Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بلاشبہ تمہارے پاس رسول آیا ہے، جو تم میں سے ہے۔ تمہیں جو تکلیف پہنچے وہ اس کے لیے نہایت گراں ہے وہ تمہارے نفع کے لیے حریص ہے مومنین کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کا برتاؤ کرنے والا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی صفات عالیہ اور اخلاق حسنہ کا بیان یہ دو آیتیں ہیں جن پر سورة توبہ ختم ہو رہی ہے۔ پہلی آیت میں سیدنا خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی بعض صفات بیان فرمائیں۔ اوّل تو یہ فرمایا کہ تمہارے پاس ایک رسول آیا جو بڑے مرتبہ والا رسول ہے (اس پر رَسُوْلٌ کی تنکیر دلالت کرتی ہے) اور یہ رسول تم ہی میں سے ہے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ بشر ہے تمہاری جنس میں سے ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب سے ہے، جو مخاطبین اوّلین ہیں ان کا ہم زبان ہے وہ اس کی باتوں کو سمجھتے ہیں اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ وہ نسب کے اعتبار سے اور مل جل کر رہنے کے اعتبار سے تم ہی میں سے ہے اس کے نسب کو، اس کی ذات کو اور اس کی صفات کو اچھی طرح سے جانتے ہو۔ مفسر ابن کثیر (ص 403 ج 2) لکھتے ہیں کہ حضرت جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے سامنے اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کسریٰ کے سامنے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا ان اللہ بعث فینا رسولا منا نعرفہ نسبہ و صفتہ و مدخلہ و مخرجہ و صدقہ و امانتہ۔ (اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جو ہم میں سے ہے ہم اس کے نسب کو اور اس کے حالات کو جانتے ہیں ہم ہر طرح سے اس کی سچائی و امانت کو جانتے ہیں) آپ جن لوگوں میں پیدا ہوئے نبوت سے سر فراز ہونے کے بعد بھی انہیں میں رہے، آپ انہیں کی زبان میں بات کرتے تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے آپ سے استفادہ کرنے اور آپ کی باتیں سننے اور سمجھنے کا خوب موقعہ تھا۔ اگر ان کا نبی ان کی جنس سے نہ ہوتا مثلاً فرشتہ ہوتا یا ان کا ہم زبان نہ ہوتا یا رہنے سہنے میں کسی ایسی جگہ رہتا جہاں آنا جانا اور ملنا جلنا دشوار ہوتا تو استفادہ کرنے اور بات سمجھنے میں دشواری ہوتی یہ اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا کہ انہیں میں سے رسول بھیج دیا۔ کما قال تعالیٰ (فی سورة آل عمران) (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ) (اللہ تعالیٰ نے مؤمنین پر احسان فرمایا جبکہ ان میں سے ایک رسول بھیج دیا) آپ کی دیگر صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ) کہ امت کو جس چیز سے تکلیف ہو وہ آپ کو شاق گزرتی ہے۔ اور آپ کو اس سے تکلیف ہوتی ہے اور آپ امت کے نفع کے لیے حریص ہیں آپ کو یہ بھی حرص ہے کہ جملہ مخاطبین ایمان لے آئیں اور یہ بھی حرص ہے کہ اہل ایمان کے تمام حالات درست ہوجائیں اور آپ کو مومنین کے ساتھ بڑی شفقت ہے، آپ ان کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آپ کا تعلق صرف ایسا نہیں ہے کہ بات کہہ کر بےتعلق ہوگئے بلکہ آپ کا اپنی امت سے قلبی تعلق ہے۔ ظاہراً بھی آپ ان کے ہمدرد ہیں اور باطناً بھی، امت کو جو تکلیف ہوتی اس میں آپ بھی شریک ہوتے تھے اور ان میں سے کسی کو تکلیف پہنچ جاتی تو آپ کو کڑھن ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا (وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) (یعنی مؤمنین کے ساتھ آپ نرمی کا برتاؤ کیجیے) ایک مرتبہ رات کو مدینہ منورہ کے باہر سے کوئی آواز آئی، اہل مدینہ کو اس سے خوف محسوس ہوا چند آدمی جب اس کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ پہلے ہی سے ادھر روانہ ہوچکے تھے۔ یہ لوگ جا رہے تھے تو آپ آ رہے تھے آپ نے فرمایا لَمْ تُرَاعُوْا۔ ڈرو نہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ (صحیح بخاری ص 417 ج 1) حضرات صحابہ میں کسی کو تکلیف ہوجاتی تھی تو اس کے لیے فکر مند ہوتے تھے۔ عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ دوا بتاتے تھے۔ مریض کو تسلی دینے کی تعلیم دیتے تھے۔ تکلیفوں سے بچانے کے لیے ان امور کی تعلیم دیتے تھے۔ جن سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا اور جن سے انسانوں کو خود ہی بچنا چاہئے لیکن آپ کی شفقت کا تقاضا یہ تھا کہ ایسے امور کو بھی واضح فرماتے تھے۔ اسی لیے آپ نے کسی ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کی منڈیر بنی ہوئی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ ص 404) اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص (ہاتھ دھوئے بغیر) اس حالت میں سو گیا کہ اس کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہوئی تھی پھر اس کو کوئی تکلیف پہنچ گئی (مثلاً کسی جانور نے ڈس لیا) تو وہ اپنی ہی جان کو ملامت کرے (مشکوٰۃ ص 366) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص رات کو سونے کے بعد بیدار ہو تو ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں ہاتھ نہ گھسا دے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے (ممکن ہے کہ اسے کوئی ناپاک چیز لگ گئی ہو یا اس پر زہریلا جانور گزر گیا ہو) (رواہ البخاری و مسلم) جوتے پہننے کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ ترجوتے پہنے رہا کرو کیونکہ آدمی جب تک جوتے پہنے رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص سوار ہو جیسے جانور پر سوار ہونے والا زمین کے کیڑوں مکوڑوں اور گندی چیزوں اور کانٹوں اور اینٹ پتھر کے ٹکڑوں سے محفوظ رہتا ہے ایسے ہی ان چیزوں سے جوتے پہننے والے کی بھی حفاظت رہتی ہے۔ (رواہ مسلم) نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب چلتے چلتے تمہارے چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک چپل میں نہ چلے جب تک کہ دوسرے چپل کو درست نہ کرلے (پھر دونوں کو پہن کر چلے) اور یہ بھی فرمایا کہ ایک موزہ پہن کر نہ چلے کیونکہ ان صورتوں میں ایک قدم اونچا اور ایک قدم نیچا ہو کر توازن صحیح نہیں رہتا (رواہ مسلم) آپ امت کو اسی طرح تعلیم دیتے تھے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کو سکھاتے اور بتاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تمہارے لیے باپ ہی کی طرح ہوں میں تمہیں سکھاتا ہوں (پھر فرمایا کہ) جب تم قضاء حاجت کی جگہ جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو نہ پشت کرو، اور آپ نے تین پتھروں سے استنجا کرنے کا حکم فرمایا، اور فرمایا کہ لید سے اور ہڈی سے استنجا نہ کرو۔ اور دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ (مشکوٰۃ ص 42) اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو جگہ کو دیکھ بھال لے (مثلاً پکی جگہ نہ ہو جہاں سے چھینٹیں اڑیں اور ہوا کا رخ نہ ہو وغیرہ (مشکوٰۃ صفحہ 42) نیز آپ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا (کیونکہ ان میں جنات اور کیڑے مکوڑے رہتے ہیں) اگر کتب حدیث میں زیادہ وسیع نظر ڈالی جائے تو اس طرح کی بہت سی تعلیمات سامنے آجائے گی جو سراپا شفقت پر مبنی ہیں۔ اسی شفقت کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی بھی مومن عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب اس کے چاروں طرف روشنی ہوگئی تو پروانے اس آگ میں آکر گرنے لگے وہ شخص ان کو روکتا ہے کہ آگ میں گریں لیکن وہ اس پر غالب آجاتے ہیں اور زبردستی گرتے ہیں، یہی میرا حال ہے کہ میں تمہیں دوزخ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں کو پکڑتا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے ہو یعنی جو لوگ گناہ نہیں چھوڑتے وہ اپنے اعمال کو دوزخ میں ڈالنے کا سبب بناتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جو گناہوں پر وعیدیں بتائی ہیں اور عذاب کی خبریں دی ہیں ان پر دھیان نہیں دیتے۔ (رواہ البخاری و مسلم)
Top