Al-Qurtubi - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں۔ (اور) مومنوں پر نہایت شفقت کرنیوالے (اور) مہربان ہیں۔
آیت نمبر : 128 تا 129۔ حضرت ابی ؓ کے قول کے مطابق یہ دونوں آیتیں از روئے عہد کے آسمان سے زیادہ قریب ہیں۔ اور حضرت سعید بن جبیر ؓ کے قول کے مطابق یہ دونوں آیتیں از روئے عہد کے آسمان سے زیادہ قریب ہیں۔ اور حضرت سعید بن جبیر کے قول میں ہے : قرآن کریم میں سے جو آیت آخر میں نازل ہوئی وہ (آیت) ” واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ “ (البقرہ : 281) ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، پس حضرت ابی ؓ کے قول میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس ارشاد : (آیت) ” واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ “ کے بعد یہ دونوں آیتیں عہد کے اعتبار سے آسمان سے زیادہ قریب ہیں۔ واللہ اعلم۔ جمہور کے نزدیک یہ خطاب عربوں کو ہے اور یہ ان پر احسانات اور نعمتیں شمار کرنے کی جہت پر ہے، کیونکہ آپ ان کی زبان میں وہ لے کر آئے جسے وہ سمجھ سکتے ہیں اور آپ کے ساتھ بقیہ ایام میں شرف و عظمت عطا کی گئی، اور زجاج نے کہا ہے : یہ خطاب تمام عالم کو ہے اور معنی یہ ہے : لقد جاء کم رسول من البشر “۔ (تحقیق تمہارے پاس انسانوں میں سے ایک بزرگزیدہ رسول تشریف لایا) پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : عرب کا کوئی قبیلہ نہیں ہے مگر اس نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو جنم دیا ہے تو گویا یہ فرمایا : اے گروہ عرب تحقیق تمہارے پاس بنی اسماعیل میں سے ایک برگزیدہ رسول تشریف لایا، اور دوسرا قول حجت کو پختہ اور مؤکد کرنے کے لیے ہے یعنی وہ تمہاری مثل بشر ہیں تاکہ تم ان سے (احکام) سمجھ سکو اور آپ کی اقتدا اور پیروی کرسکو۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من انفسکم “ یہ ارشاد حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے نسب کی مدح کا تقاضا کرتا ہے اور یہ کہ آپ خالص اور پکے عرب تھے، اور صحیح مسلم میں حضرت واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں سے کنانہ کو چنا ہے اور کنانہ میں سے قریش کو چنا ہے اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا ہے اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا ہے ‘ (1) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 245) اور آپ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ” بلاشبہ میں نکاح سے (پیدا ہوا) ہوں اور میں زنا سے نہیں ہوں “۔ اس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کا سلسلہ نسب حضرت آدم (علیہ السلام) تک اس میں ولادت نکاح سے ہوئی ہے، اس میں زنا نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن قسیط المکی نے (آیت) ” من انفسکم “ فا کے فتحہ کے ساتھ قرات کی ہے اور یہ نفاسۃ سے ماخوذ ہے اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے اور حضرت فاطمہ ؓ سے یہ روایت کی گئی ہے (2) (المحرر الوجیز، سورة توبہ، جلد 3، صفحہ 100) یعنی جاء کم رسول من اشرفکم وافضلکم “ (تم میں سے زیادہ شرف وفضل والا رسول تمہارے پاس تشریف لایا) یہ تیرے اس قول سے ہے : شی نفیس جب وہ شی مرغوب فیہ ہو، اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” من انفسکم “ یعنی تم میں سے بہت زیادہ اطاعت کرنے والا (رسول تمہارے پاس تشریف لایا) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” عزیز علیہ ما عنتم “۔ یعنی تمہاری مشقت آپ پر گراں گزرتی ہے۔ اور العنت کا معنی مشقت ہے، یہ ان کے اس قول سے ہے : اکمۃ عنوت جب ٹیلہ مشقت آمیز اور مہلک ہو، اور ابن انباری نے کہا ہے : تعنت میں اصل معنی تشدد کرنا، تکلیف پہنچانا ہے پس جب عرب کہیں : فلان یتعنت فلانا ویعنتہ تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں اس پر تشدد کررہا ہے اور اسے ایسی شے کے ساتھ لازم کر رہا ہے جس کی ادائیگی اس پر مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ اس کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور (آیت) ” ماعنتم “ میں ما مصدریہ ہے، اور یہ مبتدا ہے اور عزیز خبر مقدم ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ (آیت) ” ماعنتم “۔ عزیز کے ساتھ فاعل ہو اور عزیر، رسول کی صفت ہو، اور زیادہ صحیح ہے۔ اور اسی طرح (آیت) ” حریص علیکم “۔ اور (آیت) ” رء وف رحیم “۔ صفت ہونے کی وجہ سے مرفوع ہیں، فراء نے کہا ہے : اور اگر عزیرا علیہ ماعنتم حریصا رؤفا رحیما پڑھا جائے تو یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہوں گے اور یہ جائز ہے۔ ابوجعفر نحاس نے کہا ہے : اس کے معنی میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سے احسن جو کلام عرب سے موافقت رکھتا ہے وہ ہے کہ احمد بن محمد الازدی نے ہمیں بیان کیا اس نے کہا عبداللہ بن محمد خزاعی نے ہمیں بیان کیا اس نے کہا میں نے عمرو بن علی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن داود خریبی کو رب کریم کے اس ارشاد میں یہ کہتے ہوئے سنا : (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم “ فرمایا (ان پر گراں گزرتا ہے) کہ تم جہنم میں داخل ہو (آیت) ” حریص علیکم “ فرمایا (وہ تمہارے بارے میں بہت خواہشمند ہیں) کہ تم جنت میں داخل ہو، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمہارے بارے میں بہت خواہش مند ہیں کہ تم ایمان لاؤ اور فراء نے کہا ہے : وہ بخیل ہیں اس بارے کہ تم جہنم میں داخل ہو۔ اور الحرص علی الشی کا معنی ہے الشح علیہ ان یضیع ویتلف (اس پر بخل کرنا کہ وہ اسے ضائع کرے اور تلف کرے) (آیت) ” بالمؤمنین رء وف رحیم “۔ الرء وف کا معنی ہے، بہت زیادہ نرمی اور شفقت کرنے والا (آیت) ” رء وف رحیم “۔ کا مکمل معنی سورة البقرہ میں گزر چکا ہے، اور حسین بن فضل نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء میں سے دو اسم انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی کے لیے بھی سوائے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے جمع نہیں فرمائے پس اس نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” بالمؤمنین رء وف رحیم “۔ اور فرمایا (آیت) ” ان اللہ بالناس رء وف رحیم “۔ (بقرہ) اور عبدالعزیز بن یحی نے کہا ہے : نظم آیت (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رء وف رحیم “۔ سے مقصود تمہاری شان اور حالت ہے اور وہ تمہارے لیے شفاعت قائم کرنے والا ہے، پس تم (آیت) ” ما عنتم “ سے ان کا قصد نہ کرو جو تمہیں ان کی سنت پر قائم رکھیں، کیونکہ تمہارا جنت میں داخل ہونا ہی انہیں راضی اور خوش کرسکتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان تولوا فقل حسبی اللہ “۔ اے محمد ﷺ اگر کفار اعراض کریں ان نعمتوں کے بعد بھی جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا ہے تو پھر کہو (آیت) ” حسبی اللہ “۔ اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے۔ (آیت) ” لا الہ الا ھو علیہ توکلت “۔ نہیں کوئی معبود بجز اس کے میں نے اسی پر اعتماد اور بھروسہ کیا، اور اپنے تمام امور میں نے اسی کے سپرد کردیئے۔ (آیت) ” وھو رب العرش العظیم “۔ عرش کو خاص کیا، کیونکہ وہ اعظم المخلوقات ہے جب اس کا ذکر کردیا تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے اس میں داخل ہوجائے گی، اور قرات عامہ کے مطابق العظیم مجرور ہے کیونکہ وہ عرش کی صفت ہے اور رب کی صفت بناتے ہوئے اسے رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ قرات ابن کثیر سے مروی ہے اور یہی قرات ابن محیصن کی ہے۔ اور ابو داؤد کی کتاب میں حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : جس نے صبح وشام سات مرتبہ پڑھا (آیت) ” حسبی اللہ لا الہ الا ھو، علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم “۔ تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہے اس کام میں جس کا اس نے ارادہ اور قصد کیا چاہے وہ اس میں سچا ہو یا جھوٹا اور ” نوادرالاصول “ (1) ( نوادرالاصول، الکلمات العشر بعد الصلوۃ جلد 1، صفحہ 217) میں حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے ہر نماز کے بعد دس کلمات کہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ان کے پاس کافی اور جزا دینے والا پائے گا، ان میں سے پانچ دنیا کے لیے ہے اور پانچ آخرت کے لیے حسبی اللہ لدینی (اللہ تعالیٰ میرے دین کے لیے مجھے کافی ہے) حسبی اللہ لدیناہ (اللہ تعالیٰ میری دنیا کے لیے مجھے کافی ہے) حسبی اللہ لما اھمنی (اللہ مجھے کافی ہے اس شے کے لیے جو مجھے غم میں ڈال دے) حسبی اللہ لمن بغی علی (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے اس کے لیے جو مجھ پر زیادتی کرے) حسبی اللہ لمن حسدنی (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے اس کے لیے جو میرے ساتھ حسد کرے) حسبی اللہ عند الموت (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے اس کے لیے موت کے وقت) حسبی اللہ عند المسالۃ فی القبر (اللہ تعالیٰ قبر میں سوال کے وقت مجھے کافی ہے) حسبی اللہ عند المیزان (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے میزان کے پاس) حسبی اللہ عند الصراط (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے پل صراط کے پاس) حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت والیہ انیب (اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میں نے اعتماد کیا ہے اور اسی کی طرف لوٹایا جانا ہے) نقاش نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : عہد کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے قریب ترین قرآن کی یہ دو آیتیں ہیں : (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم “ سے آخر سورت تک ہم اسے بیان کرچکے ہیں۔ اور یوسف بن مہران نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے قرآن کریم میں سے جو آخر میں نازل ہوئی : (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم “ اور یہ آیت ہے۔ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ (1) (تفسیر ماوردی، سورة توبہ، جلد 2، صفحہ 419) اور ہم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کے خلاف ذکر کیا ہے جیسا کہ ہم نے اسے سورة البقرہ میں ذکر کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے، اور مقاتل نے کہا ہے : اس کا پہلے نزدیک مکہ مکرمہ میں ہوا تھا، اس میں بعد ہے، کیونکہ یہ سورة مدنی ہے۔ واللہ اعلم۔ اور یحی بن جعدہ نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ مصحف میں کوئی آیت ثبت نہ فرماتے تھے یہاں کہ اس پر دو آدمی شہادت دے دیں، پس انصار میں سے ایک آدمی سورت براءت کی آخری دو آیتیں لے کر آیا، (آیت) ” لقد جآء کم رسول من انفسکم “ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : قسم بخدا ! میں تجھ سے ان پر کوئی بینہ (گواہ) طلب نہیں کروں گا، حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اسی طرح تھے، پس آپ نے ان دونوں کو لکھوا دیا، ہمارے علماء نے کہا ہے : وہ آدمی حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ تھے، بلاشبہ حضرت عمر ؓ نے ان دونوں کو اکیلے آپ کی شہادت کے ساتھ لکھوا دیا، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی صفت میں اس کے صحیح ہونے پر دلیل قائم تھی، پس یہی قرینہ ہے جس نے دوسرے گواہ کی طلب سے مستغنی کردیا، بخلاف سورة احزاب کی آیت کے (آیت) ” رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ “۔ (الاحزاب : 23) کیونکہ یہ آیت حضرت زید اور حضرت خزیمہ ؓ کی شہادت کے ساتھ ثابت ہوئی کہ ان دونوں نے اسے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے سنا ہے، یہ بحث مقدمۃ الکتاب میں گزر چکی ہے، والحمد للہ۔ تمت بالخیر : سورۃ توبہ کی تفسیر کا ترجمہ اختتام پذیر ہوا : الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین “۔
Top