Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ
: البتہ تمہارے پاس آیا
رَسُوْلٌ
: ایک رسول
مِّنْ
: سے
اَنْفُسِكُمْ
: تمہاری جانیں (تم)
عَزِيْزٌ
: گراں
عَلَيْهِ
: اس پر
مَا
: جو
عَنِتُّمْ
: تمہیں تکلیف پہنچے
حَرِيْصٌ
: حریص (بہت خواہشمند)
عَلَيْكُمْ
: تم پر
بِالْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں پر
رَءُوْفٌ
: انتہائی شفیق
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
البتہ تحقیق آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں سے گراں گزرتی ہے اس پر وہ چیز جو تمہیں مشقت میں ڈالے۔ وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ نہایت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے
ربط آیات : سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کفر اور شرک کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور پھر جہاد کا حکم دے کر اس سے متعلقہ قوانین بھی نازل فرمائے اللہ نے اس بات کو وضاحت فرما دی کہ فریضہ جہاد سے کوئی ذاتی اغراض مقصود نہیں بلکہ یہ سارا سلسلہ اقامت دین کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ لوگ کفر اور شرک کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرلیں تو مقصد پورا ہوجاتا ہے چناچہ سورة ہذا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے (آیت) ” فان تابوا واقامو الصلوۃ واتوا ا لزکوۃ فاخوانکم فی الدین “ یعنی اگر وہ تائب ہوجائیں ، نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، اب ان سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ مضامین سورة توبہ : جہاد دشمن کے ساتھ براہ راست لڑائی کا نام ہے مگر یہ لڑائی بذات خود کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ بالواسطہ نیکی ہے ، جہاد کے ذریعے اقامت دین ہوتی ہے اور توحید کی اشاعت ہوتی ہے ، اس واسطے یہ نیکی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں جہاد کے قوانین کے علاوہ نماز ، زکوٰۃ اور مصارف زکوٰۃ کے مسائل بیان فرمائے ہیں۔ جہاد ہی کے ضمن میں غزوہ تبوک کا اہم حصہ سورة میں بیان ہوا ہے۔ منافقین کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کر کے ان کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی جماعتی تنظیم اور مرکزیت کا ذکر آیا ہے مساجد کی حیثیت اور مسجد ضرار کا ذکر بھی آیا ہے ، جہاد کو افضل الاعمال فرمایا گیا ہے۔ فرضیت جہاد کی دو صورتیں یعنی فرض کفایہ اور فرض عین کا ذکر ہوا ہے ایمان والوں کے خصائل بیان ہوئے ہیں ۔ جن لوگوں سے کوتاہی ہوگئی تھی ان کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، ان کی آزمائش اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے معاملات اور ان کی اصلاح کا پروگرام بتلایا گیا ہے ، اور اب آخر میں رسالت اور توحید کا بیان آرہا ہے۔ عظیم الشان رسولـ: آج کی آخری دو آیتوں میں پہلے رسالت کا بیان ہے نبی کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ دین کا پورا پروگرام نبی کی معرفت ہی ملتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی حیثیت کو بالکل واضح کردیا ہے تا کہ کسی کو کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لقد جائکم رسول “ البتہ تحقیق آیا ہے تمہارے پاس رسول۔ لفظ رسول نکرہ ہے اور اس سے مراد بڑی شان اور عظمت والا رسول ہے یعنی اے لوگو ! تمہارے پاس عظیم المرتبت رسول آیا ہے۔ اور وہ رسول کون ہے ؟ (آیت) ” من انفسکم “ تمہاری جانوں میں سے ہے یعنی تمہاری ہی جنس بشر یا انسانوں میں سے ہے۔ اللہ کے تمام رسول بشر یا انسان تھے مگر کامل درجے کے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں اخلاق اور اعمال کا انتہائی درجہ رکھا تھا ، گویا بشریت انبیاء کا اقرار بھی ضروری ہے (آیت) ” قل انما انا بشرمثلکم یوحی الی “ (الکہف) میں پیدائشی طور پر تمہاری طرح انسان ہوں لیکن میری طرف وحی آتی ہے۔ اللہ نے نوع انسانی کے لیے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کو نمونہ بنایا کہ سب لوگ ان کے نقش قدم پر چل کر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائیں۔ اگر اللہ کے نبی نوع انسانی کے علاوہ کسی دوسری جنس سے ہوتے تو انسان ان سے کما حقہ استفادہ نہ کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر ملائکہ یا جنات کو انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا جاتا تو انسان ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکتے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف انہی کی جنس سے ان کی طرف رسول مبعوث فرمائے تا کہ وہ ان کا اتباع کرسکیں یہاں بھی فرمایا کہ تمہی میں سے تمہاری طرف ایک عظیم الشان رسول آیا ہے یہاں پر (آیت) ” من انفسکم “ کے الفاظ آئے ہیں ، بعض دوسرے مقامات پر (آیت) ” منکم “ یعنی تم میں سے اور فیکم یعنی تم میں کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ اے اولین مخاطبین یعنی قریش مکہ ! اللہ کا عالیشان رسول تمہارے ہی خاندان کا فرد ہے ، تم اسے پہچانتے ہو ، اس کے حسب نسب سے واقف ہو ، اس کے اخلاق واطوار کو جانتے ہو۔ (آیت) ” من انفسکم “ میں یہ ساری باتیں آگئی ہیں۔ البتہ تم میں اور رسول میں یہ واضح فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی نازل فرما کر اس کے مرتبے کو بہت بلند کردیا ہے اور پھر اسے معصوم یعنی ہر قسم کی غلطیوں سے پاک رکھا ہے۔ اسے گارنٹی حاصل ہے کہ اس سے غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ اگر کوئی معمولی سی لغزش ہوجائے تو فورا گرفت ہوجاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کردیتا ہے بعض مفسرین (آیت) ” انفسکم “ کی بجائے (آیت) ” انفسکم “ پڑھتے ہیں۔ انفس نفس کی جمع ہے جس کا معنٰی جان ہے کہ تمہاری ہی جانوں یعنی خاندان ، قبیلہ وغیرہ میں سے آیا ہے اور انفس نفیس کا معنی دیتا ہے اور اس طرح معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ نے تم میں سے نہایت شریف خاندان سے عظیم المرتبت رسول مبعوث فرمایا ہے۔ خاندان قریش دنیا بھر میں اشرف خاندان تسلیم کیا جاتا ہے اور حضور ﷺ کی بعثت اسی خاندان میں ہوئی ۔ آپ (علیہ السلام) کا اپنا ارشاد مبارک بھی ہے کہ اللہ نے خاندانِ قریش کو تمام قبائل اور خاندانوں پر فضیلت بخشی ہے۔ پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو اللہ نے فضیلت عطا کی اور اسی خاندان سے آپ کو اٹھایا اور سب سے برگزیدہ بنایا۔ بہرحال پہلی تفسیر یعنی تمہاری جانوں میں عظیم الشان رسول آیا ہے ، زیادہ تسلیم کی جاتی ہے۔ خیر خواہ رسول : فرمایا اس عظیم المرتبت رسول کی خصلت حمیدہ یہ ہے (آیت) ” عزیز علیہ ماعنتم “ اس پر تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ تم کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائو ، اسی لیے اس رسول کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم دائرہ اسلام میں داخل ہو کر ابدی تکلیف سے بچ جائو۔ ما عنتم میں ما مامصدریہ ہے کہ اس کو ماموصولہ بنائیں تو پھر بھی اس کا معنی یہی بنتا ہے ، کہ وہ چیز جس کی وجہ سے تم مشقت میں مبتلا ہو جائو ، اس رسول اعظم پر شاق گزرتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے تمہیں تکلیف نہ پہنچے اور تم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آسانی میں رہو۔ دنیا کی تکالیف سے بچ جائو ، اور آخرت کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ اسی لیے حضور ﷺ نے دوسروں کے ساتھ بھی آسانی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے (آیت) ” یسروا ولا تعسروا “ آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدانہ کرو۔؎ فرمایا اس نبی کی دوسری صفت یہ ہے (آیت) ” حریص علیم وہ تمہاری بہتری کے لیے بڑا حریص ہے ، تمہاری خیر خواہی کے لیے اس کے دل میں تڑپ ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری اور لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی نے جنگل میں آگ جلائی اور اس پر پتنگے جمع ہوگئے۔ وہ پروانے آگ میں گر رہے ہیں مذکورہ شخص ان کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ زبردستی آگ میں گر رہے ہیں۔ حضور نے فرمایا ، میری اور تمہاری مثال بھی ایسی ہے ” انا اخذکم بحجزکم وانتم تقعون “ میں تمہیں دوزخ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں مگر تم زبردستی جہنم میں گرنا چاہتے ہو۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس وہ عظیم رسول آیا۔ جو تمہارے فائدہ کے لیے بہت حریص ہے۔ فرمایا اس رسول کا تیسرا وصف یہ ہے (آیت) ” بالمومنین رء وف الرحیم “ کہ وہ ایمان والوں کے لیے نہایت شفیق اور بڑا مہربان ہے۔ آپ (علیہ السلام) کی شفقت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” واخفض جناحک للمومنین “ (الحجر) آپ اپنا شفقت کا بازو مومنوں کے لیے ہمیشہ پھیلائے رکھیں اور اپنے متبعین کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں۔ سورة آل عمران میں ہے (آیت) ” فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم “ اللہ کی رحمت سے آپ کے لیے نرم دل ہیں (آیت) ” ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک “ اگر آپ سخت مزاج اور تنگ دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد سے پراگندہ ہوجاتے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تعریف بیان فرمائی کہ وہ مومنوں کے لیے نہایت شفیق اور بڑا مہربان ہے ، لہٰذا اہل ایمان کو چاہیے کہ اس کا اتباع کریں ، اور انہیں خیر خواہی کی بات ہی بتائے گا اور اسی میں ان کی بہتری ہوگی ، آپ کے حکم سے روگردانی کریں گے تو ناکام ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی حیثیت کو واضح کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” فان تولوا “ اگر تم روگردانی کروگے۔ تمہارے پاس ایسا عظیم المرتبت رسول آیا ہے جو تمہارا بہترین خیر خواہ ہے اور اس نے تمہارے لیے بہترین پروگرام دیا ہے ۔ مشرکینھ سے برات کا اظہار پہلے ہوچکا ہے ، قانون صلح وجنگ بھی بیان ہوگیا۔ کفر وشرک کی قباحتوں اور منافقین کی خرابیوں کی بھی واضح کردیا گیا ، پھر اہل ایمان کی خوبیاں اور ان کی صفات حسنہ کا ذکر ہوا ۔ تو فرمایا کہ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد بھی اگر یہ لوگ آپ سے منہ پھیریں (آیت) ” فقل حسبی اللہ “ تو آپ کہہ دیں کہ میرے لیے تو اللہ تعالیٰ کافی ہے ، مجھے کسی دوسرے کا خوف ہے نہ پرواہ ، کیونکہ جس کی کفایت اللہ کے ذمے ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چناچہ سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ پر کمال اعتماد کا ذکر بھی آگیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ علیم کل ، مختار مطلق ، قدرت تامہ کا مالک نافع اور ضار صرف وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر قسم کی قولی ، فعلی اور بدنی عبادات کے لائق صرف وہی ہے۔ توکل علی اللہ : فرمایا جب اللہ تعالیٰ ان صفات کا حامل ہے تو آپ صاف صاف اعلان فرما دیں (آیت) ” علی توکلت “ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا (آیت) ” ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ “ (الطلاق) جو اللہ پر بھروسہ کریگا ، اللہ تعالیٰ اس کی کفایت کریگا۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کمال ایمان کی علامت ہے۔ ایمان والوں کو یہی تعلیم دی گئی ہے (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المومنون “ (آل عمران) ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کریں اور نیکی کا کام میں مشغول رہیں ، قلت و کثرت کو خاطر میں لائے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی اعتماد کریں۔ (آیت) ” وھو رب العرش العظیم “ اللہ تعالیٰ ہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ ظاہر ہے کہ جو ذات عرش جیسی بڑی چیز کا مالک ہے تو باقی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو خود ہی اس کی ملکیت میں آجاتی ہیں۔ یہاں پر عرش عظیم کا ذکر کر کے اللہ نے ہر چیز پر اپنی ملکیت کو واضح کردیا ہے۔ وسعت کائنات : پرانے ریاضی دان کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین کی نسبت بہت بڑا ہے جدید ماہرین فلکیات کی تحقیق یہ ہے کہ زمین اور سورج میں ایک اور تیرہ لاکھ کی نسبت ہے یعنی سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ مگر جب زمین سے مشاہدہ کرتے ہیں تو سورج تھوڑی سی جگہ میں محدود نظرآتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آسمانی دنیا کا پھیلائو کتنا وسیع ہے۔ اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے ، تیسرے حتی کہ ساتویں آسمان کی وسعتوں کا اندازہ لگائیں۔ حضور ﷺ نے کرسی کی عظمت کے متعلق فرمایا کہ ساتوں آسمان اس کے سامنے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھوٹا سا چھلا پڑا ہو۔ اس سے آپ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کی نسبت کا حساب لگا لیں۔ پرانی ریاضی والے کہتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں سے اوپر جو فلک الافلاک ہے ، وہی عرش عظیم ہے۔ گویا سات آسمانوں اور آٹھویں کرسی کے اوپر عرش ہے جو ان سب کو گھیرے ہوئے ہے اس طرح گویا عرش عظیم کی وسعت کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا۔ بعض فرماتے ہیں کہ فلک الافلاک کا اندرونی نصف قطر ساڑھے دس کروڑ میل ہے اور ظاہر ہے کہ پورا قطر اس سے دگنا یعنی اکیس کروڑ میل ہوگا۔ یہ تو اندرونی حصے کی پیمائش کا اندازہ ہے ، بیرونی حصے کی تو کوئی انتہا نہیں ، بہرحال عرش عظیم کے مالک اللہ نے ہر چھوٹی بڑی چیز کی ملکیت اور اس پر اپنے تصرف کو واضح فرما دیا ہے۔ فرمایا ، وہ عرش عظیم کا مالک ہے ، تمام چیزوں کا اقتدار اور اختیار اسی کے قبضے میں ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآنی پروگرام کی اشاعت کریں۔ پھر اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اسے کرنے دیں اور کسی کی پرواہ نہ کریں ، جہاد کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں توحید کا مسئلہ بیان کردیا ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں باہم مربوط ہیں۔ جہاد کی تمام مشکلات اللہ کی وحدانیت اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے برداشت کی جاتی ہیں۔ تا کہ کفر شرک سے بچ کر ہمیشہ کے نقصان سے بچ جائیں۔ یہ دونوں سورتیں انفال اور توبہ ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اللہ نے ان میں قانون صلح وجنگ نہایت تفصیل سے بیان فرمادیا ہے۔ غزوات کا فلسفہ بھی بیانا کردیا ہے اور پھر ان احکام پر عملدرآمد کی بھی ترغیب دی ہے۔ اب اگلی سورة میں قرآن پاک کے بارے میں بات چیت ہوگی۔
Top