Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 41
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک آچکے تمہارے پاس (اے لوگو ! ) ایک عظیم الشان رسول خود تم ہی میں سے، جن پر بڑا گراں ہے تمہارا مشقت (و تکلیف) میں پڑنا، جو بڑے حریص ہیں تمہاری فلاح (و بہبود) کے، انتہائی شفیق، اور بڑے مہربان ہیں ایمان والوں پر،3
226 بعثت نبوی کے احسان عظیم کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک آچکے تمہارے پاس اے لوگو ایک عظیم الشان رسول خود تم ہی میں سے۔ یعنی تمہاری ہی جنس میں سے تاکہ تم زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر موڑپران کی پیروی کرسکو۔ چناچہ وہ انسان وبشر ہیں اور تمہاری ہی طرح عربی، قریشی اور ہاشمی ہیں۔ مگر جنس ونوع کے اس اشتراک کے ساتھ ساتھ مرتبہ ومقام کے لحاظ سے وہ اتنے اونچے اور ان کی شان اس قدربلند ہے کہ خدائے پاک کی ساری خدائی اور تمام مخلوق میں ان کی دوسری کوئی نظیرومثال نہ کبھی ہوئی ہے نہ آئندہ کبھی ہونی ممکن ہے۔ قرآن پاک میں بشریت پیغمبر سے متعلق اس حقیقت صادقہ اور امر واقعہ کو جگہ جگہ اور طرح طرح سے آشکارہ فرمایا گیا ہے مگر اس کے باوجوداہل بدعت کی الٹی کھوپڑیوں میں یہ سادہ اور واضح حقیقت اب تک نہیں آرہی اور وہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور اس ضمن میں وہ طرح طرح کی ٹامک ٹوئیوں اور تحریفات سے کام لیتے ہیں جو نتیجہ وانجام ہے بدنیتی، بدعت پرستی اور اہل حق سے عداوت دشمنی کا والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف یہاں پر اسی حقیقت صادقہ اور نعمت عظمیٰ کو بیان فرمایا گیا ہے کہ تمہارے پاس ایک ایسے عظیم الشان رسول آگئے جو خود تم ہی سے ہیں تاکہ وہ تم لوگوں کو سعادت دارین سے سرفرازی کی راہوں کی تعلیم دے سکیں۔ 227 پیغمبر کی رافت وشفقت کا ذکر وبیان : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ بڑا بھاری اور گراں ہے ان پر تمہارا مشقت میں پڑنا جو کہ ہم جنس ہونے کی اسی حقیقت صادقہ کے آثارونتائج میں سے ہے (ماعنتم) میں مامصدریہ ہے (جامع البیان) سو معنٰی یہ ہوگا کہ ان پر تمہارامشقت اور تکلیف میں پڑنا بہت بھاری اور گراں ہے۔ سو ایسی ہمدرد اور مہربان ہستی کی آواز پر لبیک نہ کہنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر بےانصافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ان کی رحمت وشفقت اور افت و عنایت کا عالم یہ ہے کہ تمہارا مشقت اور مشکل میں پڑنا ان پر سخت بھاری اور گراں ہے۔ اور ان کی ساری تگ ودو، محنت ومشقت اور دعوت و تبلیغ کا اصل مدعا و مقصود یہی ہے کہ تم لوگ دنیاوآخرت کی سعادتوں اور فائزالمرامیوں سے سرفراز اور بہرہ مند ہوسکو۔ لیکن جو لوگ دنیا کی اسی عارضی اور فانی زندگی کی لذتوں اور ان کے وقتی فائدوں ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان لوگوں کو اس پیغمبر کی وہ باتیں گراں گزرتی ہیں جو ان کو اپنے وقتی مفادات اور دنیاوی فائدوں کے خلاف نظرآتی ہیں۔ سو یہ ایسے لوگوں کی اپنی تنگ نظری اور کوتاہ بینی کا نتیجہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم 228 پیغمبر کی اپنی امت کے لیے حرص کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بڑے حریص ہیں تمہاری فلاح و بہبود کے، پس پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہے اور اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ تم ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز ہو کر دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ۔ سو پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے میں خود تمہارا ہی بھلا اور فائدہ ہے اور اس سے منہ موڑنے میں تمہارا اپناہی نقصان ہے والعیاذ باللہ العظیم پیغمبر کی اس میں اپنی کوئی غرض شامل نہیں۔ وہ ایمان واسلام کی دعوت تمہیں خود تمہارے ہی بھلے اور فائدے کے لیے دے رہا ہے۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ پس جو لوگ ان کی دعوت کو صدق دل سے اپنائیں گے وہ خود اپنی ہی سعادت و سرخروئی کا سامان کریں گے۔ اور جو اس سے منہ موڑیں گے۔ وہ خوداپناہی نقصان کریں گے والعیاذ باللہ کہ اس کا نتیجہ وانجام دارین کی ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 229 پیغمبرمؤمنوں پر انتہائی شفیق اور مہربان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ انتہائی شفیق اور بڑے ہی مہربان ہیں ایمان والوں پر نہ کہ اہل کفر و باطل پر کہ ایسے لوگوں نے کفر و باطل پر اصرار کرکے اپنے آپ کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ آپ کی اس شفقت و مہربانی کے مستحق بن سکیں والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایمان و یقین کی دولت ایسی عظیم الشان دولت ہے کہ اس سے انسان پیغمبر کی شفقت ورافت کا مستحق اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایات کا مورد بنتا ہے سو وہ " رؤف " و " رحیم " ہونے کی بناء پر چاہتا ہے کہ ہر شرتم سے دور ہو اور ہر خیر تمہیں نصیب ہو۔ یہاں پر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ " رؤف " اور " رحیم " کی یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی صفات حسنیٰ میں سے ہیں اور یہی دونوں یہاں پر پیغمبر کے لیے استعمال ہوئی ہیں جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ پیغمبرخلق خدا کے ساتھ رحمت ورافت کے معاملے میں صفات الہیہ کے کامل مظہر تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ علی الہ وصحبہ وسلم ومن اھتدی بھدیہ ودعابدعوتہ الی یوم الدین۔ اللہ ہمیں ان سے صحیح اور سچی محبت اور اطاعت و اتباع کی دولت وسعادت سے نوازے۔ آمین۔
Top