Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 196
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الرَّسُوْلُ
: رسول
لَا يَحْزُنْكَ
: آپ کو غمگین نہ کریں
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُسَارِعُوْنَ
: جلدی کرتے ہیں
فِي
: میں
الْكُفْرِ
: کفر
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِاَفْوَاهِهِمْ
: اپنے منہ سے (جمع)
وَ
: اور
لَمْ تُؤْمِنْ
: مومن نہیں
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَمِنَ
: اور سے
الَّذِيْنَ هَادُوْا
: وہ لوگ جو یہودی ہوئے
سَمّٰعُوْنَ
: جاسوسی کرتے ہیں
لِلْكَذِبِ
: جھوٹ کے لیے
سَمّٰعُوْنَ
: وہ جاسوس ہیں
لِقَوْمٍ
: جماعت کے لیے
اٰخَرِيْنَ
: دوسری
لَمْ يَاْتُوْكَ
: وہ آپ تک نہیں آئے
يُحَرِّفُوْنَ
: وہ پھیر دیتے ہیں
الْكَلِمَ
: کلام
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
مَوَاضِعِهٖ
: اس کے ٹھکانے
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اِنْ اُوْتِيْتُمْ
: اگر تمہیں دیا جائے
هٰذَا
: یہ
فَخُذُوْهُ
: اس کو قبول کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
لَّمْ تُؤْتَوْهُ
: یہ تمہیں نہ دیا جائے
فَاحْذَرُوْا
: تو اس سے بچو
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
يُّرِدِ اللّٰهُ
: اللہ چاہے
فِتْنَتَهٗ
: گمراہ کرنا
فَلَنْ تَمْلِكَ
: تو ہرگز نہ آسکے گا
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
شَيْئًا
: کچھ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَمْ يُرِدِ
: نہیں چاہا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّطَهِّرَ
: پاک کرے
قُلُوْبَهُمْ
: ان کے دل
لَهُمْ
: ان کے لیے
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
خِزْيٌ
: رسوائی
وَّلَهُمْ
: اور ان کے لیے
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
اے پیغمبر ان لوگوں کی روش تمہیں غم میں نہ ڈالے جو کفر کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں ان لوگوں میں سے جو زبان سے تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا اور ان لوگوں میں سے جنھوں نے یہودیت اختیار کی ہے یہ جھوٹ کے رسیا اور دوسروں کی باتیں ماننے والے ہیں جو خودتمھارے پاس نہیں آتے وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا (موقع و محل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہونے کے باوجود) اس کو اس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں ‘ اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو ‘ نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا ‘ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ج وَمِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا ج سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ یَاْتُوْکَ ط یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا ط وَمَنْ یُّرِدِ اللہ ُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَیْئًا ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللہ ُ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْط لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ لا وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 41) ” اے پیغمبر ! ان لوگوں کی روش تمہیں غم میں نہ ڈالے ‘ جو کفر کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں سے جو زبان سے تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا اور ان لوگوں میں سے جنھوں نے یہودیت اختیار کی ہے یہ جھوٹ کے رسیا اور دوسروں کی باتیں ماننے والے ہیں ‘ جو خودتمھارے پاس نہیں آتے۔ وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا موقع و محل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہونے کے باوجود اس کو اس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو ‘ نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو ‘ اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی لوگ ہیں ‘ جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا۔ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے “۔ خلوص نیت سے دین کا کام کرنے والوں کے لیے تسلی پہلی بات کی طرف یٰٓااَیُّھَا الرَّسُوْلُ کے خطاب سے آنحضرت ﷺ کو توجہ دلائی گئی کہ آپ ان لوگوں کی اس روش اور ان کے کرتوتوں سے غمزدہ نہ ہوں اور اس بات کو کبھی محسوس نہ فرمائیں کہ آپ کی تمام تر ہمدردیوں ‘ خیرخواہیوں اور کوششوں کے باوجود ‘ یہ لوگ کفر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ کا منصب رسالت ہے۔ آپ کو اس سے ہرگز اثر قبول نہیں کرنا چاہیے کہ آپ کے حق رسالت کی ادائیگی کے باوجود ‘ یہ لوگ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جواب اللہ کے یہاں انھوں نے دینا ہے ‘ آپ نے نہیں۔ آپ اس پر غمزدہ کیوں ہیں اور مزید یہ بات کہ آج تک جتنے رسول دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں ‘ ان کی قوموں نے ان کے ساتھ کب اچھا رویہ اختیار کیا ہے ‘ ان کی خیر خواہی کے جواب میں انھوں نے ہمیشہ بدخواہی کی ‘ پیغمبروں نے خون کے گھونٹ پی پی کر ان کو راہ راست پر لانا چاہا ‘ مگر وہ ان کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ انھوں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ سے ان کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگیں ‘ مگر ان کی قوموں نے ہمیشہ ان کے قتل کے منصوبے باندھے۔ جب رسالت کی تاریخ ایسے ہی تجربات سے بھرپور ہے اور قرآن کریم بار بار ان کا تذکرہ بھی کر رہا ہے تو پھر اے پیغمبر ! آپ کو ان کی ایذائوں اور ان کے کرتوتوں سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ؎ زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں ‘ یہ ان سے جنگ کرتا ہے اللہ کے نبیوں کی شان تو خیربہت بڑی ہے ‘ لوگوں نے تو اپنے مصلحین کے ساتھ کبھی اچھا رویہ اختیار نہ کیا۔ بہت کم مصلح ایسے گزرے ہیں ‘ جنھیں اپنی اصلاحی کوششوں کے جواب میں اچھے نتائج ملے ہوں اور اپنے ان غمگساروں کے ساتھ لوگوں نے کبھی شریفانہ رویہ اختیار کیا ہو۔ لاہور میں ‘ اس لاہور کے سب سے بڑے مصلح اور محسن شیخ علی ہجویری ( رح) جو ” داتا صاحب “ کے نام سے معروف ہیں ‘ تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اہل لاہور نے زندگی میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ زندگی میں جن مصلحین کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ‘ مرنے کے بعد ان کی پوجا شروع کردی جاتی ہے۔ اسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی نے نہایت دکھ سے یہ بات کہی تھی : یہ قوم گویا ہے اک پہیلی ‘ جو عقل دقت سے بوجھتی ہے جو بات اوروں کو جلد سوجھے ‘ وہ دیر بعد اس کو سوجھتی ہے یہ زندگی میں برا ہی کہتی ہے ‘ موت کے بعد پوجتی ہے سَمّٰعُوْنَ سے مراد کون لوگ ہیں دوسری بات جس کی طرف ان آیات میں متوجہ کیا گیا ہے وہ ہے : سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ یَاْتُوْکَ ط ” سَمّٰعُوْنَ “ جمع ہے سمّاع کی۔ یہ اسم مبالغہ ہے ‘ جس کا معنی ہے ‘ بہت سننے والا۔ اس کا استعمال عام طور پر دو معنوں میں ہوتا ہے ‘ ایک تو اس آدمی کو کہتے ہیں ‘ جو کسی چیز کا رسیا ہو اور دوسرا اس کا معنی ہوتا ہے ” جاسوس “۔ یہاں دونوں معنی مرادہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ جھوٹ کے رسیا ہیں اور دوسری قوم یعنی یہود کے جاسوس ہیں اور ان دونوں کے درمیان چونکہ حرف عطف نہیں ہے ‘ اس لیے اصلاً یہ ایک ہی بیماری کی دو شکلیں ہیں۔ پروردگار ہمیں یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ان منافقین کی یہ روش اس وجہ سے ہے کہ ان کو جھوٹ سے انتہادرجہ کی سازگاری ہے۔ یہ اپنی زندگی کے تمام معاملات اور گفتگو کے تمام اسالیب میں جھوٹ ہی کو اپنا راہنما جانتے ہیں۔ یعنی جھوٹ بولتے ہیں ‘ جھوٹ سنتے ہیں ‘ معاملات میں جھوٹ سے کام لیتے ہیں ‘ فیصلوں میں بھی جھوٹ بول کر اپنا مطلب حاصل کرتے ہیں ‘ گواہی کی ضرورت پڑے تو جھوٹے گواہ بنا لیتے ہیں۔ جن لوگوں کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ بن جائے اور ان کی پوری زندگی جھوٹ سے عبارت ہو۔ ان کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی صحبتوں سے فائدہ اٹھائیں یا آپ کی عدالت سے اپنے معاملات کا فیصلہ چاہیں۔ اس لیے کہ یہاں آ کر ان کو سوائے صدق اور سچائی کے ‘ کسی چیز کی کارفرمائی نظر نہیں آئے گی۔ وہ یوں محسوس کریں گے جیسے نئی صورت حال سے دوچار ہو رہے ہوں اور دوسری مشکل ان کی یہ ہے ‘ جو اسی برائی کا دوسرا رخ ہے کہ وہ دوسری قوم یعنی یہود کے جاسوس ہیں۔ ان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ انھیں سچائی سے نفور ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے ایجنٹ ہیں ‘ انہی کی راہنمائی میں اور انہی کے اشاروں پر چلنا اور زندگی گزارنا اپنا رویہ بنا چکے ہیں۔ اب اگر ان کی طبیعت میں کبھی اچھائی کا تصور آتا بھی ہے تو برسوں کی برائی کی چھاپ ان کے اچھائی کے تصور کو دبا دیتی ہے اور یا ان کے ان حاکموں کا اثر اور ان کے مفادات ‘ جن کے یہ جاسوس ہیں ‘ اس روش سے انھیں نکلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان منافقین کی اس بیماری کے تذکرے میں ‘ ہم مسلمانوں کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے۔ ہم بفضلہ تعالیٰ اسلام کا دعویٰ رکھتے ہیں ‘ لیکن جب کبھی مملکت خداداد کی عدالتوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کا سوال اٹھتا ہے اور اس کے پورے سیٹ اپ کو بدل کر سچائی کے مطابق بنانے کی بات ہوتی ہے تو ہماری جھوٹ اور جھوٹی زندگی سے محبت ‘ ہمیں بغاوت پر آمادہ کردیتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر سچائی کو غلبہ مل گیا تو ہمیں اپنے کتنے جھوٹے مفادات سے دستبردار ہونا پڑے گا ‘ کتنے مظالم ہیں جن کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ جھوٹ کا ایک کاروبار جو نام نہاد وکالت کے نام سے ہماری عدالتوں میں جاری ہے ‘ وہ ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ جھوٹے گواہوں کا عدالتوں میں داخلہ تک ممنوع ہوجائے گا۔ یہ پورا مافیا ہے ‘ جس نے ہمارے نظام عدالت کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس لیے وہ اسلامی نظام عدالت کو کبھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور دوسری یہ بات کہ ہمارے دانشوروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے کہ جن کی تاریں ہمیشہ باہر سے ہلتی ہیں۔ انھوں نے غیر ملکی مصنفین کی کتابیں پڑھی ہیں۔ فلسفہ کفر سے دماغ کو آباد کیا ہے۔ بے خدا تہذیب کے دیئے ہوئے ثمرات انھیں باہر سے ورثے میں ملے ہیں اور پھر باہر کی قوتوں کا سیاسی اور ثقافتی غلبہ ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ دانشوروں کو کبھی اپنی عقل سے کام لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ہم مسلمان ہو کر بھی وہی سوچتے اور وہی کرتے ہیں ‘ جو کچھ ہمارے باہر کے آقا کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جن کی ناراضگی سے ہم ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ ظفر علی خاں مرحوم نے ٹھیک کہا تھا ؎ تم سمجھتے ہو پرایوں نے کیا ہم کو تباہ بندہ پرور کہیں اپنوں کا یہ کام نہ ہو یوں تو شرم پیمبر ہے انھیں بھی لیکن ان کو ڈر یہ ہے کہ ناراض کہیں ٹام نہ ہو علماء یہود کا کردار اس کے بعد ارشاد فرمایا : یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہٗ فَاحْذَرُوْاط یہ منافقین جن یہود کے اشاروں پر چلتے ہیں ‘ وہ کم از کم اتنا ہی غور کرلیں کہ ان کا اصل کردار کیا ہے کہ یہ اپنی زندگی ان کے ہاتھوں میں دے کر خود پتلیوں کی طرح ایک تماشہ بنے ہوئے ہیں ‘ لیکن انھیں یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے ان آقائوں کی کارستانیاں کیا ہیں اور وہ کس سیرت و کردار کے مالک ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا موقع و محل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہونے کے باوجود ‘ اس کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا دیتے ہیں ‘ جس سے حکم کا مقصد بالکل فوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ جن کی جرأتوں اور جسارتوں کا یہ عالم ہو کہ اللہ کے کلام میں اس صریح تحریف سے بھی باز نہ رہیں اور انھیں اس بات کا ذرہ بھر خیال نہ رہے کہ قیامت کے دن جب اللہ کے حضور جواب طلبی ہوگی تو ہم اس کا کس طرح جواب دے سکیں گے۔ عجیب بات ہے کہ یہ منافقین ان بےایمان اور بدکردار یہود کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کی راہنمائی قبول کرتے ہیں۔ یہود کے سیرت و کردار کا ایک غلیظ پہلو تو یہ تھا جو ابھی سامنے آیا کہ وہ اللہ کے عذاب اور اس کا سامنا کرنے سے بالکل نہیں گھبراتے تھے ‘ بلکہ آخرت ان کے لیے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں تھی اور دوسری طرف ان کے اس برے کردار کا دوسرا پہلو جو اس آیت سے واضح ہو رہا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ اپنے زیر اثر لوگوں کو استعمال کرنے اور ان کے سیرت و کردار کے بگاڑنے میں بھی ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کے رسول کی بھی ان کو شرم نہ تھی۔ وہ ان کے پاس قضایا اور معاملات کو بھیجتے ہوئے ‘ یہ ہدایت دینے سے بھی ہچکچاتے نہیں تھے کہ تم یہ معاملات محمد ﷺ کی عدالت میں لے جاؤ ‘ لیکن یہ یاد رکھنا کہ وہاں سے اگر فیصلہ تمہاری خواہش کے مطابق ہو تو اسے قبول کرلینا اور اگر تمہاری خواہش کے خلاف ہو تو ہرگز قبول نہ کرنا۔ یعنی وہ انسانی تصفیہ طلب مسائل میں بھی اپنی کو رباطنی سے باز نہیں آتے تھے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اسلام کی اس نوزائیدہ مملکت میں یہودیوں کے قبیلوں کو ایک قبائلی نوعیت کا اقتدار حاصل تھا۔ وہ اس بات کے پابند نہیں تھے کہ ضرور آنحضرت ﷺ کی عدالت سے اپنے قضایا کا تصفیہ کروائیں ‘ چناچہ روایاتِ تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول سے پہلے دو واقعات پیش آئے تھے۔ اس پر ان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کے جو جو پہلو سامنے آئے ‘ ان آیات میں ان کے حوالے سے اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ مسند احمد اور ابو دائود میں حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) سے اس کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے۔ مدینہ طیبہ میں یہود کے دو قبیلے بنو قریظہ اور بنو نضیر آباد تھے۔ ان میں سے بنو نضیر ‘ قوت و شوکت اور دولت و عزت میں ‘ بنو قریظہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان کو جب بھی موقع ملتا ‘ بنو قریظہ پر ظلم ڈھاتے اور وہ بیچارے بادل نخواستہ اس کو برداشت کرتے تھے۔ حتی کہ بنو نضیر نے بنو قریظہ کو ایک نہایت ذلت آمیز معاہدے پر مجبور کردیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ اگر بنونضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کا قصاص لینے کا انھیں کوئی حق نہ ہوگا بلکہ صرف ستر وسق کھجوریں ان کے خوں بہا کے طور پر ادا کی جائیں گی (وسق تقریباً پانچ من دس سیر کا ہوتا ہے) اور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کردیتا ہے تو اس کے قاتل کو قتل بھی کیا جائے گا اور ان سے خون بہا بھی لیا جائے گا اور وہ بھی بنو نضیر کے خوں بہا سے دوگنا ہوگا۔ اسی طرح اور بھی نہایت غیر منصفانہ باتیں اس میں شامل تھیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ طیبہ میں تشریف لے آنے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ بنو قریظہ کے ایک آدمی نے بنو نضیر کے کسی آدمی کو مار ڈالا تو بنو نضیر نے معاہدہ مذکور کے مطابق بنو قریظہ سے دوگنی دیت یعنی خوں بہا کا مطالبہ کیا۔ بنوقریظہ اگرچہ اسلام میں داخل نہ تھے ‘ لیکن مسلمانوں کے عدل و مساوات کو دیکھ رہے تھے۔ اس لیے انھوں نے اس ظلم کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ مطالبہ کیا کہ ہم مسلمانوں کے پیغمبر سے اس معاملے کا فیصلہ کروائیں۔ شروع میں تو بنو نضیر نے اس پر بڑی برہمی کا اظہار کیا ‘ آخر اس پر راضی ہوگئے۔ مگر اس میں سازش یہ کی کہ آپ کے پاس مقدمہ لے جانے سے پہلے ‘ کچھ ایسے لوگوں کو آگے بھیجا ‘ جو اصل میں تو انہی کے ہم مذہب یہودی تھے ‘ مگر منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے جاتے تھے اور مطلب ان کا یہ تھا کہ یہ لوگ کسی طرح مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے اس معاملہ میں آنحضرت ﷺ کا عندیہ اور نظریہ معلوم کرلیں اور ان لوگوں کو یہ تاکید بھی کی کہ اگر مسلمانوں کے پیغمبر نے ہمارے مطالبہ کے موافق فیصلہ کیا تو اس کو قبول کرلینا اور اس کے خلاف کوئی حکم دیا جائے تو ماننے کا وعدہ نہ کرنا۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا۔ تورات کی رو سے اس کی سزا رجم تھی۔ یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ‘ لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد ﷺ کو پنچ بنایا جائے۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اور حکم دیں تو قبول کرلیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو قبول نہ کیا جائے۔ چناچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ انھوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا : تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے ؟ انھوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر پوچھا : کیا تورات میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے ؟ انھوں نے پھر وہی جھوٹا جواب دیا۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا ‘ جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں تورات کا سب سے بڑا عالم تھا ‘ خاموش رہا۔ آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور کوہ طور پر تمہیں شریعت عطا کی۔ کیا واقعی تورات میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے ؟ اس نے جواب دیا ” اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں کبھی نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے۔ مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حکام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انھیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے اگر یہی حرکت سرزد ہوتی تو انھیں رجم کردیا جاتا۔ جب اس سے عوام میں ناراضگی پیدا ہونے لگی تو ہم نے تورات کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جائیں اور انھیں منہ کالا کر کے گدھے پر الٹے منہ سوار کیا جائے “۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود جن کے ہاتھوں میں یہ منافقین کھیل رہے تھے وہ کس سیرت و کردار کے مالک تھے اور قلب و دماغ کے حوالے سے کس سطح کے لوگ تھے۔ اس لیے منافقین کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اپنی دنیا اور آخرت دے کر آخر تم کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ عافیت کا راستہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اپنے اندر ایمان وتقویٰ پیدا کرو اور یہ لوگ جو سرے سے ہر اچھی بات کے دشمن ہیں ‘ ان سے لاتعلق ہوجاؤ کیونکہ وہ لوگ اس جگہ تک پہنچ گئے ہیں ‘ جہاں سے پلٹنے کی کوئی امید نہیں ہوسکتی۔ گناہ کی روش پر ضد کا انجام اس لیے فرمایا : وَمَنْ یُّرِدِ اللہ ُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَیْئًاط یہ اللہ کی اس سنت اور قانون کا بیان ہے جو ہمیشہ ایسے لوگوں کے بارے میں جاری رہا ہے ‘ جنھوں نے آخر حد تک حق سے روگردانی کی ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ انسان کو شعور اور قوت تمیزدے کر پیدا کرتا ہے۔ پھر جب وہ تکلیف شرعی کی عمر کو پہنچتا ہے ‘ اس کے سامنے فطرت اور اللہ کی جانب سے خیر اور حق کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوسری طرف نفس اور شیطان کی جانب سے گمراہی کے بہلاوے ‘ اس کا راستہ روکتے ہیں۔ یہ اس کی قوت تمیز اور عقل کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کدھر جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر وہ صحیح راستے کا انتخاب کرتا ہے تو قدرت کی جانب سے اس کے لیے اس راستہ پر چلنے کی آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں اور اس کی طبیعت کو ایک استحکام اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ تمام تر فطری ہدایات اور اللہ کی جانب سے ہدایت کے سارے امکانات کے باوجود غلط راستے پر چلنے پر اصرار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسی راستے پر چلنے کے لیے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسے غفلت کی نیند سے اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر وہ غفلت کا بستر کسی طرح بھی چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتا تو قدرت بھی اسے اسی بستر پر پڑا رہنے دیتی ہے۔ یہاں اسی قانون کو بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو فتنہ میں ڈالنا چاہتا ہے تو اے پیغمبر ! آپ اللہ کے مقابلے میں اس کا کچھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اس نے اپنی کوتاہیوں سے اپنے آپ کو سنت الٰہی کی زد میں دے دیا ہے اور جب کوئی سنتِ الٰہی کی زد میں آجاتا ہے تو پھر کسی کے امکان میں یہ نہیں رہتا کہ وہ اس کو باطل سے موڑ کر حق کی راہ پر ڈال دے۔ یہ لوگ چونکہ اب اس قانونِ الٰہی کی زد میں آچکے ہیں اور ان کے طور اطوار خود اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ نبی آخر الزمان کے آنے کے باوجود بھی اور قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی ‘ یہ اپنی روش بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں ‘ بلکہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آنا بھی یہ اپنے لیے کسر شان سمجھتے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ قانون کے بارے میں ان کا رویہ حسد پر مبنی ایک تمسخر سے زیادہ نہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا : اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللہ ُ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ ط لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ج صلے وَّلَھُمْ فِی الاْٰخِرَۃِعَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (یہی لوگ ہیں ‘ جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا ‘ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ ) یعنی اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے ‘ وہ اب ان کے دلوں میں ہدایت حق کے لیے کوئی آمادگی پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ اور اپنی کوتاہیوں اور نادانیوں سے جس طرح انھوں نے اپنے دل کو گندا کرلیا ہے اور اسے آب و تاب سے بالکل محروم کردیا ہے کہ اس میں قبول حق کی کوئی رمق باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اب اس کے بعد ان سے تعلق رکھنا سراسر خسران کا سودا ہے۔ دل و دماغ کی اس کیفیت کو قرآن کریم نے رین سے تشبیہ دی ہے جس کا نتیجہ طبع قلوب فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ دل ایک آئینہ کی مانند ہے۔ جب آدمی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے تو یہ دھبہ مٹ جاتا ہے اور اگر مزید گناہ کرے تو اور ایک دھبہ لگ جاتا ہے۔ اسی طرح مسلسل اگر یہ دھبے بڑھتے جائیں تو آخر دل کا آئینہ آب و تاب کھو کر بالکل سیاہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ ‘ اس دل والے کے بارے میں محرومی کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے کہ جب کوئی بندہ کسی برے راستے کو اختیار کرتے ہوئے اس پر مسلسل چلنے پر اصرار کرتا ہے اور برائی کی کسی سطح پر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا تو پھر اس کی کیفیت ایسی ہوجاتی ہے کہ وہ خیر و شر کے تصور سے بھی محروم ہوجاتا ہے بلکہ جو باتیں کبھی اس کو اچھی معلوم ہوتی تھیں ‘ وہ بھی اسے بری لگنے لگتی ہیں۔ اقبال نے ایک دوسرے حوالے سے شاید اسی کا ذکر کیا ہے : تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر ضمیر سے مراد یہی دل ہے ‘ جو قبولیت کی استعداد سے محروم ہوجاتا ہے چناچہ ایسے آدمی کو اگر کبھی سمجھانے کی کوشش کی جائے تو سمجھانے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ میں شاید کسی دیوار سے سر پھوڑ رہا ہوں ‘ سننے والے کو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ مجھے کیا کہا جا رہا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ سمجھانے والے کو دیوانہ اور پاگل سمجھتا ہے آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ شخص دانا و بینا ہوتے ہوئے بھی ‘ آخر اتنی سیدھی بات کو کیوں نہیں سمجھ پا رہا ؟ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ اللہ کے اس قانون کی زد میں آ کر قبولیت حق کی استعداد سے محروم ہوچکا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے میں ایک چھوٹا سا لطیفہ عرض کرتا ہوں کہ کوئی صاحب اپنی گاڑی میں ایک بستی سے گزر رہے تھے ‘ نماز کا وقت تھا ‘ مسجد قریب آئی ‘ ڈرائیور نمازی تھا ‘ اس نے اپنے صاحب سے عرض کیا کہ صاحب اگر اجازت ہو تو میں مسجد میں جا کر نماز پڑھ لوں ؟ اس کے صاحب نے ناگواری سے کہا کہ جاؤ ‘ جلدی آئو۔ اس نے نماز میں دیر لگا دی یا شاید اس کو محسوس ہوا ‘ اس لیے باہر گاڑی سے اس نے چیختے ہوئے کہا کہ ارے تجھے کس نے اندر پکڑ رکھا ہے ‘ تم باہر کیوں نہیں آتے ؟ تو اس نے اندر سے جواب دیا کہ صاحب مجھے اسی نے پکڑ رکھا ہے ‘ جس نے باہر آپ کو پکڑ رکھا ہے۔
Top