Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
البتہ تحقیق آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں سے گراں گزرتی ہے اس پر وہ چیز جو تمہیں مشقت میں ڈالے۔ وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ نہایت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے
ربط آیات : سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کفر اور شرک کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور پھر جہاد کا حکم دے کر اس سے متعلقہ قوانین بھی نازل فرمائے اللہ نے اس بات کو وضاحت فرما دی کہ فریضہ جہاد سے کوئی ذاتی اغراض مقصود نہیں بلکہ یہ سارا سلسلہ اقامت دین کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ لوگ کفر اور شرک کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرلیں تو مقصد پورا ہوجاتا ہے چناچہ سورة ہذا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے (آیت) ” فان تابوا واقامو الصلوۃ واتوا ا لزکوۃ فاخوانکم فی الدین “ یعنی اگر وہ تائب ہوجائیں ، نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، اب ان سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ مضامین سورة توبہ : جہاد دشمن کے ساتھ براہ راست لڑائی کا نام ہے مگر یہ لڑائی بذات خود کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ بالواسطہ نیکی ہے ، جہاد کے ذریعے اقامت دین ہوتی ہے اور توحید کی اشاعت ہوتی ہے ، اس واسطے یہ نیکی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں جہاد کے قوانین کے علاوہ نماز ، زکوٰۃ اور مصارف زکوٰۃ کے مسائل بیان فرمائے ہیں۔ جہاد ہی کے ضمن میں غزوہ تبوک کا اہم حصہ سورة میں بیان ہوا ہے۔ منافقین کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کر کے ان کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی جماعتی تنظیم اور مرکزیت کا ذکر آیا ہے مساجد کی حیثیت اور مسجد ضرار کا ذکر بھی آیا ہے ، جہاد کو افضل الاعمال فرمایا گیا ہے۔ فرضیت جہاد کی دو صورتیں یعنی فرض کفایہ اور فرض عین کا ذکر ہوا ہے ایمان والوں کے خصائل بیان ہوئے ہیں ۔ جن لوگوں سے کوتاہی ہوگئی تھی ان کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، ان کی آزمائش اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے معاملات اور ان کی اصلاح کا پروگرام بتلایا گیا ہے ، اور اب آخر میں رسالت اور توحید کا بیان آرہا ہے۔ عظیم الشان رسولـ: آج کی آخری دو آیتوں میں پہلے رسالت کا بیان ہے نبی کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ دین کا پورا پروگرام نبی کی معرفت ہی ملتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی حیثیت کو بالکل واضح کردیا ہے تا کہ کسی کو کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لقد جائکم رسول “ البتہ تحقیق آیا ہے تمہارے پاس رسول۔ لفظ رسول نکرہ ہے اور اس سے مراد بڑی شان اور عظمت والا رسول ہے یعنی اے لوگو ! تمہارے پاس عظیم المرتبت رسول آیا ہے۔ اور وہ رسول کون ہے ؟ (آیت) ” من انفسکم “ تمہاری جانوں میں سے ہے یعنی تمہاری ہی جنس بشر یا انسانوں میں سے ہے۔ اللہ کے تمام رسول بشر یا انسان تھے مگر کامل درجے کے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں اخلاق اور اعمال کا انتہائی درجہ رکھا تھا ، گویا بشریت انبیاء کا اقرار بھی ضروری ہے (آیت) ” قل انما انا بشرمثلکم یوحی الی “ (الکہف) میں پیدائشی طور پر تمہاری طرح انسان ہوں لیکن میری طرف وحی آتی ہے۔ اللہ نے نوع انسانی کے لیے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کو نمونہ بنایا کہ سب لوگ ان کے نقش قدم پر چل کر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائیں۔ اگر اللہ کے نبی نوع انسانی کے علاوہ کسی دوسری جنس سے ہوتے تو انسان ان سے کما حقہ استفادہ نہ کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر ملائکہ یا جنات کو انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا جاتا تو انسان ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکتے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف انہی کی جنس سے ان کی طرف رسول مبعوث فرمائے تا کہ وہ ان کا اتباع کرسکیں یہاں بھی فرمایا کہ تمہی میں سے تمہاری طرف ایک عظیم الشان رسول آیا ہے یہاں پر (آیت) ” من انفسکم “ کے الفاظ آئے ہیں ، بعض دوسرے مقامات پر (آیت) ” منکم “ یعنی تم میں سے اور فیکم یعنی تم میں کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ اے اولین مخاطبین یعنی قریش مکہ ! اللہ کا عالیشان رسول تمہارے ہی خاندان کا فرد ہے ، تم اسے پہچانتے ہو ، اس کے حسب نسب سے واقف ہو ، اس کے اخلاق واطوار کو جانتے ہو۔ (آیت) ” من انفسکم “ میں یہ ساری باتیں آگئی ہیں۔ البتہ تم میں اور رسول میں یہ واضح فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی نازل فرما کر اس کے مرتبے کو بہت بلند کردیا ہے اور پھر اسے معصوم یعنی ہر قسم کی غلطیوں سے پاک رکھا ہے۔ اسے گارنٹی حاصل ہے کہ اس سے غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ اگر کوئی معمولی سی لغزش ہوجائے تو فورا گرفت ہوجاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کردیتا ہے بعض مفسرین (آیت) ” انفسکم “ کی بجائے (آیت) ” انفسکم “ پڑھتے ہیں۔ انفس نفس کی جمع ہے جس کا معنٰی جان ہے کہ تمہاری ہی جانوں یعنی خاندان ، قبیلہ وغیرہ میں سے آیا ہے اور انفس نفیس کا معنی دیتا ہے اور اس طرح معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ نے تم میں سے نہایت شریف خاندان سے عظیم المرتبت رسول مبعوث فرمایا ہے۔ خاندان قریش دنیا بھر میں اشرف خاندان تسلیم کیا جاتا ہے اور حضور ﷺ کی بعثت اسی خاندان میں ہوئی ۔ آپ (علیہ السلام) کا اپنا ارشاد مبارک بھی ہے کہ اللہ نے خاندانِ قریش کو تمام قبائل اور خاندانوں پر فضیلت بخشی ہے۔ پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو اللہ نے فضیلت عطا کی اور اسی خاندان سے آپ کو اٹھایا اور سب سے برگزیدہ بنایا۔ بہرحال پہلی تفسیر یعنی تمہاری جانوں میں عظیم الشان رسول آیا ہے ، زیادہ تسلیم کی جاتی ہے۔ خیر خواہ رسول : فرمایا اس عظیم المرتبت رسول کی خصلت حمیدہ یہ ہے (آیت) ” عزیز علیہ ماعنتم “ اس پر تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ تم کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائو ، اسی لیے اس رسول کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم دائرہ اسلام میں داخل ہو کر ابدی تکلیف سے بچ جائو۔ ما عنتم میں ما مامصدریہ ہے کہ اس کو ماموصولہ بنائیں تو پھر بھی اس کا معنی یہی بنتا ہے ، کہ وہ چیز جس کی وجہ سے تم مشقت میں مبتلا ہو جائو ، اس رسول اعظم پر شاق گزرتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے تمہیں تکلیف نہ پہنچے اور تم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آسانی میں رہو۔ دنیا کی تکالیف سے بچ جائو ، اور آخرت کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ اسی لیے حضور ﷺ نے دوسروں کے ساتھ بھی آسانی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے (آیت) ” یسروا ولا تعسروا “ آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدانہ کرو۔؎ فرمایا اس نبی کی دوسری صفت یہ ہے (آیت) ” حریص علیم وہ تمہاری بہتری کے لیے بڑا حریص ہے ، تمہاری خیر خواہی کے لیے اس کے دل میں تڑپ ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری اور لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی نے جنگل میں آگ جلائی اور اس پر پتنگے جمع ہوگئے۔ وہ پروانے آگ میں گر رہے ہیں مذکورہ شخص ان کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ زبردستی آگ میں گر رہے ہیں۔ حضور نے فرمایا ، میری اور تمہاری مثال بھی ایسی ہے ” انا اخذکم بحجزکم وانتم تقعون “ میں تمہیں دوزخ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں مگر تم زبردستی جہنم میں گرنا چاہتے ہو۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ تمہارے پاس وہ عظیم رسول آیا۔ جو تمہارے فائدہ کے لیے بہت حریص ہے۔ فرمایا اس رسول کا تیسرا وصف یہ ہے (آیت) ” بالمومنین رء وف الرحیم “ کہ وہ ایمان والوں کے لیے نہایت شفیق اور بڑا مہربان ہے۔ آپ (علیہ السلام) کی شفقت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” واخفض جناحک للمومنین “ (الحجر) آپ اپنا شفقت کا بازو مومنوں کے لیے ہمیشہ پھیلائے رکھیں اور اپنے متبعین کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں۔ سورة آل عمران میں ہے (آیت) ” فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم “ اللہ کی رحمت سے آپ کے لیے نرم دل ہیں (آیت) ” ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک “ اگر آپ سخت مزاج اور تنگ دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد سے پراگندہ ہوجاتے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تعریف بیان فرمائی کہ وہ مومنوں کے لیے نہایت شفیق اور بڑا مہربان ہے ، لہٰذا اہل ایمان کو چاہیے کہ اس کا اتباع کریں ، اور انہیں خیر خواہی کی بات ہی بتائے گا اور اسی میں ان کی بہتری ہوگی ، آپ کے حکم سے روگردانی کریں گے تو ناکام ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی حیثیت کو واضح کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” فان تولوا “ اگر تم روگردانی کروگے۔ تمہارے پاس ایسا عظیم المرتبت رسول آیا ہے جو تمہارا بہترین خیر خواہ ہے اور اس نے تمہارے لیے بہترین پروگرام دیا ہے ۔ مشرکینھ سے برات کا اظہار پہلے ہوچکا ہے ، قانون صلح وجنگ بھی بیان ہوگیا۔ کفر وشرک کی قباحتوں اور منافقین کی خرابیوں کی بھی واضح کردیا گیا ، پھر اہل ایمان کی خوبیاں اور ان کی صفات حسنہ کا ذکر ہوا ۔ تو فرمایا کہ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد بھی اگر یہ لوگ آپ سے منہ پھیریں (آیت) ” فقل حسبی اللہ “ تو آپ کہہ دیں کہ میرے لیے تو اللہ تعالیٰ کافی ہے ، مجھے کسی دوسرے کا خوف ہے نہ پرواہ ، کیونکہ جس کی کفایت اللہ کے ذمے ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چناچہ سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ پر کمال اعتماد کا ذکر بھی آگیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ علیم کل ، مختار مطلق ، قدرت تامہ کا مالک نافع اور ضار صرف وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر قسم کی قولی ، فعلی اور بدنی عبادات کے لائق صرف وہی ہے۔ توکل علی اللہ : فرمایا جب اللہ تعالیٰ ان صفات کا حامل ہے تو آپ صاف صاف اعلان فرما دیں (آیت) ” علی توکلت “ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا (آیت) ” ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ “ (الطلاق) جو اللہ پر بھروسہ کریگا ، اللہ تعالیٰ اس کی کفایت کریگا۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کمال ایمان کی علامت ہے۔ ایمان والوں کو یہی تعلیم دی گئی ہے (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المومنون “ (آل عمران) ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کریں اور نیکی کا کام میں مشغول رہیں ، قلت و کثرت کو خاطر میں لائے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی اعتماد کریں۔ (آیت) ” وھو رب العرش العظیم “ اللہ تعالیٰ ہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ ظاہر ہے کہ جو ذات عرش جیسی بڑی چیز کا مالک ہے تو باقی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو خود ہی اس کی ملکیت میں آجاتی ہیں۔ یہاں پر عرش عظیم کا ذکر کر کے اللہ نے ہر چیز پر اپنی ملکیت کو واضح کردیا ہے۔ وسعت کائنات : پرانے ریاضی دان کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین کی نسبت بہت بڑا ہے جدید ماہرین فلکیات کی تحقیق یہ ہے کہ زمین اور سورج میں ایک اور تیرہ لاکھ کی نسبت ہے یعنی سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ مگر جب زمین سے مشاہدہ کرتے ہیں تو سورج تھوڑی سی جگہ میں محدود نظرآتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آسمانی دنیا کا پھیلائو کتنا وسیع ہے۔ اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے ، تیسرے حتی کہ ساتویں آسمان کی وسعتوں کا اندازہ لگائیں۔ حضور ﷺ نے کرسی کی عظمت کے متعلق فرمایا کہ ساتوں آسمان اس کے سامنے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھوٹا سا چھلا پڑا ہو۔ اس سے آپ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کی نسبت کا حساب لگا لیں۔ پرانی ریاضی والے کہتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں سے اوپر جو فلک الافلاک ہے ، وہی عرش عظیم ہے۔ گویا سات آسمانوں اور آٹھویں کرسی کے اوپر عرش ہے جو ان سب کو گھیرے ہوئے ہے اس طرح گویا عرش عظیم کی وسعت کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا۔ بعض فرماتے ہیں کہ فلک الافلاک کا اندرونی نصف قطر ساڑھے دس کروڑ میل ہے اور ظاہر ہے کہ پورا قطر اس سے دگنا یعنی اکیس کروڑ میل ہوگا۔ یہ تو اندرونی حصے کی پیمائش کا اندازہ ہے ، بیرونی حصے کی تو کوئی انتہا نہیں ، بہرحال عرش عظیم کے مالک اللہ نے ہر چھوٹی بڑی چیز کی ملکیت اور اس پر اپنے تصرف کو واضح فرما دیا ہے۔ فرمایا ، وہ عرش عظیم کا مالک ہے ، تمام چیزوں کا اقتدار اور اختیار اسی کے قبضے میں ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآنی پروگرام کی اشاعت کریں۔ پھر اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اسے کرنے دیں اور کسی کی پرواہ نہ کریں ، جہاد کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں توحید کا مسئلہ بیان کردیا ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں باہم مربوط ہیں۔ جہاد کی تمام مشکلات اللہ کی وحدانیت اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے برداشت کی جاتی ہیں۔ تا کہ کفر شرک سے بچ کر ہمیشہ کے نقصان سے بچ جائیں۔ یہ دونوں سورتیں انفال اور توبہ ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اللہ نے ان میں قانون صلح وجنگ نہایت تفصیل سے بیان فرمادیا ہے۔ غزوات کا فلسفہ بھی بیانا کردیا ہے اور پھر ان احکام پر عملدرآمد کی بھی ترغیب دی ہے۔ اب اگلی سورة میں قرآن پاک کے بارے میں بات چیت ہوگی۔
Top