Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
( کذبت عاد المرسلین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) کذبت عاد المرسلین ثانیث قبیلہ اور جماعت کے معنی کی وجہ سے ہے۔ وہ مرسلین کو جھٹلاتے جس طرح پہلے گزرچکا ہے۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَ لَا تَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّقُوا اللہ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ معنی واضح ہے بحث گزر چکی ہے۔ اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ ۔ ربع سے مراد وہ چیز ہے جو زمین سے بلند ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے علماء کا قول ہے : یہ ریعۃ کی جمع ہے کا ریع ارضک تیری زمین کی بلندی کتنی ہے۔ قتادہ نے کہا : ربع سے مراد راستہ ہے : یہ ضحاک، کلبی، مقاتل اور سدی کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بھی یہ قول ہے اس معنی میں مسیب بن علس کا قول ہے۔ فی الال یخفضھا ویرفعھا ریع یلوح کا نہ سحل (1) رستہ کو سفید کپڑے سے تشبیہ دی۔ نحاس نے کہا : لغت میں معروف ہے زمین سے جب کوئی چیز بلند ہو تو اسے ربع کہتے ہیں۔ اسی معنی میں شاعر کا شعر ہے : طراق الخوافی مشرق فوق ریعۃ ندی لیلہ نی ریشہ یترقرق عمارہ نے کہا : ریع سے مراد پہاڑ سے واحد ریعۃ ہے جمع ریاع آتی ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد دو پہاڑوں کے درمیان کھلا راستہ ہے۔ انہیں سے معنی ثنیۃ صغیرہ مروی ہے۔ ان سے اس کا معنی منظرہ مروی ہے۔ عکرمہ اور مقاتل نے کہا : جب وہ سفر کرتے تو وہ ستاروں سے رہنمائی لیتے وہ راستوں پر لمبے لمبے نشان بناتے تاکہ ان سے ہدایت حاصل کریں اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان آیۃ دلالت کرتا ہے۔ اس سے مراد علالت ہے۔ مجاہد سے مروی ہے ربع سے مراد حمام کی عمارت ہے اس کی دلیل تعبتون ہے یعنی تم کہتے ہو۔ یعنی تم ہر بلند جگہ نشانی کے طور پر بناتے ہو جس کے ساتھ تم کھیلتے ہو۔ مراد حمام اور برج بنانا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جو آدمی راستہ سے گزرتا اس کے ساتھ کھیلتے ہو، یعنی تم بلند جگہ بناتے ہوتا کہ تم راستہ پر جھانکو اور ان سے مذاق کرو، کلبی نے کہا : اس سے مراد عاشروں ( ٹیکس لینے والے) کا گزرنے والوں کے اموال سے کھیلنا ہے : ماوردی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن اعرابی نے کہا : ربع سے مراد گرجا ہے اور ربع سے مراد حمام کا برج ہے جو صحراء میں ہوتا ہے۔ ربع سے مراد بلند ٹیلہ ہے۔ ربع میں دو لغتیں ہیں۔ راء کے نیچے کسرہ اور اس پر فتحہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مضبوط قلعے، یہ حضرت ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے۔ اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : ترکنا دیارھم منھم قفارا وھدمنا المصانع والبروجا ہم نے ان کے گھروں کو چٹیل چھوڑا اور ہم نے مصانع اور برج گرا دیئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد مضبوط محلات ہیں : یہ مجاہد کا بھی قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے : حمام کے برج : یہ سدی کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : مجاہد سے یہ قول حقیقت سے بعید ہے کیونکہ ان سے پہلے یہ قول گزر چکا ہے اس سے مراد حمام کی عمارت 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 238 ہے تو کلام میں تکرار ہوگا۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد زمین کے نیچے پانی کے مآجل ( وہ گڑھے جن میں پانی جمع ہو) ہے اسی طرح زجاج نے کہا : اس سے مراد مصانع الماء ہے اس کا واحد مصنعۃ اور مصناع ہے۔ اسی معنی میں لبید کا قول ہے : بینا وماتبلی النجوم الطوالع وتبقی الجبال بعدنا والمصانع ہم بوسیدہ ہوگئے اور طلوع ہونے والے ستارے بوسیدہ نہیں ہوتے اور ہمارے بعد پہاڑ اور مصانع باقی رہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : مصنعہ حوض کی طرح ہوتا ہے اس میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے اسی طرح مصنعہ ہے مصانع کا معنی قلعے بھی ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : ہر عمارل کو مصنع کہتے ہیں : مہدوی نے اسے بیان کیا ہے۔ عبد الرزاق نے کہا : ہمارے نزدیک یمن کی لغت میں مصانع سے مراد عادی محلات ہے۔ لعلکم تخلدون تاکہ تم ہمیشہ رہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لعل استفہام، توبیخ کے معنی میں ہے یعنی کیا تم ہمیشہ رہو گے۔ جس طرح تیرا قول ہے : لعلک تشنی کیا تو مجھے گالیاں دیتا ہے۔ ابن زید سے اس کا معنی مروی ہے۔ فراء نے کہا : تاکہ تم ہمیشہ رہو تم موت میں غور و فکر نہیں کرتے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ نے کہا : گویا تم اس میں ہمیشہ اور باقی رہنے والی ہو۔ بعض قرأیتوں میں ہے کا نکم تخلدون : نحاس نے اس کو ذکر کیا ہے۔ قتادہ نے حکایت بیان کی ہے : بعض قرایتوں میں کا نکم خالدون ہے۔
Top