Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت 123 سے 140 یعنی عادنامی قبیلے نے اپنے رسول ہود (علیہ السلام) کی تکذیب کی، ان کا ہود (علیہ السلام) کی تکذیب کرنا تمام رسولوں کی تکذیب ہے کیونکہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے۔ (اذ قال لھم اخوھم) ” جب ان کے بھائی نے انہیں کہا۔” یعنی نسبی بھائی (ھود) ” ہود (علیہ السلام) نے “ نہایت شفقت اور بہترین طریقے سے مخاطب ہو کر کہا : (الا تتقون) ” کیا تم ڈرتے نہیں۔ “ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے شرک اور غیر اللہ کی عبادت کو چھوڑتے نہیں ؟ (انی لکم رسول امین) ” میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور نظر عنایت کرتے ہوئے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایک امانت دار شخص ہوں اس تمہید پر انہوں نے اپنا یہ قول مرتب کیا۔ (فاتقوا اللہ واطیعون ) ” پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور وہ ہے تقویٰ اور میں جن امور کا حکم دیتا ہوں اور جن امور سے روکتا ہوں، ان میں میری اطاعت کرکے میرا حق ادا کرو اور یہ چیز اس امر کی موجب ہے کہ تم میری اتباع اور اطاعت کرو۔ تمہارے ایمان لانے میں کوئی چیز مانع نہیں اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور خیر خواہی کرنے کے بدلے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا کہ تم اسے بھاری تاوان خیال کرو۔ (ان اجری الا علی رب العلمین) ” میرا اجر تو رب کائنات کے ذمہ ہے “ جس نے بیشمار نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تربیت کی اور اپنے فضل و کرم کا ان پر فیضان کیا، خاص طور پر جو اس نے اپنے اولیاء انبیاء کی تربیت فرمائی۔ (اتبنون نکل ریع) ” بھلا تم ہر اونچی جگہ پر بناتے ہو۔ “ یعنی پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستے پر (آیۃ) ” علامت “ یعنی یادگار کے طور پر (تعبثون) ’ ’ کھیل کود کرتے ہوئے۔ “ یعنی یہ کام تم عبث کرتے ہو جس کا تمہارے دین اور دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ (وتتخذون مصانع) ” اور تم محل (یاحوض) بناتے ہو۔ “ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کے لئے حوض بناتے ہو۔ (لعلکم تخلدون) ” شاید تم ہمیشہ رہو گے ؟ “ اور حال یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کی کوئی راہ نہیں۔ (واذا بطشتم) ” اور جب تم (مخلوق کو) پکڑتے ہو۔ “ (بطشتم جبارین) ’ ’ تو انتہائی ظلم و جبر کے ساتھ پکڑتے ہو۔ “ ان کو قتل کرتے ہو، مارتے ہو اور ان کا مال و متاع لوٹ لیتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ قوت عطا کر رکھی تھی ان پر واجب تھا کہ وہ اس وقت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے فخر اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور کہنے لگے : (من اشد منا قوۃ) (حم السجدۃ : 41/15) ” کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور ؟ “ اور انہوں نے اپنی قوت و طاقت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، عبث اور سفاہیت کے کاموں میں استعمال کیا، اس لئے ان کے نبی نے ان کو ان کاموں سے روکا۔ (فاتقوا اللہ) ” پس تم اللہ سے ڈرو۔ “ یعنی تم اپنے شرک اور تکبر کو چھوڑ دو (واطیعون) ” اور میری اطاعت کرو۔ “ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور میں خیر خواہ اور امین ہوں۔ (واتقوا الذی امدکم) ” اور اس ذات سے ڈرو، جس نے تمہیں مدد دی۔ “ یعنی جس نے تمہیں عطا کیا (بما تعملون) ” ان چیزوں سے جن کو تم جانتے ہو۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو مجمول ہیں نہ ان کا انکار کیا جاسکتا ہے۔ (امدکم بانعام) ” اس نے چوپایوں کے ذریعے سے تمہاری مدد کی۔ “ یعنی اس نے تمہیں اونٹ، بھیڑ بکریاں اور گائیں عطا کیں (وبنین) ” اور بیٹے عطا کیے۔ “ یعنی کثرت نسل سے نوازا اس نے تمہیں بہت زیادہ مال اور اولاد، خاص طور پر نرینہ اولاد عطا کی۔ جو دونوں اقسام میں سے بہترین نعمت ہے۔ یہ تو تھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد دلا کر وعظ ونصیحت۔ پھر انہیں نزول عذاب سے ڈرایا : (انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم) میں تم پر اپنی شفقت اور تمہارے ساتھ نیکی کی بنا پر ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بڑے دن کا عذاب نازل نہ ہوجائے۔ تمہارے کفر اور بغاوت کے رویے پر جمے رہنے کی بنا پر جب وہ عذاب نازل ہوگیا تو کسی کے روکے نہیں رکے گا۔ انہوں نے حق کے ساتھ عناد کا مظاہرہ اور اپنے نبی کی تکذیب کرتے ہوئے کہا : (سواء علینا اعظت ام لم تکن من الوعظین) ” خواہ نصیحت کردیا نہ کرو، ہمارے لئے یکسان ہے۔ “ یعنی سب برابر ہے۔ یہ سرکشی کی انتہاء ہے کہ جب قومیں اس حالت کو پہنچ جاتی ہیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے مواعظ و تذکری، جن کے سامنے پہاڑوں جیسی ٹھوس چٹانیں بھی پگھل جاتی ہیں اور عقل مندوں کے دل لخت لخت ہوجاتے ہیں، کا وجود اور عدم وجود برابر ہوں تو یہ ان کے ظلم اور بختی کی آخری حد ہے۔ تب ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوجاتی ہے۔ اس الئے انہوں نے کہا : (ان ھذا الا خلق الاولین) ” یہ تو اگلوں ہی کے طرق ہیں۔ “ یعنی یہ احوال اور یہ تمام نعمتیں وغیرہ، پہلے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہوتا آیا ہے۔ وہ کبھی مالدار ہوتے تھے اور کبھی محتاج۔ یہ زمانے کے حالات ہیں۔ یہ سختیان اور نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ اس کے بندوں کی آزمائش ہیں (وما نحن بمعذبین) ’ ’ اور ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا۔ “ یہ گویا ان کی طرف سے قیامت کا انکار یا اپنے نبی کو اس کی رائے سے ہٹانے کی کوشش یا اس کے ساتھ استہزا ہے اور اگر ہم فرض کرلیں کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا بھی گیا تو جس طرح ہمیں دنیا میں نعمتوں سے نوازا گیا ہے اسی طرح ہمیں دوسری زندگی میں بھی نعمتیں عطا ہوتی رہیں گے۔ (فکذبوہ) ’ پس انہوں نے اس کی تکذیب کی۔ “ یعنی تکذیب ان کی فطرت اور عادت بن گئی تھی اور اس سے کوئی انہیں باز نہیں رکھ سکتا۔ (فاھلکنھم) ” تو ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ “ یعنی (بریح صر صر عاتیۃ۔ سخرھا علیھم سبع لیال وثمنیۃ ایام حسوما فتری القوم فیھا صرعی کانھم اعجاز نخل خاویۃ) (الحاقۃ : 29/6، 8) ” (قوم عاد کو ( نہایت تیز آندھی نے ہلاک کردیا اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک اس آندھی کو ان پر چلائے رکھا، پس تو لوگوں کو اس میں اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھے گا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔ (ان فی ذلک لایۃ) اس میں ہمارے نبی ہود علیہ السلام، ان کی دعوت کی صداقت اور ان کی قوم کے شرک اور سرکشی کے بطلان پر دلیل ہے۔ (وما کان اکثرھم مومنین) ان نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائے جو ایمان کا تقاضا کرتی ہیں۔ (وان ربک لھو العزیز) ” اور تمہارا رب تو غالب ہے۔ “ جس نے اپنی قدرت کے ذریعے سے حضر ہود (علیہ السلام) کی قوم کو، ان کے طاقتور اور زبردست ہونے کے باوجود، ہلاک کر ڈالا۔ (الرحیم) ” نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ یعنی وہ اپنے نبی ہود (علیہ السلام) پر بہت رحم کرنے والا تھا کیونکہ اس نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اہل ایمان کو کفار سے نجات بخشی۔
Top