ گاہ حاصل ہوجاتی جس سے ہزاروں خاندان مستفید ہو سکتے تھے ، مگر اس قسم کی عالیشان عمارات جن ک کوئی خاص مقصد نہیں عبث کی تعریف میں آتی ہے۔ بھلا اہرام مصر فرعونیوں کو آخرت میں کیا فائدہ دیں گے ان کی شہرت اسی دنیا تک محدود ہے۔ اسی طرح ستر لاکھ روپے سے تعمیر ہونے والا لاہور کا مینار پاکستان کس قدر مفید ہو سکتا ہے۔ یہی رقم اگر لوگوں کی تالیف قلوب پر ہی صرف ہوتی تو لوگ مرید ہونے سے بچ جاتے ۔ عیسائی مشنریاں اسی دولت کی بناء پر مسلمانوں کو عیسائی بنا رہی ہیں ۔ نادار مسلمانوں کی دست گیری کی جائے تو لوگ اسلام جیسے اعلیٰ وارفع دین کو فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں ۔ لبنان کی جنگ کے نتیجے میں بارہ سو لاوارث بچوں کو انگیریزوں نے اپنی کفالت میں لے لیا ۔ آخر وہ عیسائی ہی بن گئے۔ دنیائے اسلام کی نظریں ان ضروری کاموں کی طرف کیوں نہیں اٹھتیں ۔ ذاتی نمائش کے لیے عالیشان محلات ، سربفلک پلازے ، بڑے بڑے اسمبلی ہال ، پریذیڈنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس جیسی عمارات محض شان و شوکت کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا یہ ضرورتیں اس خرچ عمارات سے پوری نہیں ہو سکتیں ۔ یہ سب فضول خرچی ہے جو کہ عبث ہے۔ طبرانی نے جید سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے جسے صاحب تفسیر مظہری نے بھی نقل کیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے بارے میں برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی دولت کو مٹی اور گارے میں لگا دیتا ہے۔ دیکھ لیں آج بلڈنگ بازی کا شوق کن لوگوں کے سروں پر سوارہو چکا ہے ۔ آخرت کی کچھ فکر نہیں ۔ محض دنیا کی نمود و نمائش کے لیے عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں ، وگرنہ اگر محض رہائش مقصود ہو تو وہ کم خرچ سے تھوڑی جگہ پر بھی بن سکتی ہے۔ اس کے آرائش و زیبائش کے اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے ، مگر لوگ ان کو اس طرح تعمیر کر رہے ہیں گویا کہ ہمیشہ ان میں رہائش پذیر ہوں گے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کل بناء و بال علی صاحبہ لا ما لا الا مالا ہر عمارت اپنے بنانے والے کے لیے باعث وبال ہوگی سوائے اس کے جو ضروری ہے اور جس میں رہائش مقصود ہے دوسری روایت میں آتا ہے۔ ہر بنائی جانے والی عارات وبال ہے الا ما کان من مسجد او دار سوائے مسجد یا گھر کے ۔ مسجد کو اگر خوشنما بھی بنا دے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ باقی عمارتیں انسان کے لیے وبال جان ہیں ۔ لوگ انہیں یادگار کے طور پر بناتے ہیں مگر آخرت میں ان کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ایسے لوگ اسراف کے حربہ میں قابل مواخذہ ہوں گے۔ دنیا کی بےثباتی شداداسی قوم عاد کا ایک فرد تھا جس نے باغ زیر تعمیر کرایا تھا۔ اس نے دنیا میں جنت نمونہ تیار کروایا۔ وہ بھی سمجھتا تھا کہ اس میں ہمیشہ رہے گا ، مگر اس کو اس باغ میں داخلہ بھی نصیب نہ ہوا ۔ ابھی دروازے پر ہی تھا کہ موت کا وقت آگیا ۔ ایک اور روایت میں بھی دنیا کی بےثباتی اور انسانی زندگی کی وقعت اور وقوع موت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ روزمرہ مشاہدہ میں آ رہا ہے مگر ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ موت دوسروں کیلئے ہے اور وہ ہمیشہ رہے ۔ اور اسی زعم میں بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے مگر بےعبث حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا۔ راستے میں حضور ﷺ کو پیشاب کی حاجت ہوئی ۔ آپ نے فارغ ہو کر مٹی سے تیمم کرلیا ۔ میں نے عرض کیا حضور اپنی تو قربت ہی ہے آپ ذرا توقفہ فرما کر وضو ہی کرلیتے ۔ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا وما یدرینی لعلی لا ابلغ مجھے کیا علم کہ میں پانی تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں ، لہٰذا میں نے طوری طور پر تیمم ہی کرلیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ابن عاص ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ہمارے پاس گزر ہوا میں اور میری والدہ اس وقت اپنی جھونپڑی مرمت کر رہے تھے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا عبد اللہ ! کیا کر رہے ہو ، عرض کیا حضور ! جھونپڑی اصلاح طلب تھی اس کو ٹھیک کر رہے ہیں ۔ فرمایا الامر اعجل من ذلک معاملہ تو اس سے بھی جلدی کا ہے تمہیں کیا معلوم کہ اس جھونپڑی کی درستگی کے بعد تمہیں اس میں رہنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں ۔ کیا پتہ کہ موت کس وقت آجائے۔ حضرت ابو درا ؓ کا وعظ جس طرح حضرت ابو ذر غفاری ؓ ، کمال درجے کے مجذہ ب اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ افقہ الامت یعنی امت محمدیہ کے بڑے فقیہہ تھے۔ اسی طرح حضرت ابو داردا ؓ ، حضور ﷺ کی امت کی حکیم الامت تھے ۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں آپ دمشق گئے تو دیکھا کہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں ۔ آپ مسجد میں آئے ، اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر اعلان کیا ۔ اے اہل دمشق ! میری بات سنو ! کیا تمہیں حیا نہیں آتی کہ عالیشان عمارات بنانے لگے ہو ۔ تجمعون مالا تاکلون تم ایسی چیزیں جمع کرتے ہو جنہیں کھانا نصیب نہیں ہوگا ۔ ایسی عمارات بناتے ہو جن میں رہنا نصیب نہیں ہوگا اور ایسی چیز کی آرزو کرتے ہو جیسے پا نہیں سکتے۔ تم سے پہلے بہت سی قومیں گزری ہیں جو جمع کرتی تھیں ۔ مال و دولت سمیٹ سمیٹ کر رکھتی تھیں ۔ مضبوط تع میرات کرتی تھیں ۔ لمبی آرزئوئیں باندھتی تھیں مگر یہ سب چیزیں باطل ثابت ہوئیں اور وہ قومیں ہلاک ہوگئیں ۔ فرمایا اب ان قوموں کے مساکن قبرستان بنے ہوئے ہیں ۔ دیکھو ! قوم عاد عدن سے عمان تک برسر اقتدار تھی ۔ ان کے گھوڑے اور اونٹ دوڑتے تھے ، ان کے پاس آسائش کی ہر چیز موجود تھی ، مگر آج ان کی پوری وادی ویران اور سنسان پڑی ہوئی ہے جسے کوئی ٹکے پر بھی لینے کے لیے آمادہ نہیں بھلا تم لوگ کن کاموں میں مصروف ہوگئے ہو کہ بڑ بڑ ی عمارتیں بنانا شروع کردی ہیں ۔ بہر حال اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عبث کیسا بھی ہو اچھا نہیں ہے۔ ایسی عمارتیں بنانا جن کا کوئی خاص مصرف نہ ہو ۔ محض نمود و نمائش کا اظہار ہو ۔ ان کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ ایسا کرنا بری بات ہے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے بیان سے ان کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ ظلم کی ممانعت حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی دوسری خرابی یہ بیان فرمائی واذا بطشتم بطشتم جباربن لوگو ! جب تم کسی پر گفت کرتے ہو تو ظلم و ستم ڈھاتے ہو قوم عاد کے لوگ اپنے ارد گرد کے کمزور لوگوں پر بڑا ظلم کرتے تھے ، ان سے بیگانہ لیتے ۔ ان کی مزدوری ادا نہ کرتے اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے ۔ اللہ کے نبی نے ان کو ظلم و ستم سے منع کیا ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے غرور ، تکبر ، شرک ، کفر ، فضول خرچی ، نمود و نمائش ، فضول ، عمارات ، مینار اور گنبد تعمیر کرنے اور ناداروں اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ان باتوں سے آگاہ کیا اور یہ بھی فرمایا فاتقوا اللہ واطیعون لوگو ! اللہ سے ڈر جائو اور میری بات مانو میں تمہیں اللہ کے احکام ٹھیک ٹھیک پہنچا رہا ہوں کہ میں اس کا امانت دار رسول ہوں ۔ اگلی آیات میں نہ یہ وعظ و نصیحت کا ذکر ہے۔
Top