Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
قومِ عاد نے رسولوں کو جھٹلایا
کَذَّبَتْ عَادُ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ ھُوْدٌ اَلاَ تَـتَّـقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّـقُواللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ ۔ (الشعرآء : 123 تا 126) (قومِ عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان کو آگاہ کیا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں۔ میں تمہارے لیے ایک رسول امین ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ) حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم کی سرگزشت قومِ نوح کے بعد جس قوم نے بہت ترقی کی اور جسے بہت عروج حاصل ہوا وہ قوم عاد تھی جس کا ذکر اس رکوع میں ہوچکا ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر قوم عاد کو قوم نوح کا خلیفہ قرار دیا۔ ان کی جسمانی صحت اور مضبوطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وَزَادَکُمْ فِیْ الْخَلْقِ بَصْطَـۃً ” اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنومند کیا۔ “ ان کی ترقی کے حوالے سے فرمایا اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلاَدِ ” جس کے مانند ملکوں میں کوئی قوم پید نہیں کی گئی۔ “ اپنی ترقی کے اظہار کے لیے انھوں نے بلند وبالا عمارتیں بنانے کا ایک کلچر پیدا کرلیا تھا اور ان کی عمارتیں عموماً اونچے اونچے ستونوں پر قائم تھیں اور اپنی بلند وبالا عمارتوں کے حوالے سے تاریخ میں ان کی بہت شہرت تھی۔ ان کا سیاسی نظام اگرچہ بظاہر بڑا مضبوط دکھائی دیتا تھا لیکن طبقات کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے طاقتور لوگ اس نظام پر حاوی تھے اور انھوں نے قوت کے زور سے اختیارات پر قبضہ کر رکھا تھا۔ عقیدے کے اعتبار سے ایک اللہ کے قائل ہونے کے باوجود بندگی میں نہ صرف دوسروں کو شریک کرتے تھے بلکہ جابجا طواغیت نے اپنی مسندوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی وحدت کا بھی فقدان تھا اور سیاسی وحدت بھی پارہ پارہ ہوچکی تھی۔ وہ طاقت کی زبان سمجھتے اور طاقت کی زبان بولتے تھے۔ ظلم ان کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا۔ ان مفاسد کی وجہ سے تمدن بری طرح بگاڑ کا شکار ہوچکا تھا۔ بالاتر طبقات کی حکومت کے باعث ایک مضبوط ریاست کا وہم ہوتا تھا۔ ان کی ریاست الاحقاف کے نام سے جانی جاتی تھی جو آج ایک خوفناک ریگستان بن چکا ہے اور جس میں زندگی کے دور دور تک آثار نہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) ایسی طاقتور لیکن بگڑی ہوئی قوم میں مبعوث ہوئے انھوں نے بھی حضرت ہود (علیہ السلام) کی نبوت اور آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو جھٹلایا، چونکہ ان کی تکذیب درحقیقت پیغامِ رسالت کی تکذیب تھی، اس لیے انھوں نے صرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے تمام رسولوں کو جھٹلا دیا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ اخوت کا رشتہ رکھتے تھے اس لیے انھیں غایت درجہ اپنی قوم سے ہمدردی تھی۔ اس لیے ان کے بگڑے ہوئے حالات اور مخدوش مستقبل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے تبلیغ و دعوت کا آغاز انذار سے کیا۔ اور نہایت قوت سے انھیں جھنجوڑتے ہوئے کہا کہ کیا تم اپنے کرتوتوں کے باعث اللہ تعالیٰ اور اپنے برے انجام سے ڈرتے نہیں ہو۔ میں تمہارے پاس رسول امین کی حیثیت سے آیا ہوں، کیونکہ میری سابقہ زندگی سے تم پوری طرح واقف ہو۔ میرا بےعیب کردار میری حقانیت کی گواہی دیتا ہے۔ ایک معتبر اور معتمد رسول کے آجانے کے بعد تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا جس کے سہارے تم اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کی ہمت کرسکو۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام میں تمہارے سامنے کھول کر پیش کرچکا ہوں اور میری ذات اور میرا عمل اس کی حقانیت کی شہادت دے رہا ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو تاکہ تم حق و باطل اور صحیح اور غلط میں امتیاز کرکے صحیح راستہ اختیار کرسکو۔
Top