Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
البتہ یقینا تمہارے پاس رسول آگیا ہے جو تم میں سے ہی ہے۔ تمہیں جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ان کو سخت ناگوار گذرتی ہے۔ وہ اہل ایمان کے لئے بہت ہی بھلائی کے خواہشمند ، نہایت شفیق اور نہایت کرم کرنے والے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 128 تا 129 من انفسکم (تمہارے اندر سے، تم میں سے) عزیز (بھاری ہے) عنتم (جو تمہیں نقصان پہنچے) حریص (زیادہ خواہشمند) رء وف (مہربان) رحیم (بہت رحم کرنے والا) حسبی اللہ (مجھے اللہ کافی ہے) توکلت (میں نے بھروسہ کرلیا) ھو (وہ) رب العرش العظیم (عرش عظیم کا پروردگار) تشریح : آیت نمبر 128 تا 129 سورئہ توبہ کو حق تعالیٰ شانہ نے ان دو آیات پر ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے پاس اللہ کے وہ رسول ﷺ آ چکے ہیں جو تمہارے انتہائی مخلص و مہربان ہیں جو ہر وقت اہل ایمان کی بھلائی کے خواہشمند رہتے ہیں شفقت و محبت اور کرم کرنا جن کا مزاج ہے۔ ان تمام سچائیوں کے باوجود اگر وہ کفار و منافقین پھر بھی ایسے ظعیم رسول سے منہ پھیرتے ہیں تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ نبی کریم ﷺ سے بھی فرما دیا گیا ہے کہ آپ ان تک پیغام حق ضرور پہنچا دیجیے لیکن اگر وہ غیر اللہ کو ہی اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں تو آپ اعلان فرما دیجیے کہ میرا اللہ مجھے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہی ساری کائنات اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ سورئہ توبہ کی ان دو آخری آیتوں کے متعلق حضرت ابی بن کعب نے فرمایا کہ سورة توبہ کی یہ آخری دو آیتیں قرآن کریم کی بھی آخری آیتیں ہیں جن آیتوں کے بعد آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ (قرطبی) سورئہ توبہ کی ان دو آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لئے فرمایا ہے کہ وہ ایسی عالی صفت شخصیت ہیں، وہ سارے عرب ساری دنیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں جن کی شفقت و رحمت اس قدر عظیم ہے کہ خود تکلیفیں برداشت کرتے ہیں لیکن امت کی ادنیٰ سی تکلیف بھی آپ کو گوار نہیں ہے۔ وہ ساری انسانیت کے لئے مونس و غم خوار، ہمدرد غم گسار اور حد درجہ مہربان ہیں ایسے شفیق و مہربان نبی ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن اگر کوئی پھر بھی اپنی بدقسمتی کو آزاد دیتا ہے اور وہ ایسے پیارے، شفیق اور عظیم نبی ﷺ سے منہ پھر لیتا ہے تو فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ان کی بےرخی سے پریشان نہ ہوں۔ اللہ پر بھروسہ کیجیے وہی ساری کائنات کا اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top