Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
قوم عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 123 تا 140 : اتبنون ( کیا تم تعمیر کرتے ہو) ‘ ریع (بلندی اونچائی) ‘ تعبثون ( بلا ضرورت کام کرتے ہو) ‘ مصانع (شان دار۔ مضبوط) تخلدون (تم ہمیشہ رہوگے) ‘ بطشتم (تم نے پکڑا۔ گرفت میں لیا) ‘ جبار ین ( زبردستی کرنے والے۔ ظالم لوگ) ‘ امدکم (اس نے تمہاری مدد کی) ‘ انعام (مویشی جانور) بنین (بن) بیٹے ‘ سوائ (برابر) ‘ وعظت (تونے نصیحت کی) ‘ خلق (عادتیں۔ رسمیں۔ اخلاق) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 123 تا 140 : سورۃ الشعراء میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی دین اسلامی کی سربلندی کے لئے جدوجہد ‘ کچھ لوگوں کا ایمان لا کر نجات پانا اور ان کی قوموں کی نافرمانیوں اور انکار کی وجہ سے جو شدید ترین عذاب آئے ان کا ذکر کرنے کے بعد اب قوم عاد کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی اصلاح اور ہدایت کیلئے اللہ نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ قوم عاد جو عظیم الشان تہذیب و تمدن ‘ حکومت و سلطنت اور بےپناہ قوت و طاقت کی مالک تھی وہ بنیادی طور پر اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت و طاقت کا انکار تو نہ کرتی تھی مگر اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے ان بیشمار بتوں کو اپنا مشکل کشا اور سفارشی سمجھتی تھی جن کے متعلق ان کا یہ گمان تھا کہ اس دنیا میں اور آخرت میں یہ بت ہی ان کے کام آئیں گے اور سفارش کر کے جہنم سے نجات دلائیں گے۔ انہوں نے اپنی ہر خواہش اور تمنا کے لئے الگ الگ بت بنارکھے تھے جن سے اپنی منتیں اور مرادیں مانگا کرتے تھے۔ اللہ کے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم ایک اللہ کی عبادت و بندگی چھوڑ کر ان بیشمار بتوں کی عبادت و پرستش نہ کرو۔ یہ گمراہی ہے اس راستے کو چھوڑدو۔ برسوں سے ان بتوں کی پوجا کرنیوالے حیران و پریشان ہو کر کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر ایک بن دیکھے معبود کی عبادت و بندگی کریں۔ جبکہ ہمارے باپ دادا ان بتوں سے پانی حاجات اور مرادیں مانگ کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کا گمان تھا کہ ان کو جو طاقت وقوت اور عظمت ملی ہے وہ ان کے بتوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ وہ ان بتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت و اطاعت قبول کرنے کو اپنے باپ دادا کی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے باپ دادا اسی گمراہی میں مبتلا رہے تھے۔ جب حضرت ہود (علیہ السلام) نے ہر جگہ اور ہر مجلس میں ان باتوں کو کہنا شروع کیا تو قوم عاد کے لوگوں کا غصہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ ابتداء میں ان لوگوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ بھبتیاں کسیں ‘ دیوانہ اور مجنون کہا جب ان لوگوں نے تحریک کی سنجیدگی اور پھیلائو کو دیکھا تو اہل ایمان کو ستانا شروع کردیا۔ انہیں اپنی قوت و طاقت پر بڑا ناز اور گھمنڈ تھا کہنے لگے کہ اے ہود (علیہ السلام) ! ” من اشد منا قوۃ “ یعنی ہم سے زیادہ قوت و طاقت والا اور کون ہے ؟ کہنے لگے کہ تم جس عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے اس سے پہلے بھی ہم نے بہت سے لوگوں کی ایسی باتیں سنی ہیں۔ اگر تم واقعی سنجیدہ ہو اور سچ کہہ رہے ہو تو اس عذاب کو لے آئو جس کو تم بیان کرتے ہو تاکہ روز روز کی دھمکیوں سے جان چھوٹ جائے جسنے ہمارا جینا دو بھر کردیا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ واقعی تمہارے اعمال ایسے ہی ہیں کہ تمہارے اوپر عذاب آنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے اور آخر کار اس قوم پر اتنا شدید عذاب آیا جس نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ روایات میں آتا ہے کہ قوم عاد جسمانی طور پر مضبوط ‘ نہایت لمبے چوڑے ‘ طاقتور ‘ حسین و خوبصورت بہادر اور جنگ جو لوگ تھے۔ خوش حالی ‘ مال و دولت کی ریل پیل اور کثرت ‘ سرسبز و شاداب علاقے بلندو بالا ستونوں والی عمارتیں ‘ شاندار ترقیات نے ان کو نفس پرستی اور مادہ پرستی میں اس قدر ڈوبو دیا تھا کہ دنیا کی چیزوں اور فضول بلڈنگوں کی دوڑ نے ایک جنون کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان کی بلند وبالا عمارتوں کا مقصدمحض ایک دوسرے کو دکھا کر فخر و غرور کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وہ معیار زندگی کو بلند کرنے کی تگ ودو میں انسانی ہمدردی۔ معیار اخلاق اور انسانیت کی حدود کو پھلانگ کر اس قدر کمزور ‘ پست اور ذلیل ہوچکے تھے کہ وہ غریبوں ‘ محتاجوں ‘ بےکسوں پر ظلم و ستم کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے ان کے نزدیک ایک غریب آدمی کسی ہمدردی اور انصاف کا مستحق نہیں تھا۔ لہٰذا وہ کمزوروں کے حقوق کو غصب کرنا اور ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو جائز سمجھتے تھے ۔ وہ لوگ دولت کینشے میں سخت گیر ‘ ظالم ‘ جابر اور غرور وتکبر کے پیکر بن چکے تھے۔ قوم عاد کے اس فخر و غرور ‘ تکبر اور جھوٹے اعتماد نے بھی ان کو پیغمبر برحق حضرت ہود (علیہ السلام) کی بات سننے سے دور کردیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے قوم عاد کا زمانہ حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے تقریباً دو ہزار سال پہلے تھا۔ قرآن کریم میں ” من بعد قوم نوح “ کہہ کر ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد آنے والی قوم میں شمار کیا ہے۔ قوم عاد کی بستیاں حضرت موت اور یمن میں خلیج فارس کے ساحلوں سے عراق کی حدود تک پھیلی ہوئی تھیں اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ جب قوم عاد کا اخلاقی بگاڑ اور روحانی گمراہی اپنی انتہاؤں پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے ‘ آگاہ کرنے اور صراط مستقیم پر چلانے کے لئے حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کوئی اجنبی شخص نہ تھے بلکہ اس قوم کے وطنی اور قومی بھائی تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) جن کی عمر مبارک تقریباً پونے پانچ سو سال کی ہوئی۔ پوری زندی لوگوں کو فکر آخرت ‘ قیامت کی ہولناکی اور توحید و رسالت کی عظمت بیان کرن کے ساتھ ساتھ بےجا فخر و غرور ‘ تکبر ‘ مال و دولت پر گھمنڈ ‘ فضول بلڈنگوں کی تعمیر اور ظلم و ستم سے روکنے کی بھر پورکوشش فرماتے رہے مگر قوم کی بےحسی ‘ بےعملی کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کی باتوں کا اثر لینے کے بجائے مذاق اڑاتے ‘ طرح طرح سے ستاتے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کو دیوانہ سمجھتے تھے ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں نہایت دیانت کے ساتھ اللہ کا پیغام تم تک پہنچانے آیا ہوں۔ تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو۔ فرمایا یہ سب کچھ کہنے اور سمجھانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں اس اصلاحی کام پر تم سے کسی صلہ ‘ بدلہ یا اجرت کا طلب گار ہوں کیونکہ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمے ہے وہی بہترین بدلہ دینے والا ہے۔ فرمایا کہ دنیا دکھاوے ‘ شہرت اور نام و نمود کے لئے اونچے اونچے ٹیلوں پر بلند وبالا عمارتیں ‘ مینار اور سیر گاہیں اور فضول اور بےضرورت بلڈنگیں بنانا یہ تمہارے کام نہ آئے گا۔ اپنے اعمال کی فکر کرو کیونکہ اگر تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے وہ عذاب آگیا جو قوموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے تو یہ تمہاری بلند وبالا بلڈنگیں اور مال و دولت تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ تمہیں تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے تمہیں صحت مند اور تندرست بنایا۔ اولاد کی نعمتوں ‘ خوبصورت باغات ‘ بہتے چشموں اور خوش حالیوں سے نوازا ہے۔ اس پر اگر شکر کرو گے تو اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا بلکہ آخرت کی کامیابیاں بھی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر تم نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہ کیا اور اسی طرح اللہ کی کھلی ہوئی نافرمانیوں میں لگے رہے تو مجھے ایک بہ تبڑے دن کی عذاب کا اندیشہ ہے۔ قوم عاد کا جواب یہ تھا کہ اے ہود (علیہ السلام) ! تم ہمیں نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یکساں ہے تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ پہلے کے لوگ بھی کہتے آئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ تم جس عذاب کی باتیں کررہے ہو وہ ہمارے اوپر نہیں آئے گا کیونکہ قوت و طاقت میں ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ اس طرح وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کو مسلسل جھٹلاتے رہے اور کہنے لگے کہ اے ہود (علیہ السلام) ! اگر واقعی کوئی عذاب آنے والا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تم وہ عذاب بس لے ہی آئو جس کی دھمکیاں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہیں ہر طرح سمجھا چکا ہوں مگر تمہاری نافرمانیاں اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب تم سے دور نہیں ہے۔ اللہ نے ان کی ان نافرمانیوں پر فوراً ہی اپنا عذاب نازل نہیں کیا بلکہ ان کو آگاہ کرنے کے لئے ان پر خشک سالی کا عذاب مسلط کیا۔ بارش برسنا بند ہوگئی جس سے ان کی کھیتیاں اس طرح خشک ہوگئیں کہ ان کے کھیتوں میں سوائے کانٹے دار درختوں کے کچھ بھی نہ اگ سکا۔ اس عذاب سے گھبراکر انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے اس قحط سالی کے دور ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی چونکہ اللہ کے پیغمبر اپنی قوم پر انتہائی شفیق ‘ مہربان اور انکے خیر خواہ ہوتے ہیں لہٰذا انہوں نے قوم کی اس مشکل کے دورہونے کی دعا کی جو قبول کرلی گئی۔ اس طرح وقتی طور پر قحط کا خطرہ ٹل گیا مگر ان کے کھیتوں کی رونقیں بحال نہ ہوئیں۔ ہر روز وہ امید بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے کہ شاید بارش ہوجائے مگر یہ خشک سالی بڑھتی گئی۔ ایک دن اچانک آسمان پر بادل آنا شروع ہوگئے اور وہ بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس وقت بھی وہ اللہ کا شک ادا کرنے کے بجائے اپنے کھیل کود ‘ رنگ رلیوں اور بدمستیوں میں لگ کر خوشیاں منانے لگے مگر اس وقت ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب ان بادلوں سے بارش برسنے کے بجائے تیز ہواؤں کے جھونکے آنا شروع ہوگئے اور آہستہ آہستہ اس ہوا نے آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ تیز طوفانی ہواؤں سے گھروں کی چھتیں اڑگئیں ‘ بڑے بڑے درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے اور جڑوں سے اکھڑنے لگے۔ آندھی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ اس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پتھروں سے ٹکرادیا جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ گئیں۔ مکانوں کی دیواریں اور چھتیں گر کر اڑنا شروع ہوگئیں۔ غرضیکہ اس آندھی اور طوفان کی شدت نے ان کے فخر و غرور کی ہر چیز کو تہس نہس کرڈالا۔ یہ آندھی اور طوفان مسلسل آٹھ دن اور سات راتوں تک جاری رہا۔ جب تک اس قوم کا نافرمان ایک ایک فرد ختم نہ ہوگیا اس وقت تک اس طوفان کی شدت میں کمی نہیں آئی۔ اللہ نے بتادیا کہ اس نافرمان قوم کی ترقیات ‘ تہذیب و تمدن ‘ بلندو بالا عمارتیں کسی کام نہ آسکیں اور کھنڈر بن کر ان کے انجام کی داستانیں سنانے کے لئے کھڑ رہ گئیں۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان والوں کو نجات عطا فرمادی اور ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں کے باوجود جو لوگ ان سچائیوں کو نہیں مانتے جن پر تاریخ کے اوراق بھی گواہ ہیں تو یہ ان کی بدنصیبی ہے مگر اللہ تعالیٰ جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اپنے بندوں کو سنبھلنے کی مہلت دیئے چلا جارہا ہے۔ اگر انہوں نے ان واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرلی تو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ان آیات میں کفار مکہ اور قیامت تک آنے والے لوگوں کو بتادیا گیا ہے کہ جب تک انسان کے پاس توبہ کا وقت موجود ہے تو وہ توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلے۔ لیکن اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر سوائے پچھتانے اور شرمندہ ہونے کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ اگر کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی اور تاریخ کی ان سچائیوں سے عبرت حاصل نہ کی تو پھر ان کا انجام گزری ہوئی قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔
Top